مّدوجزر

تفسیر

محفلین

مّدوجزر
انسان کی خود سے جدوجہد پر ایک مضمون
سید تفسیر احمد



سمندرمجھ پہ غصہ تھا۔
اُس کی آواز میں گرج تھی اوراِس گرج سے میرے کان بہرے ہورے تھے۔
میں نےسوچا،کیااس شورمیں دوسری آوازیں کھوگئ ہیں؟
ہوا سے ریت کےاُڑنے کی آواز اور ہوا کی گھاس سےسرگوشیاں
۔ کیا میں اُن آوازوں کو بھی پہچان سکتا ہوں؟
کبھی غم ،کبھی خوشی، کیوں؟
ایک انسان خود کی تلاش میں نکلتاہے
او ر غم اور خوشی کا حل دریافت کرلیتا ہے


زندگی میں بعض دفعہ ایسے بھی مواقع آتے ہیں کہ انسان پر یاسیت طاری ہوجاتی ہےاور وہ نہ یاسیت کوسمجھ پاتا ہے اور نہ ہی اِس کا اظہار کرسکتا ہے مگراُس کو ہر وقت کسی بات کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے آپ کو زندگی کے ایک ایسے ہی موڑ پر پایا ۔

مجھ کونہ توعلم نفسیات پراعتبار ہےاورناہی نفسیات کےماہروں پر بھروسہ ہے۔ اِس لیے میں نے ماہرِ نفسیات کے پاس جاناگوارا نہیں کیا مگر جیسےجیسے وقت گزرا میری یاسیت نےگہرائ اختیارکرلی۔ میں نےسوچا کہ اگرمیں نےاِس کاحل جلد نہ تلاش کیاتومیں شاید اِس یاسیت کو برداشت نہ کرپاؤں۔

میں نےاپنی دوست سُہانہ سے اِس بات کا ذکرکیا۔ سُہانہ اِس بات کوسن کرہنستے ہنستے دوہری ہوگئی ۔ تم الّوہو، تم پاگل ہو۔تم اباجان کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ تم الّو ہو،تم پاگل ہو، سُہانہ کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ وہ مجھے پاگل کہتی ہے اور میں بھی اُس کو پاگلوں کی سردار کہتاہوں۔

ہاں ، کہتی توسچ ہے یہ میری پاگلوں کی سردار۔ ٹھیک تو ہے میں شاید الّو ہی ہوں۔ میں نےخود سے یہ کیوں نہیں سوچا؟ وہ اب مجھے بے وقوف بھی کہےگی۔میں نےماں کوٹیلیفوں کیا اوراپنی پریشانیوں کا ذکر کیا ۔ ماں نے بھی یہ ہی کہا۔۔ بیٹے تم ابّو سے کیوں چھپاتے ہو ؟ میں نےہفتہ کوماں کےہاں جانے کا پروگرام بنایا۔

میرے والدین کا گھر سمندر کے پاس ہے۔ ہفتہ کےدن گاڑی نکالی اور ریڈیو کوآن کیا تویہ گانابج رہاتھا۔

میری سانسوں میں ہے توسمایا
میر١جیون تو ہے تیرا سایہ
تیری پوجا کروں میں ہر دم
یہ ہے تیرے کرم کبھی خوشی کبھی غم
نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم
صبع شام چرنوں میں دیئے ہم جلائیں
دیکھیں جہاں بھی دیکھیں تم ہی کو پائیں
ان لبوں پہ تیرا بس تیرا نام ہو
پیار دل سے کبھی بھی نہ ہو کم
نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم

میرے آنسو بہنے لگے۔
جب پہنچا توماں ہمیشہ کی طرح باورچی خانہ میں تھیں۔
میں نے ماں سے سوال کیا۔
کیا اباجان کے پاس اس کا حل ہے؟
ماں نے کہا بیٹا میں تو یہ جانتی ہوں کہ اگر توشادی کرلےتوسب ٹھیک ہوجائےگا۔ اِس سے پہلے کہ ہم اِس دنیا سے چل بسیں ہمیں ہمارے پوتے اورپوتیاں دیکھادے۔
ماں کی یہ رَٹ اُس وقت سے ہے جب میں اٹھارہ سال کا تھا۔ ماں کے پاس ہر پریشانی کاصرف ایک ہی حل ہے پیار و محبت ، شادی بیوی اور بچے۔
میں نےآگے بڑھ کرماں کا ماتھا چوما ۔
اباجان کہاں ہیں؟
ماں نے پیا رسے میرے سر پرچپت لگائ میرے منے وہ بھلا کہاں ہوں گے ، کتب خانے کےعلاوہ۔

