مصطفیٰ زیدی منزلیں ، فاصلے

غزل قاضی

محفلین
منزلیں ، فاصلے

حافظے کی مدد سے چلو ، ساتھیو
دور تک کہر ہی کہرہے ، راستے
راہ گیروں کے قدموں سے لپٹے ہوئے
اونگھتی سرحدوں کی طرف کھو گئے

ایک بےنام خطرے سے سہمے ہوئے
رنگ و رَم لے لپکتے قدم تھم گئے
اور دریچوں سے بڑھتی ہوئی روشنی
برف و باراں کی یلغار میں کھو گئی
وقت عفریت کی رہ گزر بن گیَا
شہر کا شہر اجڑا کھنڈر بن گیا

اس کراں تا کراں گونجتی رات میں
اس بھپرتے ہوئے بحرِ ظلمات میں
کون سُنتا خداؤں کی سرگوشیاں
کون بنتا نئی صبح کا پاسباں ؟

سرنگوں تھے مہ و انجم و کہکشاں
سخت تھی یہ زمیں ، دور تھا آسماں
جبر کے بازوؤں میں تڑپتی رہی !
اک کنوارے تبسم کی دوشیزگی
مجھ سے لہجے کی دھیمی کسک چِھن گئی
میرا فن ، میرے فن کی دمک چھن گئی
دل کی بےخوف للکار تک چھن گئی

حافظے کی مدد سے چلو ساتھیو
آؤ روشن کریں یاد کی انجمن
آؤ ڈھونڈیں وہ رسم ِ جنوں ، وہ چلن
دل کی آوارگی ، ذہن کا بانکپن
اپنی شبنم سے نِکھری ہوئی کھیتیاں
اپنے اُوودے پہاڑوں کی پہلی کرن
اک نہ بُھولے ہوئے خواب کی سرخوشی
اک نہ سمجھے ہوئے دیوتا کی لگن

اک نہ دیکھے ہوئے روپ کی کہکشاں
اک نہ اجڑے ہوئے شہر کی داستاں
اک نہ بکھرے ہوئے پھول کی نرمیاں
سحر و دام و طلسمات کے کارواں
جیسے موصل کی رنگین شہزادیاں
جیسے پہلی محبت کی بےتابیاں

کل جو گھر جل گئے تھے اسی راکھ سے
آؤ تعمیرِ دربار و ایواں کریں
آنسوؤں سے بہت سے دئیے بجھ چکے
آؤ اب آنسوؤں سے چَراغاں کریں


(مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )
 
Top