مولانا بال ٹھاکرے

خرم

محفلین
ہمارے ظالمانی مبلغین اسلام اور ان کے معتقدین کو مبارک کہ شری وبال ٹھاکرے بھی ان کے مسلک میں داخل ہونے والے ہیں۔ اب دھڑا دھڑ جنت اور سورگ میں جانے والے انسانی پٹاخے تیار ہوا کریں گے اور مسلمانوں کا شکار کیا کریں گے۔ ویسے جو لوگ ان دھماکوں میں مارے جاتے ہیں، وہ دوزخ میں جاتے ہیں یا نرکھ میں؟ اس کا جواب ہے کسی کے پاس؟
خبر
 

مہوش علی

لائبریرین
انسانی معاشرہ جنگلی پن قتل و غارت اور نفرتوں کا شکار تھا۔ صدیاں گذر جانے کے بعد انسان نے انسانیت کو پہچانا اور اسی انسانیت کی وجہ اپنے معاشرے کو Civilized مہذب بنانے میں کامیاب ہوا کہ جہاں ہر دوسرے انسان کی جان و مال اور حقوق کا احترام تھا۔ اسی انسانیت نے اسے جنگ و جدل و خون و غارت سے نفرت کرنا سکھایا۔

مگر انسانی معاشرے کی اس Civilization کے خلاف ہر معاشرے میں انتہا پسند موجود تھے۔ انکا ہتھیار دوسرے تمام انسانوں سے نفرت کا تھا، اس انسانیت کو قتل کر دینے کا تھا۔

ہندو معاشرے میں یہ انتہا پسندی کی شروعات تو طالبان کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ یہ صدیوں سے جاری ایک ہی معاشرے میں رہنے والی دو قوموں مسلمان اور ہندووں کے درمیان پائی جانی والی ٹینشنز کی وجہ سے یہ ہمیشہ سے موجود تھی۔ بہرحال، مسلم طبقات اور ہندو طبقات میں بہت سے لوگ انسانیت کے قائل ہو کر مہذب تھے اور اس لیے شیو سینا اور بال ٹھاکرے جیسی انتہا پسند تنظیموں کو اپنی نفرت کی آگ پھیلانے کا اتنا موقع نہیں ملا اور ہندووں کی ایک بڑی تعداد ان کے زہر سے دور رہی۔

مگر ایک عالمگیر عمل ہے کہ: "ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔"

جب ان انتہا پسندوں نے مسلم معاشرے میں اسلام کا نام لیکر "انسانیت" کا قتل شروع کیا تو اس دوڑ میں دوسری قوموں کے انتہا پسند کیوں دور رہتے؟ میں اکثر کہتی ہوں اصل میں یہ انتہا پسند ایک دوسرے کے اولیاء و مددگار ہیں اور انکا سب سے بڑا دشمن انسانیت ہے۔

مسلم معاشرے میں ان انتہا پسندوں کے سر اٹھانے سے نہ صرف ہندو انتہا پسند تنظیمیں ہندو معاشرے میں مضبوط ہونا شروع ہو گئیں، بلکہ یورپ کے تمام ممالک میں تمام تر معاشروں میں موجود یہ انتہا پسند قوتیں زور پکڑنے لگیں اور انکا ہتھیار وہی "نفرت" ہے اور مقصد انسانیت کی تذلیل۔

///////////////////////////

بال ٹھاکرے اور طالبان کا اقلیتوں کے ساتھ سلوک

وشوا ہندو پریشد آج انڈیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے قتل عام کے پیچھے پڑی ہے۔

اور یہی فکر طالبان کی ہے کہ جنہوں نے سب سے زیادہ ظلم اقلیتوں پر کیا اور سب سے پہلے حکم دیا کہ غیر مسلم صرف زرد رنگ کا لباس پہنیں اور دور سے پہچانیں جائیں۔

یہی طرز عمل نازی انتہا پسندوں کا تھا۔

جہاں جہاں یہ انتہا پسند قوتیں طاقت میں آئیں گی، نفرت کی آڑ میں یہ سب سے پہلے اقلیتوں کا قتل عام کریں گی۔ چنانچہ جب وشوا ہندو پریشد مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہوتی ہے تو اس پر غصہ آتا ہے، ملامت ہوتی ہے۔۔۔۔ مگر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ یہی سب کچھ اپنے معاشرے کے انتہا پسند بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
 
اگر اس دھاگے کاموضوع مولانا بال ٹھاکرے سے بدل کر "ملا بال ٹھاکرے " رکھ دیں تو بہتر ہے کیونکہ مولانا اور ملا میں بہت فرق ہے ۔
 
Top