جب میں برآمدہ سےگزرا تو ایک کمرے سے زبردست قہقے کی آواز آرہی تھی۔ ہاں میں تو بھول گیا کہ میری ایک بہن ہے جس کا نام سعدیہ ہے ۔ میں سعدیہ کوخوابوں کی شہزادی کہتا ہوں۔ وہ ہر وقت نیٹ پر ہوتی ہے اور لڑکوں سےگپ شپ لڑاتی ہے۔ مجھےاس بات کا یقین ہے کہ سعدیہ کی بے باکی اور لطف آمیز باتوں کی وجہ سےنیٹ پر ہرلڑکا اُس کا پروانہ ہوگا۔

میں نے کمرے میں سر ڈال کر کہا ، دنیا کو تم سےمحبت ہے اورمجھ کومیری ننھی سےمحبت ہے۔
سعدیہ نے زور سے چیخ ماری اوردوڑکرمجھ سے لپٹ گی۔
آپ ہمیشہ ہی غلط وقت پرآتے ہیں ۔ میں ریمشا سے بات کررہی ہوں وہ ضلع کوھاٹ کے ایک شہر میں رہتی ہے ۔ اُس کے پاس تو ویب کیم ہے ۔ چلئے آپ کی بات اُس سے کرواتی ہوں۔

میں سعدیہ کے دونوں گالوں کو پیار سے چوما اور کہا۔پھر کبھی سہی ۔ابھی اباجان انتظار کررہے ہیں۔
میں آپ سے کھانے کے وقت پرملوں گی ۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا سعدیہ نے پھر سے ھیڈ سیٹ پہن لیا ۔
کتب خانہ میں ہمیشہ کی طرح اباجان اپنی پسندیدہ آرامدہ کرسی پر بیٹھے کوئ کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے کمرے میں نظر پھیری۔ یہ وہی تو کمرہ ہے جہاں اباجان نےمجھے پڑھنا سیکھایا، جہاں ماں نے مجھے چلناسیکھایا اورجہاں میں نےاور سعدیہ نے سارا سارا دن آنکھ مچولیاں کھیلیں۔

جب اباجان نےمیری موجودگی کا احساس کیا توکتاب کو رکھ کرمیری طرف توجہ دی ۔ آنکھوں سے چشمہ اُتارا ۔

اباجان آپ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ میں نےسرسری طور پر پوچھا ۔
سقراط کے چھ سوال۔ اباجان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔

تقوٰی کیا ہے؟
جرات کیا ہے؟
انصاف کیا ہے؟
تقدس کیا ہے؟
اعتدال کیا ہے؟ اور
اچھائ کیا ہے؟

سقراط یہ نہیں جانناچاہتا تھا کہ تقو ی کن اَجزا سے مل کر بنا ہے۔
یا جرآ ت، انصاف ، تقدوس، اعتدال اور اچھائ کی خصوصیات مل کر تقوئ بناتی ہیں؟
کیا یہ اَجزا برابرکی مقدار میں تقوٰٰی کا حصہ ہیں؟
سقراط کا مقصد تو دنیا کو یہ بتانا تھا کہ بشر ہی دنیا کوصحیح عَمراورصحیح سوچ سے بہتر بناسکتا ہے۔
آج تم اِس لیے نہیں آئے ہو کہ میں اور تم سقراط کے سوالوں کا تجزیہ کریں۔
اباجان، ماں نےآپ کو بتایا ہوگا۔ میں نے دھیرے سےکہا۔
" زندگی ایک موڑ پرآ کرروک گئ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں"۔
میں نے بولنا شروع کیا اور تقریباً پندرہ منٹ تک بولتا رہا۔ میں نے اباجان کواپنی یاسیت کا بتایا۔ سُہانہ سے اپنے ربط و رشتہ کا ذکرکیا۔ اسکول، کام وکاج اوردوسری چیزوں میں دل کے نہ لگنے اظہار کیا۔ میں نےجب اپنی کہانی ختم کی تودیکھا کہ اباجان کی آنکھیں بند ہیں۔ میں نےسوچا شاید سورہے ہیں۔

