موہن جودڑو

قیصرانی

لائبریرین
آج وائس آف رشیا کی اردو سروس پر یہ حیرت انگیز آرٹیکل پڑھا۔ آپ کے لئے پیش ہے

کیا انسان موہن جو دڑو سے ہاتھ دھو بیٹھے گا؟


پاکستان میں موہن جو دڑو کا مستقبل مخدوش ہے۔ عالمی شہرت کی حامل یہ تاریخی یادگار شکست و ریخت کا شکار ہے۔ تپتی ہوئی گرمیاں، کڑاکے کی سردیاں، مون سون کی بارش اور نمی کے باعث خطرہ ہے کہ یہ یادگار بیس برس میں معدوم ہو جائے گی۔ اس قدیم شہر کی باقیات کو محفوظ کرنے کا کام 1924 میں شروع کیا گیا تھا۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس یادگار کو جسے 1980 میں عالمی ورثے کی فہرست میں درج کیا گیا تھا پھر سے محفوظ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے معروف سیاستدان بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ موہن جو دڑو کو محفوظ کرنے کے کام کی خاطر ایک خصوصی فنڈ بنایا جائے۔

ایسے میں جب ماہرین حدشات عیاں کر رہے ہیں اور سیاستدان اس کی بنیاد پر سیاسی سرمایہ بنا رہے ہیں، موہن جو دڑو بھرتا چلا جا رہا ہے۔ وہ علامات رفع ہو رہی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انسانوں کی تاریخ سے متعلق ہماری معلومات ابھی ناکافی ہیں۔

حقائق کا ایک پورا سلسلہ ہے جسے آج تک سائنسدان منکشف نہیں کر پارہے ہیں۔ بہت سے تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ عین ممکن ہے کہ موہن جو دڑو کا ماضی ہیروشیما و ناگاساکی کا کے ماضی کا سا رہا ہو، جہاں لوگ جوہری دھماکے کے باعث مر گئے تھے لیکن موہن جو دڑو پہ یہ آفت بیسویں صدی میں نہیں بلکہ تقریبا" پانچ ہزار برس پہلے ٹوٹی تھی۔

جب 1922 میں ماہرین حفریات نے موہن جو دڑو کو زمین کھود کر نکالا تھا تب بھی کچھ کم اسرار ان کے منتظر نہیں تھے۔ عمارتوں کی دیواریں اور شہر کے گرد گرینائٹ کی فصیل پر شیشے کی قسم کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب یک لخت درجہ حرارت بے تحاشا ہو جائے۔ گرینائٹ کو پگھلائے جانے کی خاطر پندرہ سو ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ حدّت درکار ہوتی ہےجو لاوے کی حدت سے ڈیڑھ گنا بیشتر ہے۔ تاحتٰی ہمارے ہائی ٹیک عہد میں بھی اتنی حدت یا تو نیپام بم کے پھٹنے سے اور یا ایٹم بم کے دھماکے سے پیدا کی جا سکتی ہے۔

شہر سے ملنے والے انسانوں کے چوالیس ڈھانچوں کے تجزیے سے ماہرین اس نتیجے پہ پہنچے تھے کہ ان کی موت ایک ہی وقت پہ ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایک غیر معمولی آسن میں تھے یعنی انہوں نے کسی شے سے بچنے کی خاطر خود کو چھپانے کی کوشش کی تھی لیکن ماہرین کے لیے بھونچکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ ان انسانوں کی موت جلنے سے یا کسی چوٹ کے لگنے سے نہیں بلکہ تابکاری کی بڑی مقدار کے باعث واقع ہوئی تھی، تابکاری کی یہ مقدار اس مقدار سے کئی گنا زیادہ تھی جس کا شکار ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگ ہوئے تھے۔

متشکک لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا انتہائی ہولناک آتشزدگی سے بھی ہو سکتا ہے جو آسمانی بجلی کے گرنے یا شہابیے کے گرنے سے ہو سکتی ہے۔ لیکن نہ تو آسمانی بجلی اور نہ ہی تاحتٰی کئی دن جاری رہنے والی آتشزدگی سے اس قدر حدّت پیدا ہو سکتی ہے جو گرینائٹ کو پگھلا دے۔ پھر پوری طرح سے محفوظ انسانی ڈھانچوں پہ آتشزدگی کی کوئی بھی علامت نہیں پائی گئی تھی۔ کیمیائی تجزیے کے مطابق حدت میں بے تحاشا اضافہ یک لخت ہوا تھا جو تقریبا" پانچ منٹ جاری رہا تھا۔

