منتخب اشعار - "کیا کمی تھی" - عؔلی خان

عؔلی خان

محفلین
*~* منتخب اشعار *~*

جِیون مِیں جَب دُکھ سے اَپنے دِن اور رَاتیں لِکھّوں
پھِر بھی کِیا مَیں خَط مِیں آپ کو پِیار کی بَاتیں لِکھّوں


* * *

بُلندّیوں سے گِری لاش اَور مَجمع ہے
یہ زِیست کوہِ مَصائِب بَنی ہے پھر شَاید


* * *

چَشمِ تَر سے آنسوؤں کا فاصلہ اچھّا نہیں
ہَنستے بَستے شہر میں پھِر حادثہ اچھّا نہیں


* * *

کہانی مِیں نَصیحت بھی تھی لیکن
وہ بَچّہ سُنتے سُنتے سو گیا تھا


* * *

عؔلی فضُول گذارا ہے آج کا دِن بھی
چلو کسی کو سڑک پار ہی کرا دیتے


* * *

کیا کوئی اَب کے بھی بَچّہ چھِین کر لِے جَائے گا
اَور مَاں گاڑی کے پِیچھے بھَاگتی رِہ جَائے گی


* * *

ٹَرین گُذری تو پَٹڑی پہ دِیر تَک وہ جِسم
تَڑپتا رِہ گیا، جِیسے ہو جَان آرے پر


* * *

پتھّر سے کوئی جھیل کو گھائل کیا کر گیا
لہررں کے آنسوؤں سے کنارہ ہی بھر گیا


* * *

کوئی تو ہو جو مِرے گھر کی سیڑھیوں پہ عؔلی
صُبح سَویرے نَئے پھُول چھوڑ جایا کرے


* * *

عؔلی اَبھی تَلک وہ نَام ڈائِری مِیں دَرج ہے
اَگرچہ مِیری اُس سے اَب وہ دوسَتی نَہیں رَہی


* * *

گھر کو چھوڑنے والو! گھر کو یاد رکھو کہ بَعض اوقات
رَہ تکتی آنکھوں کے بَدلے، دِیواریں رِہ جاتی ہیں


* * *

بِھیگی آنکھوں سے تو سَب روتے ہیں لیکن
خُشک آنکھوں سے رونا کیا ہے، ہَم سے پوچھو


* * *

قیامَت سی
یہ باہر کیا گِری ہے
کہ بَستی اپنے اُوپر آ گِری ہے


* * *

کِتاب مِیں لِکھے ہوئے حَرُوف دُھندلے ہو گئے
دَریچوں مِیں جو شَام کی بھی رَوشنی نَہیں رَہی


* * *

بکِھرتے رَنگوں جیسا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں
مَیں کیا تھا، اور اَب کیا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں


* * *

زَر کی بَجائے پِیار کی اِیسی بولی رَکھّی جَائے
جِس پہ خُوشی سے ہر بِیٹی کی ڈولی رَکھّی جَائے


* * *

کچھ نہ کچھ حوصلہ ملا ہوگا
اس کو خط جو مِرا ملا ہوگا


* * *

پِہلے پِہلے فُون ہوں گے، خَط بھی لِکھّے جَائیں گے
پھِر برائے نَام سی بَس دوسَتی رہ جَائے گی


* * *

دَرِ سُخَن مُجھے وَقتِ قَبُول وَا نہ مِلا
اُٹھائے ہاتھ مَگر حَرفِ مُدَّعا نہ مِلا


* * *

آئینہ کیسا، حیرتیں کیسی
وہ نہیں ہے تو خواہشیں کیسی


* * *

بَاقی سَاری شَان سے رَسمِیں اَدا ہونے کے بَعد
کِیا خَبَر تھی بَس یہی اِک رُخصَتی رِہ جَائے گی


* * *

وہ جانتا ہے کہ میں بھی سراب ہوں لیکن
مجھے وہ روز نئے زاویوں سے دیکھتا ہے


* * *

عؔلی مَاں کی دُعائیں ساتھ ہوں تو
کہیں کُچھ بھی خَطر دِکھتا نَہیں ہے


* * *

سوچا تو تھا ہَوا نے تَعاقُب کرے مَگر
بَادل کنارِ شہر ہی ٹِیلوں مِیں بَٹ گئے


* * *

غَرُوبِ شَمس کا مَنظر ہے ۔۔۔۔۔ جیسے
سَمندر ۔۔۔۔۔ جھیل ہوتا جا رہا ہے


* * *

بھیڑ کی تَقلید مِیں گھر سے نِکل کر کھو گئے
تیز کُچھ اِتنا چَلے کہ پاؤں اَندھے ہو گئے


* * *

عؔلی اِس جِسم کے مَضبوط گھر کو کیا کروں میں ؟
اَگر یہ جِسم بُنیادوں سے گِرتا جَا رَہا ہے


* * *

عذاب میں بھی یہ ہم پر کمال ہوتا رہا
'یہ کس لیے ہے' برابر سوال ہوتا رہا


* * *

اَب کُچھ اَور بھی تَنہا مُجھ کو چھوڑ چُکی ہے
تَنہائی بھی اَپنا رِشتہ توڑ چُکی ہے


* * *

نَہیں ہوں، مَیں کِسی کا بھی نَہیں ہوں
اگر خُود اَپنے جیسا بھی نَہیں ہوں


* * *

تُمھاری آنکھوں مِیں خَواب اُترے، خُدا کرے یہ
بَمع مُجسّم شَباب اُترے، خُدا کرے یہ