کیا تم اب بھی پہلے کی طرح ساحلِ سمندر پرجاتے ہو؟ اباجان نے آنکھیں کھول کرمجھ سے پوچھا۔

بچپن سے مجھے سمندر سے بہت لگاؤ ہے۔ تقریباً میرا ہر روز ساحلِ سمندر پرگزرتا تھا۔ کالج کے ختم کرنے کے بعد میں نے شہر میں ایک فلیٹ لےلیا تھا اوراپنا کاروبار شروع کردیا تھا۔
اب جانا نہیں ہوتا ، کام سے بہت کم فرصت ملتی ہے۔ میں نے کہا۔
جس طرح ایک حکیم مریض کو نسخہ دیتا ہے اباجان نےایک کاغذ کو چارحصوں میں تقسیم کیا ۔ ہر پرچہ پر کچھ لکھا اور اُن سب کوتہہ کر کےمیری طرف بڑھایا۔یہ تمہاری دوا ہے۔ میں نےاباجان کو حیرت سے دیکھا اور سوچا کہ پوچھوں اباجان، " کیا آپ سنجیدہ ہیں؟" مگر یہ جرات نہ ہوئ۔

کل صبع تم ساحلِ سمندر پرجانا۔ یہ چار وقت کا نسخہ ہے۔ ایک 9 بجے، ایک 12بجے، ایک3 بجے اورآخرئ 6 بجے۔ بیٹا اگر اِن کی تاثیرچاہتے ہو تو ہر نسخہ کواس کے صحیح وقت پرکھولنا مگر اِن نسخہ کے لیے پرہیزگاری کی بھی ضرورت ہے۔کل صبع اُٹھنے کے بعد شام کے 6 بجے تک موسیقی اور ریڈیو کو مت سُننا اور نہ ہی ٹیلیویزن کو دیکھنا۔ یہاں تک کے لوگوں سے بھی مت بولنا۔

اس وقت ماں نے کمرے میں سرڈال کر کہا، ارے بیٹا ، کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے، چل کھالے۔ تیرے ابّو تو سارا دن بولتے رہیں گے۔
بقیہ دن ماں نےمجھے تمام رشتے داروں کی خبریں بتائیں ۔ سونیا کے بچے کی پیدائش، فو زیہ کے لڑکے کی اسکول ختم ہونے کی خبر۔ سعدیہ، جتنی دفعہ بھی اپنے کمرے سے باہر نِکلی تو اس نےماں کو باتوں سے روک کر اپنے نیٹ کے دوستوں کے قصے سنائے۔

رات کوگھرجاتے ہوے سارا راستہ میں سوچتا رہا کہ اباجان نے اِن پرچوں پر کیا لکھا ہے۔ لیکن یہ ہمت نہ ہوئ کہ ان کو کھول کردیکھوں۔ ساری رات بے چینی سےگزری۔

اس سے پہلے کہ سورج کی پہلی کِرن نکلتی میں ساحلِ سمندرپر پہنچ گیا۔ ھوا میں خنکی تھی۔ میں نےگاڑی سے کوٹ نکال کر پہنا اور ساحلِ سمندر پر ٹہلنے لگا۔ دور دور تک کوئ بندہ موجود نہ تھا۔
سمندر کی لہریں بے تابی سے میری طرف آتیں جیسے ایک بچھڑے دوست کو مدتوں بعد دیکھا ہو اور گلے ملنے کی شدید خواہش ہو اور پھرمایوس ہو کر ایسے لوٹ جاتیں جیسے مجھے پہچان نہ پارہی ہوں۔ میں نے اُداس نظروں سے سمندر کو دیکھا۔
میرے دوست، میرے ہمدم، میرے ساتھی، کیا تم بھی مجھے بھول گے ہو؟
جب 9 بجے تو میں نے پہلا نسخہ کھولا۔ اس پر لکھا تھا ۔

غور اور چوکس ہوکر سنو۔
میں نے اِن لفظوں کو بار بار پڑھا ۔کیا اباجان کی عقل خراب ہوگی ہے؟ اُنہوں نے موسیقی اور ریڈیو کو سننے سے منع کیا ہے۔ یہاں تک کے لوگوں سے بول چال پر بھی پابندی لگادی ہے۔ تو سننے کے لیے کیا رہ گیا ہے؟

