مُحسن بھوپالی ::::: فنِ تشہیر سے کوئی بھی بیگانہ نہیں مِلتا ::::: Mohsin Bhopali

طارق شاہ

محفلین


غزل
فنِ تشہیر سے کوئی بھی بیگانہ نہیں مِلتا
جرِیدوں میں مگر حرفِ حکیمانہ نہیں مِلتا

ہمارے عہْد سے تم کوہکن تک اِک نظر ڈالو
یہ کارِ عِشق ہے اِس میں محنتانہ نہیں مِلتا

یہ کیسا دشت، کیسی سرزمینِ بےروایت ہے
یہاں تو، زیرِدام آنے پہ بھی دانہ نہیں مِلتا

محبّت پیشگاں پر ابْتری کا دور آیا ہے
کہ ان کو پیشکش مِلتی ہے بیعانہ نہیں مِلتا

اُچٹتی سی نظر بے چَین ہے شاداب کرنے کو
کئی دن سے، مگر وہ ننگِ ویرانہ نہیں مِلتا

کبھی تنہا جو ہوتا ہے خیالوں میں نہیں ہوتا
وہ مِلتا ہے، مگر خود سے جُداگانہ نہیں مِلتا

عجب معیار ہے وعدہ خِلافی کا محبّت میں
زرِ آزار تو مِلتا ہے، ہرجانہ نہیں مِلتا

فنا بُنیاد ہستی پر نہ اِترانا، کہ بعض اوقات
وسائل ہوں مگر مُہلت کا پروانہ نہیں مِلتا

عجب یکسانیت سی زندگی میں آ گئی مُحسن !
بہت دن سے کوئی موضوعِ نظمانہ نہیں مِلتا

مُحسن بھوپالی

 

باباجی

محفلین
ہائے ہائے کیا ہی خوب کلام

اُچٹتی سی نظر بے چَین ہے شاداب کرنے کو
کئی دن سے، مگر وہ ننگِ ویرانہ نہیں مِلتا

کبھی تنہا جو ہوتا ہے خیالوں میں نہیں ہوتا
وہ مِلتا ہے، مگر خود سے جُداگانہ نہیں مِلتا
 
Top