موہن جو ڈرو اصل میں موئن جو دڑو ہے ، سندھی زبان کے اس لفظ کا مطلب "مرے ہووں کا ٹیلہ" ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ تباہی سے پہلے یہ شہر کیا کہلاتا تھا؟

قدیم ہندوستان کی پرانی کتابوں میں پراسرار ہتھیاروں کا کچھ کم ذکر نہیں ہے۔ ان کو مختلف ناموں سے بیان کیا گیا ہے جیسے "وجر" "اندر اگنی" " وشنو کا تیر"" برہما کا سونٹا" وغیرہ، لیکن ان کا اثر ایک سا بیان کیا گیا ہے یعنی دس ہزار سورجوں جتنا شدید دھماکہ"۔ قدیم ہندوستان کی کتاب مہابھارت کے ساتویں حصے میں لکھا ہے کہ جو لوگ پانی میں غوطہ کھا کر دھماکے کی تباہی سے بچ رہے تھے ان کے بھی بال اور ناخن جھڑ گئے تھے، تیار غذائیں چشم زدن میں ناکارہ ہوگئی تھیں اور اس واقعے کے بعد آسمان پر کئی سال گہرے بادل چھائے رہے تھے۔ لگتا ایسے ہی ہے جیسے ان تحریروں میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر ہے۔ بالوں اور ناخنوں کا گر جانا تابکاری کے اثر سے ہی ہو سکتا ہے۔ تابکار شعاعیں غذا کو خراب کر دیتی ہیں۔ جوہری دھماکے سے پیدا ہونے والی ریڈیائی گرد جو اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور سورج کو کئی سال کے لیے ڈھانپ سکتی ہے کو بادلوں سے تشبیہہ دی گئی ہوگی۔ آج کی سائینسی کتابوں میں اسے "جوہری جاڑا" کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اوپن ہائیمر، جو جوہری بم تخلیق کرنے والوں مین سے ایک تھے، مہابھارت کی اس تحریر کو سن کر حیران رہ گئے تھے۔ پہلے جوہری تجربے کے موقع پر انہوں نے قدیم ہندوستان کے عہد کا وہ اشلوک بھی پڑھا تھا کہ " مجھ میں پوری کائنات کی طاقت ہے اور اب میں دنیا تباہ کرنے والا بن چکا ہوں"۔

کیا ہندوستان کے پاس قدیم زمانے میں جوہری ہتھیار تھے، اس پر بحث تمام ہونے میں نہیں آ رہی۔ ایک بات واضح ہےکہ ہمارے پاس اس حقیقت کے کافی ثبوت ہیں کہ ایک مہیب دھماکہ ہوا تھا جس نے قدیم تہذیب کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔ تاہم آج وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دھماکہ جوہری دھماکہ ہی تھا۔ دوسری جانب اس کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔

محققین کو چکرا دینے والے اس سوال کا مستقبل میں جواب جاننے کی خاطر کم از کم اتنا ضرور کیا جانا ہوگا کہ اس منفرد یادگار میں شکست و ریخت کے عمل کو روکا جانا ہوگا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
میرے لیے حیرت انگیز انکشاف ہے کہ اس زمانے میں بھی جوہری توانائی یا اس سے ملتی جلتی کوئی طاقت تھی ۔ اس معاملے میں ہونے والی تحقیق سے بالکل لاعلم ہوں مگر کیا یہ کسی زیر زمین ہونے والے دھماکے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ؟ پومپائی کے متاثرین کی لاشیں بھی کچھ غیر معمولی ردِ عمل کے نتیجے میں حنوط ہو گئیں تھیں ہوسکتا ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو۔
 

arifkarim

معطل
میں یقینا اس مضمون کو افسانہ سمجھتا اگر جدید ایٹم بم کا مؤجد اوپن ہائیمر تاریخ کے سب سے "پہلے" ایٹمی دھماکوں کے بعد بھگوت گیتا سے یہ اقتباس نہ لیتا:
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے لیے حیرت انگیز انکشاف ہے کہ اس زمانے میں بھی جوہری توانائی یا اس سے ملتی جلتی کوئی طاقت تھی ۔ اس معاملے میں ہونے والی تحقیق سے بالکل لاعلم ہوں مگر کیا یہ کسی زیر زمین ہونے والے دھماکے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ؟ پومپائی کے متاثرین کی لاشیں بھی کچھ غیر معمولی ردِ عمل کے نتیجے میں حنوط ہو گئیں تھیں ہوسکتا ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو۔
جی لیکن یہاں اس مضمون کے مطابق موت کی وجہ درجہ حرارت میں یکدم اضافہ نہیں بلکہ تابکاری تھی۔ دیواروں کی بیرونی تہہ پر پگھلے گرینائٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اچانک درجہ حرارت بہت حد تک بڑھا تھا لیکن ان لوگوں کی موت کی وجہ یہ نہیں تھی
 