میں نے بہت کوشش کی۔ لیکن بلکل خاموشی تھی ۔ صرف موجوں کی آواز، بگلے کی چوں چوں اور اونچائ پرایک جہاز کی بھن بھناہٹ کےسوا مجھ کوکوئ آواز نہ سنائ دی۔ کیا میں چوکس ہوکر اِن آوازوں کوسنوں؟ میں نے اپنے دل میں کہا۔

میں ایک ریت کے ٹیلے پر چڑھ کرساحل کا نظارہ کرنے لگا۔

سمندر مجھ پرغصہ تھا۔ اُس کی آواز میں گرج تھی۔ اوراس گر ج سے میرے کان بہرے ہو رہے تھے۔ میں سوچا، کیا اس شور میں دوسری آوازیں کھوگئ ہیں؟ ہوا سے ریت کی اُڑنے کی آواز اور ہوا کی گھاس سے سرگوشیاں۔ کیا میں اُن آوازوں کو بھی پہچان سکتا ہوں؟

میرا دل اُن آوازوں کو سنناچاہتا تھا۔ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ میں نے ریت پر بیٹھ کر اپنا سر سوکھی گھاس میں رکھ دیا۔ میری تمام توجہ سُکڑ کراس خواہش پرمرکوز ہوگئی اور میں نے ہوا کی سرسراہٹ کو سنا۔ وقت رک گیا۔

میں اب ہوا کی لہر کے ساتھ تھا۔ جب لہر نےگھاس کا پتہ چُھوا تو میں نےہوا اور پتہ کے ملاپ کو محسوس کیا۔ اب میں پتہ بن گیا۔ میں نے ہوا کے ہلکے بوجھ سے پتے کاجُھکنا محسوس کیا۔میں اب پھرسے ہوا کی لہر تھا اور میں نے پتہ کو پھر سےسیدھا ہوتا دیکھا ۔اس دھیرے دھیرے چلنے والے وقت پر میں نے ایک سرسراہٹ سنی۔ یہ ہوا کاگھاس سے کہنا تھا ۔ میں پھرآؤں گی۔اورگھاس نے کہا تم پھرمجھے یہاں پاؤ گی ۔ دیکھو بھول نہ جانا ۔

اچانک سمندر کی لہرؤں نےگرج کرکہا۔ کیا تم میرے بچھڑے دوست ہو؟

اگرآپ غور اور چوکس ہو کرسنیں، تو ایک مختصرلمحہ پر یہ لگتا ہے کہ ہر چیز رُک گئ ہے۔ اس کوتاہ اورساکن لمحہ پرآپ کے تمام خیالات ٹھہرجاتے ہیں اور آپ بیرونی دنیا کی تمام آوازوں کوسن سکتے ہیں۔ آپ نے اندرونی آوازوں کوخاموش کرلیاہے۔ دماغ اب پرسکون ہے۔

میں واپس گاڑی کے پاس آیا۔ بیٹھ کر میں نے اس پرچہ کو پھرسے پڑھا۔

غور اور چوکس ہو کرسنو۔

سمندر چلایا کیا تم میرے وہی دوست ہوجس کو میں صبر پسندی، قدر، ان گنت اور بعیدُالفم باہمی انحصار چیزوں سے آگائ سکھاٰی تھی؟ کیا تم سب بھول گے؟
ہاں میرے دوست، میں توسب بھول گیا تھا۔ مگراب مجھے یاد آرہا ہے۔

سمندر کے مّدوجزر کو کوئ قابو میں نہیں لاسکتا، اس لئے تیرنے والے کو صبر پسند ہونا چاہیے۔

سمندر اپنی خوشی سے بے وقوفوں کو نہیں ڈبوتا، اسلئے عقلمند اپنی بندشوں کوجانتا ہے۔

ہوا، مّدوجزر ، کرنٹ ، بھیانک خاموشی، کالی آندھی اورطوفان بادو دباراں سب ۔ پرندوں کوہوا میں اورمچھلیوں کو پانی کی گہرائ میں راستہ دکھاتے ہیں۔

مجھے وہاں پر بیٹھے ہوئے یہ خیال آیا کہ میں ان چیزوں کے بارے سوچ رہا ہوں جوکہ میری سمجھ سے بلند ہیں ۔

صبع بہت آہستہ سےگزری۔ دوپہر تک بادل جاچکے تھے اور سمندر کے پانی میں چمک اور جھلملاہٹ تھی۔ جب میں دوسرہ پرچہ کھولا تومیں ھکا بکا ہوگیا۔ اس پرچہ پرتین الفاظ لکھے تھے۔

