مٹی کا رشتہ

نظام الدین

محفلین
آدم کی تخلیق میں تراب، یعنی مٹی کا عنصر پانی، ہوا اور کچھ دیگر لوازمات سے زیادہ رہا ہے۔ اس کو اتارا بھی اسی مٹی پہ، اس کی بیشتر معیشت، کاروبار، حیات، ذرائع و وسائل، جینا مرنا اسی مٹی اور زمین کی مرہون منت ٹھہرائے گئے۔ اس کی گِل اسی مٹی سے تیار ہوئی۔ اس کی فطرت و فہامت اس مٹی کی تاثیر اور مزاج کے مطابق ڈھالی گئی۔ مگر جب اس مٹی سے بیگانگی روا رکھ کر یہ مٹی کا پُتلا ملٹی اسٹوری فلیٹوں میں جابسا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی ایسی نہ سمجھ میں آنے والی بیماریاں، دماغی عارضے، نفسیاتی الجھنیں اور روحانی رکاوٹیں پیدا ہوگئیں کہ جن کا شافی علاج لمحہ موجود تک میڈیکل سائنس کے پاس بھی موجود نہیں۔ یہ سارا شاخسانہ زمین مٹی سے ناتہ توڑنے کا ہے۔ مٹی کے قریب رہنا، محسوس کرنا ۔۔۔۔۔ اس پر چلنا پھرنا، دیکھنا، سونگھنا۔۔۔۔ اس پر ٹہلنا، لیٹنا، سونا، اس کی کاشت، نہلائی، گوڈائی، سینچائی وغیرہ بذات خود ہزار بیماریوں کا علاج ہیں۔

(محمد یحییٰ خان کے ناول ’’کاجل کوٹھا‘‘ سے اقتباس)
 

اکمل زیدی

محفلین
آدم کی تخلیق میں تراب، یعنی مٹی کا عنصر پانی، ہوا اور کچھ دیگر لوازمات سے زیادہ رہا ہے۔ اس کو اتارا بھی اسی مٹی پہ، اس کی بیشتر معیشت، کاروبار، حیات، ذرائع و وسائل، جینا مرنا اسی مٹی اور زمین کی مرہون منت ٹھہرائے گئے۔ اس کی گِل اسی مٹی سے تیار ہوئی۔ اس کی فطرت و فہامت اس مٹی کی تاثیر اور مزاج کے مطابق ڈھالی گئی۔ مگر جب اس مٹی سے بیگانگی روا رکھ کر یہ مٹی کا پُتلا ملٹی اسٹوری فلیٹوں میں جابسا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی ایسی نہ سمجھ میں آنے والی بیماریاں، دماغی عارضے، نفسیاتی الجھنیں اور روحانی رکاوٹیں پیدا ہوگئیں کہ جن کا شافی علاج لمحہ موجود تک میڈیکل سائنس کے پاس بھی موجود نہیں۔ یہ سارا شاخسانہ زمین مٹی سے ناتہ توڑنے کا ہے۔ مٹی کے قریب رہنا، محسوس کرنا ۔۔۔۔۔ اس پر چلنا پھرنا، دیکھنا، سونگھنا۔۔۔۔ اس پر ٹہلنا، لیٹنا، سونا، اس کی کاشت، نہلائی، گوڈائی، سینچائی وغیرہ بذات خود ہزار بیماریوں کا علاج ہیں۔

(محمد یحییٰ خان کے ناول ’’کاجل کوٹھا‘‘ سے اقتباس)
مگر بھائی کیا کریں ...اس مٹی سے ربط رکھنا اتنا مہنگا ہوگیا ہے کے اب معلق ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ...اور انتظار کر رہے ہیں کیں ..جہاں سے گل اٹھی ہے وہیں جا ملیں --- کہ پھر سے ایک بار رابطہ بحال ہوجائے.....
 
Top