* * *

عَبَث یہ پَانی تَڑپتا نَہیں ہے دَھارے پر
ضَرُور ہوگا کوئی دُوسَرے کِنَارے پر


* * *

اُس سے پوچھو رِشتوں کی تَوقیر ہے کیسی
جو دوشیزہ رِشتوں سے مُنہ موڑ چُکی ہے


* * *

فضا مِیں بکھری ہوئی سوگوار تَنہائی
اور اُس پہ زِندگئِ نَا تَمام کا مَاتم


* * *

مَیں ہِجرَتوں کے مُسلسَل عَذاب سے تَنگ ہوں
نَہ اور بَدلوں ٹھکَاں، اَب کہ مَیں نے سوچا ہے


* * *

مُجھے معُلوم ہے، مُجھ میں بھی کئی خَامِیاں ہیں
کبھی سَمجھا بھی نہیں، میں نے خُدا سا خُود کو


* * *

ہَمارے پَاس کوئی سَمت ہی نہیں وَرنہ
چَمکتا آئینہ ہم بھی نِکَالَتے سَائیں


* * *

عَجب نہَیں کہ یہ دُنیا انھی سے قائم ہو
جو لوگ آج بھی سچّے ہیں اور دِل کے کھرے


* * *

عؔلی یہ طائرِ دِل بھی عَجیب وَحشی ہے
جہاں پِہ دِیکھ لِی خَواہِش، وہیں اُتارے پَر

* * *

اگر کُچھ رَابطہ بَاہر سے بَنتا جَا رَہا ہے
خَلا اَندر کا بھی تو اَور بَڑھتا جَا رَہا ہے

* * *

رَوشنیوں مِیں آنکھیں اَندھی ہو جاتی ہیں
پھر آنکھوں کو کیا دِکھتا ہے، ہم سے پوچھو


* * *

اُجڑنا چاہیے تھا --- جِس طرح --- اُجڑا نہیں ہوں
ہَوا کے ہَاتھ میں ہوں اور میں بکھرا نہیں ہوں


* * *

اب کہ سوچا ہے کہ سامان تبھی کھولیں گے
نئے ماحول سے واقف جو ذرا ہو لیں گے


* * *

اپنی اوقات سے بڑھنے کی ضرورت کیا ہے
اس قدر خواب پہ مرنے کے ضرورت کیا ہے


* * *

آنکھوں میں اضطراب نہ چہرے پہ کوئی فکر
اے کاش! ہم بھی خود کو یوں شاداب دیکھتے


* * *

غمِ حیات کے زخموں سے چُور رہتے ہیں
ہم اپنے گھر میں نہیں، گھر سے دُور رہتے ہیں

* * *

اجاڑ ڈالے گا لہروں کے دائرے کو عؔلی
مثالِ سنگِ گِراں جو گرا ہے پانی میں

* * *

ہر ایک زَخم سہہ لیا فقط یہ سوچ کر عؔلی
چلو کہ زندگی میں یوں اِک اور تجربہ سہی

* * *

مسکرا کے عذاب دے دینا
اس کی عادت ہے خواب دے دینا

* * *

بُلندّیوں پہ پہنچ کر نہ جانے کیوں کچھ لوگ
عؔلی زمانہء پستی کو بھول جاتے ہیں

* * *

ہر ایک وقت وہی داستاں زمانے کی
کبھی تو بات کرو ہم سے مسکرانے کی

* * *

لمحہ جلدی تمام ہو جائے
نامِ جاں، محض نام ہو جائے

* * *

قرارِ جاں بھی نہ ہو اور گفتگو بھی نہ ہو
یہ کیسے ہو کہ مجھے تیری جستجو بھی نہ ہو

* * *

کوئی ملُول تھا نہ کسی کو خوشی ہوئی
کچھ اس طرح سے گھر سے مِری رُخصتی ہوئی

* * *

نہ دوستی نہ کبھی دُشمنی رہی ہم سے
یہ زندگی کہ سدا اجنبی رہی ہم سے

* * *

کسی بچے کے ننھے قہقہے سے
تھکاوٹ دُور ساری ہو گئی ہے

* * *

اب کہ بھی خواہشِ دَستک رہی پنہاں دل میں
اب کہ بھی تم سے ملاقات نہیں ہو پائی

* * *

مکیں نہیں تو کم از کم مکان بدلا جائے
کسی طرح سے مگر آسمان بدلا جائے

* * *

یہ اور بات مجھے اب تُو جانتا ہی نہیں
مگر میں ہوں ابھی تجھ میں ضمیر کی مانند

* * *

سات سمندر پار کی دُنیا دیکھ چکا ہوں
جو خوابوں کا مستقبل تھا، دیکھ چکا ہوں

* * *

بھیڑ میں شامل تو ہونا چاہیے
لُٹ تو جانا ہے ہی، کھونا چا ہیے

* * *

کھلا مکان کو رکھیں یا بند کر ڈالیں
ہمارے پاس ہمارے علاوہ ہے ہی کیا

* * *

مقام کیا ہے، کسی کا، خدا ہی جانتاہے
عؔلی کسی بھی خود سے حقیر مت سمجھو

* * *

تمام عمر یونہی بن بیاہے بیٹھی رہوں
جہیز مانگنے والوں نے یہ سزا دی ہے
حضور! کچھ تو کرم ہو کہ اب تو پاؤں میں
کسی غریب نے دستار تک گرا دی ہے

* * *

میں خوش ہوں میرے ہاتھوں سے بالآخر
لکیرِ زیست مٹتی جارہی ہے


© عؔلی خان – www.AliKhan.org/book.pdf
* * *
 
آخری تدوین:
Top