ماضی میں جھانکو۔
کہاں؟ ماضی، ظاھراً ۔ لیکن کیوں؟ جب کہ میری تمام پریشانیاں ابھی ہیں یا مستقبل میں ہونگی؟

میں گاڑی سے نکل کر بددلی سے ریت کے ٹیلوں کےدرمیان ٹہلنے لگا۔ اباجان نےمجھےساحلِ سمندر پر اس لیے بھیجا تھا کہ میری خوشیاں اس جگہ سے وابستہ تھیں۔ اورمجھے اُن خوشیوں تک پہنچ اور رسائ پھرسے کرنی ہوگی۔

میں نے ٹیلے کے نزدیک ایک سایہ دار جگہ دیکھی اور ہلکی تپتی ہوئ ریت پر لیٹ گیا۔ جب ماضی کے کنویں میں جھانکا تو تھوڑی کدوکاوش کے بعدکچھ خوشی کےلمحات سطح پراُبھرے مگراُن پردھند سی چھائ ہوئ تھی۔ میں ایک مصّور کی طرح اُن خیالوں سے کھیلا۔ تھوڑی سی رنگوں میں اصلاح کی۔ تھوڑا ساخاکے میں گہرا پن کیا۔ ایک سانچہ کولے کراس کی تفصیل کو دوبارہ سے اُبھارنے کی کوشش کی۔ یہ لمحہ بلکل صاف ہوگیا۔ میں سانچوں کو مکمل کرنے میں اُن کا حصہ بن گیا۔ اس دماغی کیفیت میں اپنے آپ کو خوشیوں سےگھرا پایا۔ میں اب اُس دنیا میں تھا جہاں صرف سرور رہتا ہے۔

مّدوجزر اب اتر رہاتھا ۔کفِ سمندر میں اب بھی گرج تھی۔ میں نے ان یادوں کے ڈھیر سے ایک ایسی یاد کو چُننا جس نے میرے دل کو خوشیوں سے بھر دیا۔

میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ ماضی میں جاؤ۔ خوش لوگ ہمیشہ مُتَّقی اور مُعتِقَد ہوتے ہیں تو- اگرمیں خود جان کر ماضی میں جاؤں اوراُن خوشی کےسرچشمہ کو چھوؤں تو کیا مجھےاس سےتوانائ کی کرن ہمیشہ ملے گی؟

دن کا دوسرا پہر بہت تیزی میں گزرا۔ جیسے سورج نے اپناسفراُفق اور مغرب کی طرف اختیار کیا ایسے ہی میرے ذہن نے بھی ماضی کے واقعات کوایک دوسرے سے الگ کرنا شروع کیا۔ مثال کے طور پر جب میں 13 سال کا تھا اور سعدیہ 8 سال کی تھی اباجان نےایک دن ہم سے وعدہ کیا کہ” میں تم دونوں کو آج سرکس لے جاؤں گا“۔ اس دن اباجان بیوپار پر نہں گئے۔

ہم سب لوگ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ یہ جان کرکہ ٹیلیفون پر اباجان کا منشی ہے میرا اور سعدیہ کا منہ لٹک گیا۔ ہم کو پتہ تھا کہ جب اباجان گھر پر ہوتے ہیں تو منشی ان کو صرف اس وقت ٹیلیفون کرسکتا ہے جب کے کام اباجان کی موجودگی کے بغیرنہیں کیا جاسکتا۔ ماں نے اباجان کو کہتے ہوے سنّا نہیں میں آج نہیں آؤں گا اس کام کو میرا کل تک انتظار کرنا ہوگا۔

اباجان جب واپس آئے توماں نے کہا تم جانتے ہوکہ سرکس ہمیشہ آتا ہے اور آتا رہےگا اباجان نے کہا ہاں میں جانتا ہوں، مگر بچپن تو کبھی بھی نہیں لوٹ کرآتا۔ اور ہم سب سرکس گئے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مجھے یہ خیال آیا تومیرا دل ، اس دن کی خوشیوں سے بھر گیا ۔ مہربانی کبھی ضائع نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے کھوجاتی ہے۔

جب سعدیہ 10 سال کی تھی ایک دن میں اور وہ ایک ٹیلے پر بیٹھے لہروں کو دیکھ رہے تھے۔ سورج کےغروب ہونے کا وقت تھا۔ یہ ایک خاموش اور دودھیا ، قزح رنگی شام تھی۔ لہریں سنہرے رنگ کی پتلی چادر ساحل پہ بھیج رہی تھیں ۔ نزدیک اور نزدیک ۔ آخرکار پانی نے ٹیلے کو ہرطرف سے ایسے گھیرا جیسےماں اپنے لاڈلے کوگلے سے لگاتی ہے۔ سعدیہ نے سوچ میں ڈوبی آواز سےکہا ۔ بھائ جان آپ دیکھیں نا، زمین سمندر کی آنکھوں کا تارہ ہے۔ وہ اس سے کتنا پیار کرتاہے!

