منٹو 104 ویں سالگرہ مبارک ہو

یاز

محفلین
منٹو کا نام سنتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ کیسے کیسے نابغہ روزگار لوگ زمانے کی ناقدری اور ناشناسی کا شکار ہو گئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
55fea6881b607.jpg
 

یاز

محفلین
سنا ہے کہ منٹو نے ایک اور کتبہ بھی تیار کرایا تھا، جس کا فتویء کفر کے خدشے سے اب ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔
 

فوزیہ رباب

محفلین
سعادت حسین منٹو صاحب یومِ پیدائش 11 مئی 1912
سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912 کو سمرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ والد غلام حسن منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ اور لدھیانے کی کسی تحصیل میں تعینات تھے
اے حمید کہتے ہیں کہ یہ کوئی اڑتیس برس ادھر کی بات ہے۔ ایک دبلے پتلے چھریرے بدن کے لڑکے نے مسلم ہائی سکول امرتسر میں ایک اودھم سا مچا رکھا تھا۔ اس کے ہم جماعت جب اسے ’’ٹومی‘‘ کہہ کر پکارتے (جو لفظ منٹو کی انتہائی بگڑی ہوئی شکل ہے) تو اس کی کشتی نما آنکھوں سے کھٹی میٹھی شرارتیں جھلکیاں لیتی نظر آتیں۔ گوراچٹا رنگ، ذرا کھلتی ہوئی پیشانی، کتابی چہرہ، باچھیں کھلی ہوئی سی، ناک کی پھنگی پرتل کا نشان (اگرچہ وہ ناک پر کبھی مکھی بھی بیٹھنے نہیں دیتا تھا) وہ اکثر سفید پتلون نما پاجامہ قمیض یا کھدر کا کرتا پہنے اپنے نئی سائیکل اور مودی کیمرہ لئے سکول کے آس پاس پھرتا رہتا۔ وہ سکول کے متعلق نت نئی خبریں ایجاد کرتا اور موٹے موٹے شلجم کے ٹکڑوں پر کاپنگ پنسل سے لکھے ہوئے الٹے حروف کو کسی محلول کی مدد سے کاغذ کے پرزوں پر چھاپ کر علی الصبح نوٹس بورڈ پر چسپاں کردیتا۔ موقع پاتا تو ایک پرزہ ہیڈ ماسٹر کی جیب میں بھی ڈال دیتا۔ اس کی حرکتوں سے سکول کی چاردیواری میں اکثر ایک ہنگامہ سا برپا رہتا۔
منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ تھا سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکتا تھا۔ اس کی والدہ اس کی طرف دار تھی۔ وہ ابتدا ہی سے تعلیم کی طرف مائل نہیں تھا۔ اس کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔
1921 میں اسے ایم اے او مڈل سکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ اس کا تعلیم کریئر حوصلہ ا‌فزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کےبعد اس نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر منٹو نے ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا-
ابتداء میں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہو گئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہو گئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔
منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے جنس کو موضوع بنایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی جنگ آزادی سیاست، انگریزوں کے ظلم وستم اور فسادات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال دیا۔ انہوں نے بیس برس کی ادبی زندگی مین دو سو سے زیادہ کہانیاں تحریر کیں ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل بن چکی ہیں۔
منٹو کے آخری لمحات کا حال ان کے نامور بھانجے حامد جلال نے لکھا ہے "منٹو کو زندگی کے آخری لمحوں میں ھسپتال لے جایا جا رھا تھا ایمبولینس کے آنے سے پہلے صرف ایک یا دو بار منٹو نے اپنے منہ سے رضائی ہٹائی انہوں نے کہا مجھے بڑی سردی لگ رہی ھے اتنی سردی شاید قبر میں بھی نہیں لگے گی میرے اوپر دو رضائیاں ڈال دو کچھ دیر توقف کے بعد ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نمودار ہوئی انہوں نے آھستہ سے کہا "میرے کوٹ کی جیب میں ساڑھے تین روپے پڑے ھیں ان میں کچھ اور پیسے ملا کر تھوڑی سی وہسکی منگا دو" شراب کے لیئے ان کا اصرار جاری تھا ان کی تسلی کے لیے ایک پوا منگا لیا گیا انہوں نے بوتل کو بڑی عجیب آسودہ نظروں سے دیکھا اور کہنے لگے "میرے لیے دو پیگ بنا دو" منٹو ماموں کی آنکھوں میں اس وقت بھی اپنے لیے کوئی شائبہ موجود نہیں تھا"
سعادت حسن منٹو نے 18 جنوری 1955ء کو جگر کی بیماری میں وفات پائی۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے
 