arifkarim

معطل
جی لیکن یہاں اس مضمون کے مطابق موت کی وجہ درجہ حرارت میں یکدم اضافہ نہیں بلکہ تابکاری تھی۔ دیواروں کی بیرونی تہہ پر پگھلے گرینائٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اچانک درجہ حرارت بہت حد تک بڑھا تھا لیکن ان لوگوں کی موت کی وجہ یہ نہیں تھی
دوسرا ایک قدیم مگر جدید تہذیب کا اچانک ختم ہو جانا بھی اسی طرف اشارع کرتا ہے کہ یہ عام عسکری کاروائی نہیں تھی:
http://www.ukessays.co.uk/essays/history/myth-of-ancient-nuclear-war.php
 

تلمیذ

لائبریرین
انتہاتی معلوماتی بلکہ ہوش ربا انکشافات۔
قدیم ز مانے میں وقوع پذیر ہونے والے ان تباہ کن حادثات کا تعلق ہندو دیو مالا میں مذکور واقعات سے جوڑے جانے کی وجہ سے سائنس اور مذہب کے حوالے سے کئی سوالات اٹھتے ہیں جو آثار قدیمہ کے (عالمی)محققین کی توجہ کے طالب ہیں۔
سر دست تو یہ موضوع یعنی موئن جو دڑو کے آثار کا تحفظ ہمارے ملک کےارباب اختیار کے لئےلمحۂ فکریہ ہے۔
 
آخری تدوین:

ملائکہ

محفلین
ہاں جی مجھے اس بارے میں علم ہے کلاس میں بتایا تھا میم نے لیکن یہ صرف ایک ہائپوتھیسس ہے ابھی تک جسکو پروف کرنے کے لئے صحیح والی تحقیق کی ضرورت ہے ۔۔۔ میں نے اس بارے میں ایک ویڈیو بھی دیکھی تھی یوٹیوب پر لیکن وہ کوئی خاص ویڈیو نہیں تھی۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہاں جی مجھے اس بارے میں علم ہے کلاس میں بتایا تھا میم نے لیکن یہ صرف ایک ہائپوتھیسس ہے ابھی تک جسکو پروف کرنے کے لئے صحیح والی تحقیق کی ضرورت ہے ۔۔۔ میں نے اس بارے میں ایک ویڈیو بھی دیکھی تھی یوٹیوب پر لیکن وہ کوئی خاص ویڈیو نہیں تھی۔۔۔
مجھے ان "اتفاقات" پر حیرت ہو رہی ہے کہ مہابھارت میں یہ تذکرہ ہے کہ کیا ہوا۔ عین وہی علامات موئنجو دڑو اور دیگر جگہوں پر ملتی ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق اس کی ایک ہی ممکنہ صورت ہے جو بظاہر قابل قبول نہیں۔ آپ کی میم نے کوئی الٹرنیٹ تھیوری نہیں بتائی کہ کیا ممکن ہے؟
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے ان "اتفاقات" پر حیرت ہو رہی ہے کہ مہابھارت میں یہ تذکرہ ہے کہ کیا ہوا۔ عین وہی علامات موئنجو دڑو اور دیگر جگہوں پر ملتی ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق اس کی ایک ہی ممکنہ صورت ہے جو بظاہر قابل قبول نہیں۔ آپ کی میم نے کوئی الٹرنیٹ تھیوری نہیں بتائی کہ کیا ممکن ہے؟