اس نے ایک معصوم کی طرح صحیح کہا۔ یہ ایک قسم کا لاڈ ہے۔ زمین سُست ہے اور وہ انتظار کرتی ہے مگر سمندر کولگاؤ ہے تو وہ آتا ہے۔ تم اس میں عشق کا سبق پڑھ سکتے ہو۔ خیال، نزدیک آنے کی آمادگی ، جذب ہونا اور جذب ہونے میں وصال کاپانا۔

تین بجے تک سمندرکا پانی واپس لوٹ چکاتھا اور لہروں کی آواز ایک سُہانی سرگوشی کی طرح من بھری اور سُست سی تھی۔ جیسے کوئ دیو نیند میں سانس لے رہا ہو۔ اباجان کی نصحیتوں پر عمل کرنا تو آسان لگ رہاتھا۔

میں تیسرے پرچے کے لیے بلکل تیار نہ تھا۔ اس دفعہ یہ الفاظ ایک دھمیی گزارش نہیں تھے ۔ یہ الفاظ ایک حکم تھے۔

اپنے مقاصد کو دوبارہ سے جانچو۔
میرا پہلا بچاؤ اپنا دفاع کرنا تھا۔ میرے مقاصد میں کوئ خرابی نہیں ہے۔ میں نے خود سے کہا۔ میں کامیابی چاہتا ہوں، کیا نہیں؟ میں کچھ قدر شناسی چاہتا ہوں ، کیا نہیں؟ ابھی میرے پاس جو تحفظ ہے مجھے کچھ اور اُس سے زیادہ چاہیے۔ اور کیوں نہیں؟

ذہن میں ایک سرگوشی ہوئ ، شاید میرے مقاصد صحیح نہیں ہیں اور شاید اسی وجہ سے میری گاڑی کا پہیہ چلنے سے رک گیا ہے۔میں نے مٹھی بھر ریت اُٹھائ اور اُس کواُنگلیوں کے درمیان سےگزرنے دیا۔ جب بھی میرے کام میں خود روی، کوئ بندش یا ٹال مٹول نہ تھی، ہرکام وقت پر، فائدے کے ساتھ، صحیح ہوا۔ اور میں خوش تھا۔

اب میں ہر کام میں حساب کتاب، فائدہ نقصان اور یکسانیت کا خیال کرتا ہوں۔ اسلئے کہ میرا رجہان اب کام کی طرف نہیں ہے بلکہ اس کے صلہ کی طرف ہے۔ کام ایک وجہ نہیں رہا ہے۔ یہ ایک مال بنانے کا وسیلہ اور اخراجات ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ لوگوں کی مدد کرنا اور اچھائ میں حصہ لینا، تحفظ کے غضب ناک شکنجہ میں پھنس چکا ہے۔

میں نے اس لمحہ میں سچائ کوایک بجلی کی کوند کی طرح دیکھا۔

اگر میرے مقاصد غلط ہیں توکچھ بھی صحیح نہیں۔ اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ آپ ڈاکیا ہیں یا وزیرداخلہ، گھریلوخاتون ہیں یا کسی قسم کے ہنرمند انسان جب تک آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں آپ کو اطمینان اور خوشی نصیب ہوتی ہے لیکن جب آپ صرف اپنی مدد کریں اور دوسروں کی نہیں تب آپ کو ذہنی کوفت ہوتی ہے اور خوشی کی بجائے ناخوشی ملتی ہے۔ یہ اصول ایک ایسی حقیقت ہے جیسے مقناطیسی کششِِِ مرکز ہے۔

میں بہت دیرتک وہاں بیٹھا رہا۔ میں نےدور باڑ پر مّدوجزر کے تبدیلی کی سرسراہٹ سنّی۔ میری نصحیتوں کا وقت اختتام پر پہنچ چکا تھا اور اباجان کی عقلمندی پرمجھے رشک اورحیرت تھی کہ انہوں نے کتنی نا دیدہ و دانستگی سے میرے لیے دوا بنائ ۔