فوزیہ رباب

محفلین
شکاری عورتیں
(سعادت حسن منٹو)
میں آج آپکو چند شکاری عورتوں کے قصے سناؤں گا میرا خیال ہے کہ آپکو بھی کبھی ان سے واسطہ پڑا ہو گا۔
میں بمبئی میں تھا فلمستان سے عام طور پر برقی ٹرین سے چھ بجے گھر پہنچ جایا کرتا تھا لیکن اس روز مجھے دیر ہو گئی اسلیے کہ ” شکاری ” کی کہانی پر بحث مباحثہ ہوتا رہا۔
میں جب بمبئے سنٹرل کے اسٹیشن پر اترا تو میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جو تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ سے باہر نکلی اسکا رنگ گہرا سانولا تھا، ناک نقشہ ٹھیک تھا جوان تھی، اسکی چال بڑی انوکھی سی تھی ایسا لگتا تھا کہ وہ فلم کا منظر لکھ رہی ہے۔
میں اسٹیشن سے باہر آیا اور پل پر وکٹوریہ گاڑی کا انتظار کرنے لگا میں تیز چلنے کا عادی ہوں اسلیے میں دوسرے مسافروں سے بہت پہلے باہر نکل آیا تھا۔
وکٹوریہ آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا میں نے کوچوان سے کہا کہ آہستہ آہستہ چلے اسلیے کہ فلمستان میں کہانی پر بحث کرتے کرتے میری طبیعت مکدر ہو گئی تھی۔ موسم خوشگوار تھا وکٹوریہ والا آہستہ آہستہ پل پر سے اترنے لگا۔
جب ہم سیدھی سڑک پر پہنچے تو ایک آدمی سر پر ٹاٹ سے ڈھکا ہوا مٹکا اٹھائے صدا لگا رہا تھا۔” قلفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلفی۔”
جانے کیوں میں نے کوچوان سے وکٹوریہ روک لینے کیلئے کہا اور اس قلفی بیچنے والے سے کہا کہ ایک قلفی دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اصل میں اپنی طبیعت کا تکدر کسی نہ کسی طرح دور کرنا چاہتا تھا۔