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ شہاب ثاقب کو ہائپوتھسس سے کیوں نکال دیا گیا ہے۔ آخر بڑے شہاب کے اثرات تو ایٹم بم وغیرہ سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اور تابکاری کے کوئی بلواسطہ اثرات بھی نہیں پائے گئے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ شہاب ثاقب کو ہائپوتھسس سے کیوں نکال دیا گیا ہے۔ آخر بڑے شہاب کے اثرات تو ایٹم بم وغیرہ سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اور تابکاری کے کوئی بلواسطہ اثرات بھی نہیں پائے گئے۔
شہاب ثاقب کی شاک ویو تو بندوں کو مار سکتی ہے لیکن اس صورت میں عمارات کا درست حالت میں ملنا محال ہوتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ شہاب ثاقب اتنا نزدیک گرا تھا کہ اس سے پیدا ہونے والی گرمی (شاک ویو نہیں) سے عمارات کی بیرونی سطح پر موجود گرینائٹ پگھل گیا تھا
ان تمام لوکیشنز میں صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں امپیکٹ کریٹر ملتا ہے اور وہ انڈیا میں ہے۔ تاہم امپیکٹ کریٹر میں کسی قسم کا شہاب ثاقب ابھی تک نہیں دریافت ہو سکا۔ اسے دنیا کا واحد امپیکٹ کریٹر کہتے ہیں جو بغیر شہاب ثاقب کے بنا :)
 

سید ذیشان

محفلین
شہاب ثاقب کی شاک ویو تو بندوں کو مار سکتی ہے لیکن اس صورت میں عمارات کا درست حالت میں ملنا محال ہوتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ شہاب ثاقب اتنا نزدیک گرا تھا کہ اس سے پیدا ہونے والی گرمی (شاک ویو نہیں) سے عمارات کی بیرونی سطح پر موجود گرینائٹ پگھل گیا تھا
ان تمام لوکیشنز میں صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں امپیکٹ کریٹر ملتا ہے اور وہ انڈیا میں ہے۔ تاہم امپیکٹ کریٹر میں کسی قسم کا شہاب ثاقب ابھی تک نہیں دریافت ہو سکا۔ اسے دنیا کا واحد امپیکٹ کریٹر کہتے ہیں جو بغیر شہاب ثاقب کے بنا :)

میرے خیال میں تو زیادہ منطقی یہ بات ہے کہ کوئی چھوٹے سائز کا شہاب (جس میں تابکار عناصر بھی موجود تھے) موہنجودڑو کے قریب یا پھر سمندر میں ٹکرایا۔ ایٹم بم والی بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے خیال میں تو زیادہ منطقی یہ بات ہے کہ کوئی چھوٹے سائز کا شہاب (جس میں تابکار عناصر بھی موجود تھے) موہنجودڑو کے قریب یا پھر سمندر میں ٹکرایا۔ ایٹم بم والی بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔ :)
ایٹم بم یا پھر جوہری دھماکہ واقعی ہضم نہیں ہوتا۔ لیکن موئنجو دڑو، ہڑپہ، مہر گڑھ وغیرہ سب کو دیکھا جائے تو امپیکٹ کریٹر صرف ایک جگہ ہے اور وہ انڈیا میں۔ وہاں تابکاری ابھی تک موجود ہے۔ باقی بہت ساری جگہیں سمندر سے دور ہیں کہ وہاں شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے بننے والا گڑھا چھپ نہیں سکتا۔ ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ ایک بار ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان سے چند کلومیٹر دور تعمیراتی مقاصد کے لئے کئی سال تک کھدائی کر کے مٹی وہاں سے دور لے جائی گئی تھی اور دسیوں فٹ گہرے اور کئی سو میٹر چوڑے بڑے بڑے گڑھے بنے تھے۔ ایک بار رودکوہی کا سیلاب وہاں سے گذرا، یقین کیجئے کہ چوبیس گھنٹے بعد جب پانی اترا تو ایک انچ بھی گڑھا باقی نہیں بچا تھا۔ یعنی اس طرح کے گڑھے چھپ سکتے ہیں لیکن گم نہیں ہو سکتے
چونکہ آپ فزکس زیادہ بہتر جانتے ہیں، یہ بتائیے کہ جوہری دھماکے یا پھر شہاب ثاقب کے ٹکرانے کے بعد شاک ویو زیادہ دور تک پھیلے گی یا انتہائی تابکار عناصر؟
یہ تصویر وادئ سندھ کی تہذیب کے بارے ہے کہ وہ کہاں تک پھیلی ہوئی تھی
IVC_Map.png
 

