موت ایک اَٹل حقیقت ہے! - مفتی منیب الرحمن مدظلہ

موت ایک اَٹل حقیقت ہے!
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںموت کو ''اَجَل‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، ''اَجَل‘‘ کے معنی ہیں: ''کسی چیز کا مقررہ وقت ، جو کسی قیمت پر نہ ٹلے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جب تم کسی مقررہ مدتِ ادائیگی تک قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لو‘‘ (البقرہ:282) اسی طرح فرمایا: ''جب موسیٰ علیہ السلام نے (شعیب علیہ السلام کی خدمت کی طے شدہ مدت) پوری کر لی تو اپنی بیوی کو لے کر چلے‘‘ ،(القصص:29) ان آیاتِ مبارَکہ میں مقررہ مدت کے لیے ''اَجَل‘‘ کا کلمہ آیا ہے۔ جس طرح فرد کے لیے ایک وقت مقرر ہوتاہے، اسی طرح قوموںکے عروج وزوال کا وقت بھی مقرر ہے، فرمایا: ''ہر قوم کے لیے ایک میعاد مقرر ہے، جب مقررہ وقت آ جائے گا تو ایک ساعت کی تقدیم و تاخیر نہیں ہو پائے گی‘‘، (الاعراف:34)
اسی طرح فرد کی موت کا بھی ایک وقت مقرر ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بے شک اللہ کی طرف سے جب (موت کا) مقررہ وقت آ جائے، تو وہ ٹلتا نہیں ہے‘‘ (نوح:04) سو ''موت کا منظر‘‘ اور ''مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘ نامی کتابیں کوئی لکھے یا نہ لکھے، موت نے آنا ہی آنا ہے۔ میں نے بھی یہ کتابیں نہیں پڑھیں، صرف ان کا نام سنا ہے، لیکن قرآن و حدیث میں موت اور مابعدالموت کے اَحوال، محشر اور میزانِ عدل کے قیام، جزا و سزا کا نفاذ، جنت و جہنم میں دخول اور جنت و جہنم کے اَحوال تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کا مذاق کے طور پر ذکر کرنا قرآن و حدیث میں بیان کردہ غیبی حقیقتوں کی اہانت کے مترادف ہے۔ آخرت کے تصور کو ''مُردہ فکر‘‘ سے تعبیر کرنے کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور دنیا کی یہ زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور بے شک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے‘‘ ، (العنکبوت:64) علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دومِ زندگی
یعنی یہ انسان کی نادانی ہے کہ موت کو فنائِ کلی اور اختتامِ زندگی سمجھ بیٹھا ہے، حالانکہ یہ محض اِس عارضی حیاتِ دنیوی کی شام ہے اور اس کے بعد آخرت میں حیاتِ دائمی اور ابدی کا آغاز ہو گا، تو درحقیقت یہ ابدیت کا نقطۂ آغاز ہے، نادان ہیں وہ لوگ جو اسے فنائِ کلی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو اُس کے اوّلین مخاطبین کا تصورِ حیات بھی یہی تھا، جسے قرآن نے اِن الفاظ میں بیان کیا: ''اور انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے اور (اے مخاطَب!)کاش تو وہ منظر دیکھتا کہ جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے، (تب) اللہ فرمائے گا: کیا یہ (حیات بعدالموت)حق نہیں ہے، وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! یہ یقینا حق ہے، اللہ فرمائے گا: چونکہ تم (اِس روزِ جزا کا) انکار کرتے تھے، سو (اُس کی پاداش میں ) اب عذاب چکھو‘‘ ، (الانعام:30) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(وہ کہتے ہیں) بس جو کچھ بھی ہے یہی دنیا کی زندگی ہے، ہم جیتے ہیں اور مرتے ہیں اور ہم (دوبارہ) نہیں اٹھائے جائیں گے‘‘، (المؤمنون:37)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ''دنیا میں اس طرح رہو، جیسے تم ایک (راہ چلتے) مسافر ہو یا کسی منزل کے