اس نے مجھے ایک دونی میں قلفی دی میں کھانے ہی والا تھا کہ اچانک کوئی دھم سے وکٹوریہ میں آن گھسا۔ کافی اندھیرا تھا میں نے دیکھا تو وہی گہرے رنگ کی سانولی لڑکی تھی۔
میں بہت گھبرایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی دونے میں میری قلفی پگھلنا شروع ہو گئی۔
اس نے قلفی والے سے بڑے بے تکلف انداز میں کہا” ایک مجھے بھی دو”
اس نے دیدی۔
گہرے سانولے رنگ کی لڑکی نے اسے ایک منٹ میں چٹ کر دیا اور وکٹوریہ والے سے کہا” چلو”
میں نے اس سے پوچھا” کہاں”؟
جہاں بھی تم چاہتے ہو”
مجھے تو اپنے گھر جانا ہے”
تم ہو کون؟
کتنے بھولے بنتے ہو؟
میں سمجھ گیا کہ وہ کس قماش کی لڑکی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا” گھر جانا ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ وکٹوریہ بھی غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ٹیکسی لے لیتے ہیں۔
وہ میرے اس مشورے سے بہت خوش ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کہ اس سے نجات کیسے حاصل کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے دھکا دیکر باہر نکالتا تو ادھم مچ جاتا پھر میں نے یہ سوچا کہ عورت ذات ہے اس سے فائدہ اٹھا کر کہیں وہ یہ واویلا نہ مچا دے کہ میں نے اس سے ناشائستہ مذاق کیا ہے۔
وکٹوریہ چلتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ یہ مصیبت کیسے ٹل سکتی ہے آخر ہم بے بی ہسپتال کے پاس پہنچ گئے وہاں ٹیکسیوں کا اڈہ تھا میں نے وکٹوریہ والے کو اسکا کرایہ ادا کیا اور ایک ٹیکسی لے لی ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے۔
ڈرائیور نے پوچھا۔” کدھر جانا ہے صاحب ”
میں اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا تھوڑی دیر سوچنے کیبعد میں نے اس سے زیرلب کہا۔” مجھے کہیں بھی نہیں جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو دس روپے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لڑکی کو تم جہاں بھی لے جانا چاہو لے جاؤ۔ وہ بہت خوش ہوا۔
دوسرے موڑ پر اس نے گاڑی ٹھہرائی اور مجھ سے کہا” صاحب آپکو سگریٹ لینے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ایرانی کے ہوٹل سے سستے مل جائینگے۔
میں فوراً دروازہ کھول کر باہر نکلا گہرے رنگ کی لڑکی نے کہا” دو پیکٹ لانا”۔
ڈرائیور اس سے مخاطب ہوا” تین لے آئینگے اور اس نے موٹر اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔
*****************************************************
بمبئی کا ہی واقعہ ہے میں اپنے فلیٹ میں اکیلا بیٹھا تھا میری بیوی شاپنگ کیلئے گئی ہوئی تھی کہ ایک گھاٹن جو بڑے تیکھے نقشوں والی تھی بے دھڑک اندر چلی آئی میں نے سوچا شاید نوکری کی تلاش میں آئی ہے مگر وہ آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکالا اور اسے سلگا کر مسکرانے لگی۔
میں نے اس سے پوچھا” کون ہو تم؟”
” تم پہچانتے نہیں۔”
میں نے آج پہلی دفعہ تمہیں دیکھا ہے۔
سالا جھوٹ مت بول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو روز دیکھتا ہے۔”
میں بڑی الجھن میں گرفتار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تھوڑی دیر کیبعد میرا نوکر فضل دین آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اس تیکھے نقشوں والی گھاٹن کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
*****************************************************
یہ واقعہ لاہور کا ہے۔
میں اور میرا ایک دوست ریڈیو اسٹیشن جا رہے تھے جب ہمارا تانگہ اسمبلی ہال کے پاس پہنچا تو ایک تانگہ ہمارے عقب سے نکل کر آگے آ گیا اس میں ایک برقع پوش
عورت تھی جس کی نقاب نیم وا تھی۔
میں نے اسکی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی شرارت ناچنے لگی میں نے اپنے دوست سے جو پچھلی نشست پر بیٹھا تھا کہا۔” یہ عورت بدچلن معلوم ہوتی ہے۔”
