فرخ منظور
لائبریرین
دلم از بخت گہی شاد نبود
جانم از بند غم آزاد نبود
دل ہی قسمت سے کبھی شاد نہ تھا
بندِغم سے کبھی آزاد نہ تھا
یکدم از عمر گرانی نگذشت
کان ہمہ ضائع و برباد نبود
یک نفس عم ِ گذشتہ میں کبھی
کب کبھی ضائع و برباد نہ تھا
گر ببینی دل ویران مرا
گو ئیا ہیچگہ آباد نبود
دیکھ لے گر دلِ ویراں کو مرے
تو کہے گا کبھی آباد نہ تھا
شب ہمی دانم کو آمد و بس
بیش ازین خویشتم یاد نبود
رات کو یاد ہے وہ آئے تھے
اور کچھ اس کے سوا یاد نہ تھا
ہر چہ میخواست ہمی کرد طبیب
ناتوان را سر ِ فریاد نبود
جو بھی چاہا وہ مسیحا نے کیا
ضعف سے یارائے فریاد نہ تھا
جانم از بند غم آزاد نبود
دل ہی قسمت سے کبھی شاد نہ تھا
بندِغم سے کبھی آزاد نہ تھا
یکدم از عمر گرانی نگذشت
کان ہمہ ضائع و برباد نبود
یک نفس عم ِ گذشتہ میں کبھی
کب کبھی ضائع و برباد نہ تھا
گر ببینی دل ویران مرا
گو ئیا ہیچگہ آباد نبود
دیکھ لے گر دلِ ویراں کو مرے
تو کہے گا کبھی آباد نہ تھا
شب ہمی دانم کو آمد و بس
بیش ازین خویشتم یاد نبود
رات کو یاد ہے وہ آئے تھے
اور کچھ اس کے سوا یاد نہ تھا
ہر چہ میخواست ہمی کرد طبیب
ناتوان را سر ِ فریاد نبود
جو بھی چاہا وہ مسیحا نے کیا
ضعف سے یارائے فریاد نہ تھا