موسمیاتی تبدیلیاں، پاکستان کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ

عسکریت پسندوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں، امریکی ڈرونز، بھارت کے ساتھ مسلسل کشیدگی، خوراک اور توانائی کی قلت اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں بھی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔

تبت کی پلاٹی آؤ کی گھاٹیوں سے نکلنے والا دریائے سندھ متنازعہ جموں و کشمیر کے علاقوں سے گزرتا ہوا اور 22 سو میل کا فاصلہ طے کرتا ہوا بحیرہء عرب میں گرتا ہے اور یہ پاکستان میں زندگی کی ایک بنیادی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
پاکستان کی تقریباً 190 ملین کی آبادی میں زراعت سے جڑے لوگوں میں سے زیادہ تر کا انحصار دریائے جہلم کے پانی پر ہوتا ہے۔ ہندوکش اور قراقرام میں واقع گلیشیئر سے زندگی پاتا یہ دریا پاکستان میں اُگنے والی فصلوں کے 90 فیصد کے لیے پانی مہیا کرتا ہے۔ ملک میں بجلی کی پیدوار کا 50 فیصد بھی اسی دریا پر لگائے گئے ہائیڈرو پاور منصوبوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے تاہم پاکستان میں پانی کے اس اہم ترین ذریعے کو شدید متاثر کر کے پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ انہی خدشات کے پیش نظر اسلام آباد حکومت نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDP کے ساتھ مل کر پہلی مرتبہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنی پہلی قومی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔
’سن 2010 سے 2012 تک مون سون بارشوں میں شدت کا سامنا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان میں شدید سیلاب آئے‘
یو این ڈی پی پاکستان کے ڈائریکٹر مارک اینڈرے فرانکے کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے سب سے متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ ’’یہاں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے، جو سرسبز ہو اور ماحول سے مطابقت رکھتا ہو تاکہ پائیدار ترقی اور نمو تک پہنچا جا سکے۔ موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور اس چیلنج سے نمٹنے کا وقت صرف اِس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔‘
پاکستانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے اور قومی پالیسی کی کامیابی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، جن مں زیادہ درجہء حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت کی حامل فصلیں، سیلاب سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام اور شمال کی جانب دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے اور زیادہ منصوبے شامل ہیں۔ تاہم ان منصوبوں کے لیے سرمایے کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستانی محکمہء موسمیات کے چیف میٹرولوجِسٹ غلام رسول کے مطابق پاکستان میں موسموں میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ ’’سن 1999 سے سن 2002 تک کے عرصے کو دیکھا جائے تو سخت خشک سالیوں کی وجہ سے دریائے سندھ کے پانی اور بہاؤ میں کمی ہوئی۔ مگر سن 2010 سے 2012 تک مون سون بارشوں میں شدت کا سامنا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان میں شدید سیلاب آئے اور سینکڑوں افراد ہلاک اور کئی ملین بے گھر ہوئے۔‘‘
’سن 1999 سے سن 2002 تک کے عرصے میں پاکستان کو سخت خشک سالی کا بھی سامنا رہا‘
غلام رسول کے مطابق، ’زیادہ تر زراعت اور بالواسطہ طور پر موسم پر انحصار کرنے والی پاکستانی معیشت خشک سالیوں اور پھر شدید سیلابوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ میں دنیا سے اپیل کرتا ہوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کی جائے۔‘
پاکستان بھر میں قائم محکمہء موسمیات کے 56 مختلف دفاتر سے حاصل کردہ ڈیٹا کے مطابق گزشتہ کچھ برسوں میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے مقام پر ہیٹ ویوز یا گرمی کی لہروں اور درجہء حرارت میں اضافے کا رجحان واضح طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاکستان جرنل آف میٹرولوجی میں شائع کردہ اپنے آرٹیکل میں رسول اور دیگر ماہرین موسمیات کے مطابق موجودہ صورت حال میں پاکستان کو شدید سمندری طوفانوں اور ساحلی علاقوں میں سمندری پانی چڑھ آنے کی وجہ سے سیم اور تھور جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کے قریب گندم اور کیلے کی فصلوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
درجہء حرارت میں اضافے کی وجہ سے مقامی علاقے کے رہائشیوں کو صحت کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں مقامی کسان اپنے کھیتوں اور کھلیانوں کو چھوڑ چھوڑ کر شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ربط
http://www.betrifft.de/موسمیاتی-تبدیلیاں-پاکستان-کے-لیے-ایک-اور-بڑا-مسئلہ/a-16698048
 
Top