” تم ایسے فیصلے ایکدم مت دیا کرو”
” بہت اچھا جناب! میں آئندہ احتیاط سے کام لوں گا”
برقع پوش عورت کا تانگہ ہمارے تانگے کے آگے آگے تھا وہ ٹکٹکی لگائے ہمیں دیکھ رہی تھی میں بڑا بزدل ہوں لیکن اسوقت مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے آداب عرض کر دیا۔
اسکے آدھ ڈھکے چہرے پر مجھے کوئی ردعمل نظر نہ آیا جس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔
میرا دوست کہنے لگا اسکو میری اس ناکامی سے بڑی مسرت ہوئی لیکن جب ہمارا تانگہ شملہ پہاڑی کے پاس پہنچ رہا تھا تو اس برقع پوش عورت سے کوئی بات نہ کی اور تانگے والے سے کہا کہ وہ ریڈیو اسٹیشن کا رخ کرے۔
میں اسے اندر لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈائریکٹر صاحب سے میرے دوستانہ مراسم تھے میں نے ان سے کہا۔ ” یہ خاتون ہمیں رستے میں پڑی ہوئی مل گئی آپکے پاس لے آیا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ انہیں یہاں کوئی کام دلوا دیجیے۔
انہوں نے اس کی آواز کا امتحان کرایا جو کافی اطمینان بخش تھا جب وہ آڈیشن دیکر آئی تو اس نے برقع اتارا ہوا تھا میں نے اسے غور سے دیکھا اسکی عمر پچیس کے قریب ہو گی۔ رنگ گورا آنکھیں بڑی بڑی لیکن اسکا جسم ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے شکرقندی کیطرح بھوبل میں ڈال کر باہر نکالا گیا ہے۔
ہم باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں چپڑاسی آیا اس نے کہا کہ باہر ایک تانگہ والا کھڑا ہے وہ کرایہ مانگتا ہے میں نے سوچا شاید زیادہ عرصہ گزرنے پر وہ تنگ آ گیا ہے چنانچہ میں باہر نکلا میں نے اپنے تانگے والے سے پوچھا ” بھئی کیا بات ہے ہم کہیں بھاگ تو نہیں گئے”
وہ بڑا حیران ہوا” کیا بات ہے سرکار”
تم نے کہلا بھیجا ہے کہ میرا کرایہ ادا کرو”
میں نے جناب کسی سے کچھ بھی نہیں کہا”
اسکے تانگے کیساتھ ہی ایکدوسرا تانگہ کھڑا تھا اسکا کوچوان جو گھوڑے کو گھاس کھلا رہا تھا میرے پاس آیا اور کہا ” وہ عورت جو آپکے ساتھ گئی تھی” وہ کہاں ہے؟
اندر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟
جی اس نے دو گھنٹے مجھے خراب کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ادھر جاتی تھی کبھی ادھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اسکو معلوم ہی نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے”
اب تم کیا چاہتے ہو؟
جی میں اپنا کرایہ چاہتا ہوں۔
میں اس سے لے کر آتا ہوں۔
میں اندر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس برقع پوش عورت سے جو اپنا برقع اتار چکی تھی کہا” تمہارا تانگے والا کرایہ مانگتا ہے۔
وہ مسکرائی” میں دیدونگی۔
میں نے اسکا پرس جو صوفے پر پڑا تھا اٹھایا اور اسکو کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس میں ایک پیسہ بھی نہیں لیا تھا بس کے چند ٹکٹ تھے اور دو بالوں کی پنیں۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک واہیات قسم کی لپ اسٹک۔
میں نے وہاں ڈائریکٹر کے دفتر میں کچھ نامناسب نہ سمجھا۔ ان سے رخصت طلب کی باہر آکر اسکے تانگے والے کو دو گھنٹوں کا کرایہ ادا کیا اور اس عورت کو اپنے دوست کی موجودگی میں کہا، تمہیں اتنا خیال ہونا چاہیے کہ تم نے تانگہ لے لیا ہے اور تمہارے پاس ایک کوڑی بھی نہیں۔
وہ کھسیانی ہو گئی” میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ بڑے اچھے آدمی ہیں۔ ”
” میں بہت برا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بڑی اچھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل سے ریڈیو اسٹیشن آنا شروع کر دو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری آمدن کی صورت پیدا ہو جائیگی یہ بکواس جو تم نے شروع کر رکھی ہے اسے ترک کر دو۔