سید ذیشان

محفلین
ایٹم بم یا پھر جوہری دھماکہ واقعی ہضم نہیں ہوتا۔ لیکن موئنجو دڑو، ہڑپہ، مہر گڑھ وغیرہ سب کو دیکھا جائے تو امپیکٹ کریٹر صرف ایک جگہ ہے اور وہ انڈیا میں۔ وہاں تابکاری ابھی تک موجود ہے۔ باقی بہت ساری جگہیں سمندر سے دور ہیں کہ وہاں شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے بننے والا گڑھا چھپ نہیں سکتا۔ ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ ایک بار ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان سے چند کلومیٹر دور تعمیراتی مقاصد کے لئے کئی سال تک کھدائی کر کے مٹی وہاں سے دور لے جائی گئی تھی اور دسیوں فٹ گہرے اور کئی سو میٹر چوڑے بڑے بڑے گڑھے بنے تھے۔ ایک بار رودکوہی کا سیلاب وہاں سے گذرا، یقین کیجئے کہ چوبیس گھنٹے بعد جب پانی اترا تو ایک انچ بھی گڑھا باقی نہیں بچا تھا۔ یعنی اس طرح کے گڑھے چھپ سکتے ہیں لیکن گم نہیں ہو سکتے
چونکہ آپ فزکس زیادہ بہتر جانتے ہیں، یہ بتائیے کہ جوہری دھماکے یا پھر شہاب ثاقب کے ٹکرانے کے بعد شاک ویو زیادہ دور تک پھیلے گی یا انتہائی تابکار عناصر؟
یہ تصویر وادئ سندھ کی تہذیب کے بارے ہے کہ وہ کہاں تک پھیلی ہوئی تھی
IVC_Map.png


جہاں تک مجھے معلوم ہے، ایٹم بم کی شاک ویوز شہاب ثاقب کے مقابلے میں تو کم دور تک پھیلیں گی۔ اکثر بڑے شہاب ہی زمین سے ٹکراتے ہیں، چھوٹے شہاب فضا میں ہی فرکشن کی وجہ سے بھسم ہو جاتے ہیں اور سطح زمین تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ سب شہاب کی جسامت پر منحصر ہے۔ تابکاری اثرات تو ایٹم بم کے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ اس کا دھماکہ ہوتا ہی تابکاری مواد کی وجہ سے ہے۔ لیکن اگر شہاب بڑا ہو اور اس میں تابکار عناصر موجود ہوں تو اس کے تابکاری اثرات بھی کافی دور تک پھیل سکتے ہیں۔ اسی لئے جب تک ہمارے پاس facts and figures نہ ہوں تو کچھ بھی کہنا محال ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جہاں تک مجھے معلوم ہے، ایٹم بم کی شاک ویوز شہاب ثاقب کے مقابلے میں تو کم دور تک پھیلیں گی۔ اکثر بڑے شہاب ہی زمین سے ٹکراتے ہیں، چھوٹے شہاب فضا میں ہی فرکشن کی وجہ سے بھسم ہو جاتے ہیں اور سطح زمین تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ سب شہاب کی جسامت پر منحصر ہے۔ تابکاری اثرات تو ایٹم بم کے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ اس کا دھماکہ ہوتا ہی تابکاری مواد کی وجہ سے ہے۔ لیکن اگر شہاب بڑا ہو اور اس میں تابکار عناصر موجود ہوں تو اس کے تابکاری اثرات بھی کافی دور تک پھیل سکتے ہیں۔ اسی لئے جب تک ہمارے پاس facts and figures نہ ہوں تو کچھ بھی کہنا محال ہے۔
شہاب ثاقب کی تھیوری کو میں مندرجہ ذیل نقاط کی وجہ سے پوری طرح نہیں مان رہا
1۔ شہاب ثاقب اتنا نزدیک گرا کہ اس کی گرمی کی وجہ سے عمارتوں کی بیرونی تہہ پر موجود گرینائٹ کی سطح پگھل گئی
2۔ تابکاری بھی بہت شدید پیدا ہوئی، عام سطح سے پچاس گنا تک زیادہ
3۔ پھر بھی شاک ویو سے عمارات تباہ نہیں ہوئیں جبکہ حرارت کی مقدار ظاہر کرتی ہے کہ یہ شہاب بہت نزدیک گرا
4۔ عین یہی اعتراضات متبادل یعنی جوہری دھماکے پر بھی عین فٹ آتے ہیں :D
 

