منصور بن سلطان مظفر؛ خطاط

الف نظامی

لائبریرین
646.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت عمدہ اور معلوماتی مضموں۔۔۔
پھول سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ آنکھ مچولی، نونہال، تعلیم و تربیت اور پھول ہمارے گھر میں ہر مہینے آتے تھے۔۔۔ امی ابو ہمیں یہ رسالے پڑھنے پر اکسایا کرتے تھے۔۔ مطالعہ کرنے کی عادت انہی دنوں کی دین ہے۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
ایران کے شہنشاہ اور خطاطی کے نامور استاد
منصور بن سلطان مظفر
خط نستعلیق ، کوفی اور محقق میں کمال حاصل کیا ، معروف شاعر خواجہ حافظ شیرازی نے انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا

پھول بچو! 1388ء سے 1396ء تک ایران میں خوب طمطراق سے حکومت کرنے والے منصور بن سلطان مظفر ایک زبردست خطاط بھی تھے اور خطاطی کی تمام اقسام پر کامل عبور رکھتے تھے۔ شعراء ، ادباء اور مورخین و مصنفین کی ایک جماعت ان کی سر پرستی میں فنون کی خدمت کر رہی تھی۔ انہوں نے اپنے عہد کے نامور خطاطوں سے خطاطی کا فن سیکھا۔ ان کے اساتذہ میں مہدی فکاری شیرازی اور ملاں محی الدین کے نام آتے ہیں۔
بچپن سے ہی انہیں حکمت و فلسفہ ، اسلامی علوم ، شعر و ادب اور خطاطی کے تربیت کے ساتھ ساتھ فن سپہ گری سے بھی آراستہ کیا گیا۔ فنِ خطاطی کے بارے میں ان کا ایک معروف قول ہے کہ یہ فن انسان کی توجہ کو ایک جگہ جمع کر لینے کا بھی ذریعہ ہے۔ امور سلطنت کی بجا آوری کے بعد انہیں جب بھی وقت ملتا وہ قرآنی آیات اور معروف شعراء کا کلام خطاطی کرتے تھے اور جس بھی فرد سے وہ زیادہ خوش ہوتے اسے یہ بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔ جو یہ نایاب تحفہ حاصل کر کے اسے سر آنکھوں پر رکھتے تھے۔
معروف شاعر خواجہ حافظ شیرازی نے بھی ان کی شخصیت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں:

بیا کہ رایت منصور بادشاہ رسید
نوید فتح و بشارت بمہر و ماہ رسید
جمال بخت ز روی نقاب انداخت
کمال عدل بہ فریاد داد خواہ رسید​

یعنی منصور بادشاہ ایک ایسا باکمال حکمران ہے کہ سورج چاند بھی اس کی فتح کی بشارت دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ پورے عدل سے ہر فریادی کی مدد کو پہنچتے ہیں۔
بلاشبہ خواجہ حافظ شیرازی کے یہ اشعار منصور بن سلطان مظفر کے باکمال عہد کی داستان سناتے نظر آتے ہیں۔

سلطان منصور کے حسن خط میں اتنا زور تھا کہ وہ یکبارگی قلم لگاتے تھے اور الفاظ موتیوں کی طرح قرطاس پر چمکنے لگتے تھے۔ منصور کے بعض فن پاروں پر اس عہد کے نامور مصوروں نے بھی نقاشی کے جوہر دکھائے ہیں اور سونے و جواہرات کے ساتھ الفاظ کے گرد حاشیہ بندی کر کے ، جسے عمومی طور پر موشے دندان بھی کہتے ہیں ، نقاشی کے جوہر دکھائے ہیں اور فنی نوادرات کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔
منصور بن سلطان مظفر کو منصور سلطان عادل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کا قول ہے کہ خطاط کو چاہیے کہ وہ باوضو ہو کر نہایت ہی پاکیزگی سے خطاطی کی مشق کرے اور دن کا کثیر حصہ مشق میں صرف کرے ، بعد ازاں کوئی مخطوطہ تحریر کرے جو زیادہ الفاظ پر مشتمل نہ ہو۔
کتاب نویسی کے لیے وہ رات کا آخری پہر پسند کرتے تھے۔
منصور بن سلطان مظفر کے دربار میں ہر خاص و عام کو حاضر ہونے کی اجازت تھی۔ وہ دربار میں بھی فریادی کی پکار پر لبیک کہتے تھے اور آنے والوں کو کبھی مایوس نہیں لوٹاتے تھے۔
روایات میں ہے کہ وہ سائل کی حاجت کا دور سے ہی اندازہ کر لیتے تھے اور اس کی توقع سے زیادہ اسے دیتے تھے۔
پھول بچو! سلطان منصور کا دور حکومت 1396ء تک ہے اور یہ ایک سنہری دور تھا کہ جس میں اہلِ علم و فن کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ سچ ہے کہ اگر حکمران خود علم و حکمت کے امین ہوں تو تب ہی وہ اہلِ علم و فن کی قدر کر پاتے ہیں اور جو مطلقا جاہل اور ناواقف ہوں تو ان کی ساری زندگی لوٹ مار اور فریب میں گزر جاتی ہے۔ ایسے جاہل حکمران زمین پر اللہ کا عذاب ہوتے ہیں۔ دعا کریں کہ منصور بن سلطان مظفر جیسے اہل علم و فن ہمیں بھی مل سکیں۔
 
آخری تدوین:
Top