میں نے اسے مزنگ کے پاس چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دوست چا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفاقاً مجھے ایک کام سے وہاں جانا پڑا۔
دیکھا کہ میرا دوست اور وہ عورت اکٹھے جا رہے تھے۔
*****************************************************
یہ بھی لاہور کا واقعہ ہے
چند روز ہوئے میں نے اپنے دوست کو مجبور کیا کہ وہ مجھے دس روپے دے اس دن بنک بند تھے اس نے معذوری کا اظہار کیا لیکن جب میں نے اس پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح یہ دس روپے پیدا کرے اسلیے کہ مجھے ایک علت پوری کرنا ہے جس سے تم بخوبی واقف ہو تو اس نے کہا ” اچھا ” میرا ایک دوست ہے وہ غالباً اسوقت کافی ہاؤس میں ہو گا وہاں چلتے ہیں امید ہے کام بن جائے گا۔
ہم دونوں تانگے میں بیٹھ کر کافی ہاؤس پہنچے مال روڈ پر بڑے ڈاکخانے کے قریب ایک تانگہ جا رہا تھا اس میں نسواری رنگ کا برقع پہنے ایک عورت بیٹھی تھی اسکی نقاب پوری کی پوری اٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تانگے والے سے بڑے بے تکلف انداز میں گفتگو کر رہی تھی ہمیں اسکے الفاظ سنائی نہیں دیے لیکن اسکے ہونٹوں کی جنبش سے جو کچھ معلوم ہونا تھا ہو گیا۔
ہم کافی ہاؤس پہنچے تو عورت کا تانگہ بھی وہیں رک گیا میرے دوست نے اندر جا کر دس روپوں کا بندوبست کیا اور باہر نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عورت نسواری برقعے میں جانے کس کی منتظر تھی۔
ہم واپس گھر آنے لگے تو رستے میں خربوزوں کے ڈھیر نظر آ گئے ہم دونوں تانگے سے اتر کر خربوزے پرکھنے لگے۔
ہم نے باہم فیصلہ کیا کہ اچھے نہیں نکلیں گے کیونکہ انکی شکل و صورت بڑی بے ڈھنگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی نسواری برقع تانگے میں بیٹھا خربوزے دیکھ رہا ہے۔
میں نے اپنے دوست سے کہا ” خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے ابھی تک یہ نسواری رنگ نہیں پکڑا۔”
اس نے کہا ” ہٹاؤ جی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب بکواس ہے۔
ہم وہاں سے اٹھ کر تانگے میں بیٹھے میرے دوست کو قریب ہی ایک کیمسٹ کے ہاں جانا تھا وہاں دس منٹ لگے باہر نکلے تو دیکھا کہ نسواری برقع اسی تانگے میں بیٹھا جا رہا تھا۔
میرے دوست کو بڑی حیرت ہوئی، یہ کیا بات ہے؟ یہ عورت کیوں بیکار گھوم رہی ہے؟
ہمارا تانگہ ہال روڈ کو مڑنے ہی والا تھا کہ وہ نسواری برقع پھر نظر آیا میرے دوست گو کنوارے ہیں لیکن بڑے زاہدان کو جانے کیوں اکساہٹ پیدا ہوئی کہ اس نسوارے برقعے سے بڑی بلند آواز میں کہا” آپ کیوں آوارہ پھر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئیے ہمارے ساتھ”
اسکے تانگے نے فوراً رخ بدلا اور میرا دوست سخت پریشان ہو گیا جب وہ نسواری برقع ہمکلام ہوا تو اس نے اس سے کہا۔ ” آپکو تانگے میں آوارہ گردی کرنے کی کیا ضرورت ہے میں آپ سے شادی کرنے کیلئے تیار ہوں۔
میرے دوست نے اس نسواری برقعے سے شادی کر لی۔
 

فوزیہ رباب

محفلین
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﻮﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻢ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺻﺮﻑ
ﺷﮑﻞ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ .
ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺣﺴﻦ ﻣﻨﭩﻮ
 

محمد وارث

لائبریرین

فوزیہ رباب

محفلین
یہاں کچھ معلومات ہیں۔ یہاں ڈائریکٹ اپ لوڈ نہیں ہو سکتا، پہلے کسی جگہ اپ لوڈ کریں، یا پہلے سے موجود تصویر کا لنک کاپی کریں اور پھر یہاں پوسٹ کرتے ہوئے "تصویر" والے حصے پر کلک کر کے وہ لنک شامل کر دیں۔
اچھا اچھا سمجھ گئ
یعنی یہاں تصویر پوسٹ کرنا ممنوع ہے مگر چور راستے سے کی جاسکتی ہے :-P
 
Top