سید ذیشان

محفلین
شہاب ثاقب کی تھیوری کو میں مندرجہ ذیل نقاط کی وجہ سے پوری طرح نہیں مان رہا
1۔ شہاب ثاقب اتنا نزدیک گرا کہ اس کی گرمی کی وجہ سے عمارتوں کی بیرونی تہہ پر موجود گرینائٹ کی سطح پگھل گئی
2۔ تابکاری بھی بہت شدید پیدا ہوئی، عام سطح سے پچاس گنا تک زیادہ
3۔ پھر بھی شاک ویو سے عمارات تباہ نہیں ہوئیں جبکہ حرارت کی مقدار ظاہر کرتی ہے کہ یہ شہاب بہت نزدیک گرا
4۔ عین یہی اعتراضات متبادل یعنی جوہری دھماکے پر بھی عین فٹ آتے ہیں :D

جوہری دھماکے کی ایک خصوصیت ہے کہ اس میں تابکاری اثرات شہاب کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں اور دھماکہ نسبتاً کم شدت کا ہوتا ہے۔ اور کریٹر بھی اتنا بڑا نہیں بنتا۔
 

ملائکہ

محفلین
مجھے ان "اتفاقات" پر حیرت ہو رہی ہے کہ مہابھارت میں یہ تذکرہ ہے کہ کیا ہوا۔ عین وہی علامات موئنجو دڑو اور دیگر جگہوں پر ملتی ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق اس کی ایک ہی ممکنہ صورت ہے جو بظاہر قابل قبول نہیں۔ آپ کی میم نے کوئی الٹرنیٹ تھیوری نہیں بتائی کہ کیا ممکن ہے؟
ایسا ممکن ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر آگ لگی ہو جسکی وجہ سے اموات ہوئیں ۔۔۔ اس بارے میں میری زیادہ معلومات نہیں ہے۔۔۔
 

ملائکہ

محفلین
ایٹم بم یا پھر جوہری دھماکہ واقعی ہضم نہیں ہوتا۔ لیکن موئنجو دڑو، ہڑپہ، مہر گڑھ وغیرہ سب کو دیکھا جائے تو امپیکٹ کریٹر صرف ایک جگہ ہے اور وہ انڈیا میں۔ وہاں تابکاری ابھی تک موجود ہے۔ باقی بہت ساری جگہیں سمندر سے دور ہیں کہ وہاں شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے بننے والا گڑھا چھپ نہیں سکتا۔ ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ ایک بار ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان سے چند کلومیٹر دور تعمیراتی مقاصد کے لئے کئی سال تک کھدائی کر کے مٹی وہاں سے دور لے جائی گئی تھی اور دسیوں فٹ گہرے اور کئی سو میٹر چوڑے بڑے بڑے گڑھے بنے تھے۔ ایک بار رودکوہی کا سیلاب وہاں سے گذرا، یقین کیجئے کہ چوبیس گھنٹے بعد جب پانی اترا تو ایک انچ بھی گڑھا باقی نہیں بچا تھا۔ یعنی اس طرح کے گڑھے چھپ سکتے ہیں لیکن گم نہیں ہو سکتے
چونکہ آپ فزکس زیادہ بہتر جانتے ہیں، یہ بتائیے کہ جوہری دھماکے یا پھر شہاب ثاقب کے ٹکرانے کے بعد شاک ویو زیادہ دور تک پھیلے گی یا انتہائی تابکار عناصر؟
یہ تصویر وادئ سندھ کی تہذیب کے بارے ہے کہ وہ کہاں تک پھیلی ہوئی تھی
IVC_Map.png
اب ہسٹورینز وادی سندھ کی تہذیب نہیں بلکہ ہڑپہ کی تہذیب کی ٹرمینولوجی استعمال کرتے ہیں ۔۔۔ اسکی وجہ ہے کہ یہ واحد تہذیب ہے جو کہ کسی دریا کے کنارے آباد نہیں تھی۔۔۔۔ آرکیولوجیکل اسڈی کی بنیاد پر کچھ ایسی سائٹ بھی دریافت ہوئی ہیں جو کہ پڑپہ کی تہذیب کا حصہ تھیں لیکن دریا سندھ سے بہت دور تھیں

http://en.m.wikipedia.org/wiki/List_of_Indus_Valley_Civilization_sites

اس لسٹ میں دیکھیں قندھار بھی شامل ہے۔۔۔ لیکن چونکہ یہ ابھی نئی نئی اڈاپٹ کی گئی ہے تو پرانی کتابوں میں انڈس ویلی ہی لکھا ملے گا۔۔۔۔
 
Top