راہی‘‘ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کہا کرتے تھے: ''جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت سمجھو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو‘‘ (بخاری:6414) یعنی دنیا کی عیش وعشرت میں مست رہ کر آخرت کوبھول جاؤ گے، تو موت کے وقت پچھتاؤ گے کہ کاش! میں نے آخرت کے لیے کوئی زادِ راہ جمع کیا ہوتا اور بیماری کے عالم میں انسان انتہائی چاہت و خواہش کے باوجود بہت سے کام نہیں کر سکتا تو عالَم صحت میں جب تمہاری ساری جسمانی، روحانی، عقلی اور فکری توانائیاں عروج پر ہیں، وہ اعمالِ خیر کیوں بجا نہیں لاتے تاکہ بعد میں کفِ افسوس نہ ملنا پڑے، اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''دنیا آخرت کی کھیتی ہے(یعنی دنیا میں ایمان وعمل کی جو فصل کاشت کروگے ، آخرت میں اسی کا پھل ملے گا)‘‘ (اِحیاء علوم الدین، جلد:4،ص:24،فیض القدیر، جلد:3، ص:392)
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام دنیا سے لاتعلقی یا مردم بیزاری کی تعلیم دیتا ہے، اسلام تو وہ دین ہے جس نے رہبانیت کی نفی کی اور رسول اللہﷺ نے ایک بھرپور عملی زندگی گزاری، زندگی کے تمام شعبوں کے لیے خود اپنی سیرت طیبہ سے عملی نمونے فراہم کیے۔ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ انسان معاشرے میں فعال کردار ادا کرے اور اُس کی ذات سے جن جن کے حقوق وابستہ ہیں، ان سے عہدہ برا ہو۔ حدیث پاک میں ہے:''نبیﷺ نے حضرت سلمان اور حضرت ابوالدرداء کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا، حضرت سلمان، حضرت ابوالدرداء کی ملاقات کے لیے گئے، اُنہوں نے(اُن کی بیوی) حضرت اُم الدرداء کوخستہ حالت میں دیکھا توان سے پوچھا : یہ آپ نے اپنی کیاحالت بنارکھی ہے ؟اُنہوں نے بتایاکہ تمہارے بھائی ابوالدرداء کو دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر حضرت ابوالدرداء آئے توانہوں نے حضرت سلمان کو کھانا پیش کیا،حضرت سلمان نے کہا: آپ بھی کھائیں تو حضرت ابوالدرداء نے کہا: میں روزے سے ہوں، حضرت سلمان نے کہا: میں اُس وقت تک نہیں کھاؤں گا، جب تک کہ آپ نہیں کھائیں گے، پھر حضرت ابوالدرداء نے کھانا کھایا، پھر جب رات ہوگئی تو حضرت ابوالدرداء نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، حضرت سلمان نے اُن سے کہا: آپ سو جائیں، سو وہ سو گئے، پھر(تھوڑی دیر بعد) وہ نماز کے لیے اٹھے، پھر حضرت سلمان نے کہا: آپ سو جائیں، پھر جب رات کا آخری پہر ہوا تو حضرت سلمان نے کہا: اب آپ اٹھیں، پھر دونوں نے نماز پڑھی، پھر اُن سے حضرت سلمان نے کہا: آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے اور آپ کے اہلِ خانہ کا آپ پر حق ہے، آپ ہر حق دار کو اُس کا حق دیں ،پھر حضرت ابوالدرداء نبیﷺ کے پاس گئے اور (شکایت کے انداز میں) آپ کو یہ قصہ سنایا (کہ میرے بھائی سلمان نے رات مجھے قیام اللیل سے روکے رکھا) تو نبیﷺ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ہے‘‘، (صحیح بخاری:1968)
لیکن اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان دنیا ہی کو مقصودِ کل اور مطلوبِ کامل سمجھتے ہوئے، عشرتوں کا دلدادہ ہوجائے اور حدیثِ پاک کے مطابق درہم ودینار کا بندہ بن جائے ۔ اسلام دنیا کو عارضی قیام گاہ سے تعبیر کرتا ہے۔ پس دنیا اور متاعِ دنیا کی تمام تر رنگینیوں، رعنائیوں اورچمک دمک کے باوجود اِس سے بقائِ حیات اور فرط وانبساط کے لیے استفادہ تو ضرور کرناچاہیے، لیکن اسے اپنی دائمی اور ابدی منزل ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے، مومن کی دائمی منزل کہیں اور ہے ، یہی قرآن کا پیغام ہے اور یہی صاحبِ قرآن کاشِعار ہے۔