غور اور چوکسی سے سنو:
اپنے ذہن کو خاموش کرنے کے لیے اپنی توجہ کواندرونی پریشانیوں کے بجاے بیرونی حالات کی طرف مائل کرو۔

ماضی میں جاؤ :
کیوں کہ انسان کا دماغ صرف ایک وقت میں ایک ہی خیال کو سوچ سکتا ہے اس لیےاگر تم ماضی کے خوشگوار لمحہ کو واپس لاؤ تو موجودہ پریشانیوں کو مٹاسکتے ہو۔

اپنے مقاصد کو دوبارہ سے جانچو:
اباجان کی نصیحت کی بنیاد اپنے مقاصد کی دوبارہ سے جانچ کرنے پراور اپنے مقاصد ، ایمان، بھلائ اور اپنی صلاحیت کے درمیان موافقت پیدا کرنے پر ہے۔ اِن مقاصد کو جانچنے کے لیے بیدار اور روشن ذہن کی ضرورت ہے اس لیے ابا جان نے پہلی اور دوسری نصیحت کےدرمیان چھ گھنٹوں کا وقفہ رکھاہے۔

مشرق میں آسمان قرمزی ہوچکا تھا۔

چھ بجے اور میں نے آخری پرچہ کھولا. اس دفعہ سات الفاظ تھے۔ میں نے اُن کو پڑھا اور دھیرے دھیرے سمندر کی طرف چلا ۔ جب میں گیلی ریت پر پہنچا تومیں نے رُ ک کر اس آخری نصیحت کو پھر سے پڑھا۔

اپنی پریشانیوں کو ریت پر لکھ دو۔

میں نے پرچہ کو ہوا میں اڑنے کی لیے چھوڑ دیا ۔ نیچے جھک کر ایک سیپ کا ٹکڑا اُٹھایا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ریت پر لکھنا شروع کیا۔ میں لکھتا گیا اور میرے آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک دھار بن گئ۔

جب لکھنے کو کچھ نہ رہا میں نے کھڑے ہوکر اپنا منہ گاڑی کی طرف کیا اور چلنے لگا۔ دل نے کہا مڑ کر مت دیکھو، لہریں واپس آرہی ہیں۔ سمندر تمہارا دوست ہے اور وہ تمہاری پریشانیوں کو خود میں سما لے گا۔

میں نے اپنے بچپن کےگھر کی طرف دیکھا۔ گھر شبِ برات کی طرح روشن تھا ۔ اچانک سارے روشنیو ں کے بلب بجھ گے پھر جب بلب جلے تو اور ایسا لگا جسے کوئ پیام لکھ رہا ہو۔ میں نے جلدی جلدی قدم بڑھائے۔ یہاں تک کے میں اُن کی طرف دوڑنے لگا۔ میری سانس پھول گئ ۔

مجھے روشنی کے نیچے، گیلری میں تین سائے کھڑے نظر آئے۔ اب میں اتنا قریب تھا کہ پڑھ سکوں۔

میں آپ کی خوشی کےلئےاپنی ساری خوشیاں نثار کرتی ہوں، بھیا۔ سعدیہ نے لکھا تھا۔
میں تیری خوشی کی لے اپنی جان بھی دے دوں بیٹا ۔ دوسری سطر پر ماں نے لکھا تھا ۔

میرے آنسو خوشی سے بہنے لگے ۔میں نے جلدی جلدی قدم گاڑی کی طرف بڑھائے تاکہ میں اپنی خوشیوں میں مل جاؤں۔

گاڑی کے پاس ایک دوسری گاڑی کھڑی تھی اور کوئ میری طرف پیٹھ کیے پیغام کو پڑھ رھا تھا۔ میں جب اُس سایے کے قریب پہنچا تو سایے نے مڑکر اپنے لمبے بازو میری گردن میں ڈال دیے۔ اور دھیرے سے کہا ۔

تم الّو ہو ۔ تم گدھے اور اب میں یہ جانتی ہوں کے تم بے وقوف بھی ہو۔ اور سُہانہ کے آنسو بہنے لگے۔ میں نے اِن آنسوں کوخوشی سے پی لیا۔

دورکہیں ایک نغمہ بج رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم​

 
Top