من گھڑت باتوں کی ترویج و اشاعت

ضیاء حیدری

محفلین
من گھڑت باتون کی ترویج و اشاعت
آپکے موبائل میں جتنے نمبر ھیں اور گروپس ھیں ان سب کو فارورڈ کریں، اس مسیج کے ساتھ ایک پوسٹ نظر سے گذری، سوال: نماز میں دو سجدے کیوں ھوتے ھیں ؟اور جواب میں من گھڑت باتیں بیان کی گئیں ہیں۔
اللہ تعالی نے بغیر علم کے کوئی بات کہنے کو حرام قرار دیا ہے ۔ فرمان باری تعالی ہے ۔قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ ( الأعراف: 33)
ترجمہ : آپ فرمادیجئے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں ، اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں ۔
فرشتوں کا سجدہ آدم علیہ السلام کے لئے تھا جبکہ نماز میں ہمارا سجدہ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ تو نمازی کا اللہ کے لئے سجدہ اور فرشتوں کا آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ دونوں میں کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔
نماز کی ہر رکعت میں ایک رکوع اور دوسجدے فرض ہیں، اَصل بات تو یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طریقے کے مطابق نماز کا حکم دیا اور رسول اللہ ﷺ نے امت کو اسی کے مطابق نماز سکھاکر فرمادیا کہ اُس طرح نماز ادا کرو جیسے مجھے نماز ادا کرتے دیکھا ہے، مؤمن کی شان تو یہی ہے کہ وہ دین کے اَحکام کو حکمِ خداوندی سمجھ کر تسلیم کرلے، خواہ اس کی حکمت و مصلحت اور علت سمجھ میں آئے یا نہیں، بے شک شریعت کے اَحکام مختلف حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن شریعت کے احکام پر عمل کرنا حکمتوں یا مصلحتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، لہذا احکام پر عمل انہیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم سمجھ کر کرنا چاہیے ، حکمتوں اور مصلحتوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔
دو سجدوں کی بابت یہ ایسا دعوی ہے جس کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے، براہ کرم من گھڑت باتون کی ترویج و اشاعت میں اعانت سے بچیں، واللہ اعلم
 
Top