اسی لیے اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: ''جس مرد وزن نے ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کیے ، تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی کے ساتھ ضرور زندہ رکھیں گے اور ہم ان کو ان کے نیک کاموں کی ضرور جزا دیں گے‘‘(النحل:97) اور فرمایا:''اور جس نے ایمان کی حالت میں آخرت (کواپنی ابدی منزل بنانے) کا ارادہ کیا اور اس کے لیے شایانِ شان کوشش بھی کی ، تو یہ وہی لوگ ہیںجن کی سعی (اللہ تعالیٰ کے ہاں) مشکور (یعنی مقبول وماجور) ہوگی‘‘ (بنی اسرائیل:19) نظیر اکبر آباد ی نے کہا ہے ؎
جب چلتے چلتے رستے میں، یہ جَون تیری ڈھل جائے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر، پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے، سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھن پُوت ،جمائی بیٹا کیا، بنجارن پاس نہ آوے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ، جب لاد چلے گا بنجارہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''پس جب کانوں کو بہرا کرنے والی چنگھاڑ (قیامت) آجائے گی، اُس دن ہرشخص اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی ، بیٹوں سے بھاگے گا(یعنی کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا)، اُس دن ہر شخص دوسروں سے بے نیاز ہوکراپنی اپنی مصیبت میں مبتلا ہوگا ، اُس دن کئی چہرے (اپنے اعمالِ صالحہ کے سبب) روشن ودرخشاں (اور مسکراتے ہوئے ہشاش بشاش ) ہوں گے اور اُس دن کئی چہرے غبار آلود ہوں گے ،اُن پر سیاہی چھائی ہوگی، وہی لوگ کافر بدکار ہیں‘‘ (عبس:33-42)
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2015-05-23/11364/69229445#tab2
 
یہ بات قابل غور ہے
حدیث پاک میں ہے:''نبیﷺ نے حضرت سلمان اور حضرت ابوالدرداء کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا، حضرت سلمان، حضرت ابوالدرداء کی ملاقات کے لیے گئے، اُنہوں نے(اُن کی بیوی) حضرت اُم الدرداء کوخستہ حالت میں دیکھا توان سے پوچھا : یہ آپ نے اپنی کیاحالت بنارکھی ہے ؟اُنہوں نے بتایاکہ تمہارے بھائی ابوالدرداء کو دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر حضرت ابوالدرداء آئے توانہوں نے حضرت سلمان کو کھانا پیش کیا،حضرت سلمان نے کہا: آپ بھی کھائیں تو حضرت ابوالدرداء نے کہا: میں روزے سے ہوں، حضرت سلمان نے کہا: میں اُس وقت تک نہیں کھاؤں گا، جب تک کہ آپ نہیں کھائیں گے، پھر حضرت ابوالدرداء نے کھانا کھایا، پھر جب رات ہوگئی تو حضرت ابوالدرداء نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، حضرت سلمان نے اُن سے کہا: آپ سو جائیں، سو وہ سو گئے، پھر(تھوڑی دیر بعد) وہ نماز کے لیے اٹھے، پھر حضرت سلمان نے کہا: آپ سو جائیں، پھر جب رات کا آخری پہر ہوا تو حضرت سلمان نے کہا: اب آپ اٹھیں، پھر دونوں نے نماز پڑھی، پھر اُن سے حضرت سلمان نے کہا: آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے اور آپ کے اہلِ خانہ کا آپ پر حق ہے، آپ ہر حق دار کو اُس کا حق دیں ،پھر حضرت ابوالدرداء نبیﷺ کے پاس گئے اور (شکایت کے انداز میں) آپ کو یہ قصہ سنایا (کہ میرے بھائی سلمان نے رات مجھے قیام اللیل سے روکے رکھا) تو نبیﷺ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ہے‘‘، (صحیح بخاری:1968)
سبحان اللہ
 
Top