مِرا ُدشمن مِرا سایہ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ش زاد

ش زاد

محفلین
مِرا دئشمن مِرا سایہ ہوا ہے
مُجھے اک بار پھر دھوکہ ہوا ہے

میں اب خود کو ہی تنہا چھوڑ دوں گا
یہی بدلا ہے جو سوچا ہوا ہے

جو قطرہ اشک تھا دریا ہوا ہے
جو دریا ہے وہ اب بہتا ہوا ہے

یہ آنکھیں اب بھی کس کی مُنتظرہیں
بدن تو دار پر لٹکا ہوا ہے

مجھے آئینہ تکتے یاد آیا
یہ چہرہ پہلے بھی دیکھا ہوا ہے

بدن جھلسا ہوا تو دیکھتے تھے
مگر سایہ بھی اب جھلسا ہوا ہے

ش زاد
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، شاید پسندیہ بحر یہی ہے ش زاد کی!!
نہ جانے کیوں ’سایہ‘ کو ’سائہ‘ لکھا گیا ہے؟
 

مغزل

محفلین
خوش رہیں شہزاد عنایت ، مگر معافی چاہتا ہوں یہ غزل برائےغزل ہی ہے ۔ دگر نہیں کچھ ۔
 
Top