مومنو آؤ چہلم منائیں

چہلم ِ شہدائے کربلا کے موقعہ پر "زاد ِ سفر" سے

مومنو آؤ چہلم منائیں
بنتِ حیدر کی ڈھارس بندھائیں
رونے دیتے تھے ظالم نہ جس پر
اُس شہِ دیں پہ آنسو بہائیں

پرُسہ دیتے ہیں شہ کی بہن کو
آئی ہے جو لٹا کے چمن کو
جس کی اعدا نے چھینی ہے چادر
اُس کے زخموں پہ مرہم لگائیں

کہہ رہی ہے یہ زہرا کی جائی
مر گئے میرے بچے، دہائی
اب ہیں بھیا نہ بابا نہ مادر
داغِ دل ہائے کس کو دکھائیں

قید میں ظلمِ اعدا ء رواں ہے
یادِ سرور میں دل بھی تپاں ہے
بانو کہتی ہے ہائے مقدر
کس کو بچوں کا نوحہ سنائیں

قبر سرور پہ زینب پکاری
میرے بھیا میں واری میں واری
ہیں کہاں میرے اصغر و اکبر
جا کے صغریٰ کو ہم کیا بتائیں

چھین لی ظالموں نے رداہے
ان کو آئی نہ ہر گز حیا ہے
رو کے کہتی ہے بچی اے مادر
ہائے چہرے کو کیسے چھپائیں

یاد کرتا رہے گا زمانہ
کوئی اپنا ہو یا ہو بیگانہ
وہ کرم تیرا انسانیت پر
دینِ حق سے وہ تیری وفائیں

اس قدر تو نے غم ہیں اٹھائے
گھر میں شوہر نہ پہچان پائے
رو رہے ہیں مہ ومہر واختر
سن کے زینب کی گھر میں صدائیں

مجھ کو آلام نے ہے ستایا
تیرے در پہ ہوں فریاد لایا
جاگ جائے گا سویا مقدر
کر دو نقوی کے حق میں دعائیں

ذوالفقار نقوی
 
Top