مژدہ اے دل پھر ہوائے انقلاب آنے کو ہے - مولانا سید علی حیدر صاحب طبا طبائی

کاشفی

محفلین
غزل
(مولانا سید علی حیدر صاحب طبا طبائی نظم لکھنوی)

مژدہ اے دل پھر ہوائے انقلاب آنے کو ہے
دور گردوں ہو چُکا، دورِ شراب آنے کو ہے

حُسن کی آئینہ داری کو شباب آنے کو ہے
زلف میں بل گیسؤں میں پیچ و تاب آنے کو ہے

آنکھ میں تیری مروت بھول کر آتی نہیں
شرم سو سو بار آنے کو حجاب آنے کو ہے

کہہ دیا بس، فال بد مُنہ سے نہ او واعظ نکال
مجھ پہ رحمت اُترے گی تجھ پر عذاب آنے کو ہے

پتلیاں پتھرا چلی ہیں کرتے کرتے انتظار
چارہ گر خوش ہیں کہ اب آنکھوں میں خواب آنے کو ہے

دیکھئے کیا رنگ ہو محفل کا اہل مصر کی
ہاتھ میں چھریاں ہیں یوسف بے نقاب آنے کو ہے

ہجر کی اک شب میں گھڑیاں بج چُکی ہیں دو ہزا
اے فلک سمجھوں گا میں روز حساب آنے کو ہے

سونے والو وقت آخر ہوگیا اب تو اُٹھو
لے کے آئینہ لبِ بام آفتاب آنے کو ہے

شیشہء توبہ نہ جوش کشمکش میں ٹوٹ جائے
جھوم کر صحن ِ گلستاں میں سحاب آنے کو ہے

آگئی عارض پہ سُرخی، ہر طرح سے ہے ستم
یا حجاب آنے کو ہے اب یا عتاب آنے کو ہے

جوش گل کی کشمکش میں آگیا سبزہ کو غش
شیشہء شبنم میں کھنچ کھنچ کر گلاب آنے کو ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب غزل ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔ دو اشعار میں شاید سہو ہے ہو سکے تو انہیں دوبارہ دیکھ لیں۔

اس شعر میں شاید "بج" ہونا چاہیے۔
ہجر کی اک شب میں گھڑیاں بچ چُکی ہیں دو ہزا
اے فلک سمجھوں گا میں روز حساب آنے کو ہے

اس شعر میں شاید "کھنچ کھنچ کے" ہونا چاہیے۔

جوش گل کی کشمکش میں آگیا سبزہ کو غش
شیشہء شبنم میں کھینچ کھینچ کر گلاب آنے کو ہے

 

فاتح

لائبریرین
نظم طبابائی کا نام شرح دیوانِ غالب کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔
مولانا کا اپنا دیوان پڑھنے کی حسرت ہی رہی جسے آپ منتخب کلام کے ذریعے شاید پورا کر دیں۔ شکریہ جناب کاشفی صاحب۔
 

کاشفی

محفلین
نظم طبابائی کا نام شرح دیوانِ غالب کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔
مولانا کا اپنا دیوان پڑھنے کی حسرت ہی رہی جسے آپ منتخب کلام کے ذریعے شاید پورا کر دیں۔ شکریہ جناب کاشفی صاحب۔

جی بالکل جناب فاتح صاحب۔۔شریک محفل کرتا رہونگا۔۔
شکریہ بہت بہت۔
 

فاتح

لائبریرین
عنوان اور مطلع میں ایک الف اضافی ٹائپ ہو گیا ہے، اسے درست کر دیں۔
مژدہ اے دل پھرا ہوائے انقلاب آنے کو ہے
 

کاشفی

محفلین
غزل کی پسندیدگی کے لیئے۔۔۔
شکریہ رانا صاحب!
شکریہ سید محمد نقوی صاحب!
شکریہ پیاسا صحرا صاحب!
 
مژدہ اے دل پھر ہوائے انقلاب آنے کو ہے
دور گردوں ہو چُکا، دورِ شراب آنے کو ہے

حُسن کی آئینہ داری کو شباب آنے کو ہے
زلف میں بل گیسؤں میں پیچ و تاب آنے کو ہے

آنکھ میں تیری مروت بھول کر آتی نہیں
شرم سو سو بار آنے کو حجاب آنے کو ہے

کہہ دیا بس، فال بد مُنہ سے نہ او واعظ نکال
مجھ پہ رحمت اُترے گی تجھ پر عذاب آنے کو ہے

پتلیاں پتھرا چلی ہیں کرتے کرتے انتظار
چارہ گر خوش ہیں کہ اب آنکھوں میں خواب آنے کو ہے

دیکھئے کیا رنگ ہو محفل کا اہل مصر کی
ہاتھ میں چھریاں ہیں یوسف بے نقاب آنے کو ہے

ہجر کی اک شب میں گھڑیاں بج چُکی ہیں دو ہزا
اے فلک سمجھوں گا میں روز حساب آنے کو ہے

سونے والو وقت آخر ہوگیا اب تو اُٹھو
لے کے آئینہ لبِ بام آفتاب آنے کو ہے

شیشہء توبہ نہ جوش کشمکش میں ٹوٹ جائے
جھوم کر صحن ِ گلستاں میں سحاب آنے کو ہے

آگئی عارض پہ سُرخی، ہر طرح سے ہے ستم
یا حجاب آنے کو ہے اب یا عتاب آنے کو ہے

جوش گل کی کشمکش میں آگیا سبزہ کو غش
شیشہء شبنم میں کھنچ کھنچ کر گلاب آنے کو ہے
 
Top