ممتاز راشد پر ندا فاضلی کا مضمون

الف عین

لائبریرین
عصرِ حاضر کا ممتاز و معتبر شاعر
ندا فاضلی

ممتاز راشد موجودہ عہد کے ممتاز و معتبر شاعر ہیں ۔ ان کی تخلیقی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں وقت، معاشرہ اور نجی حالات و واقعات کا طویل اشتراک شامل رہا ہے ۔ وہ وقت کے ساتھ چلتے بھی رہے ہیں اور اپنی ارادی قوت سے اسے بدلتے بھی رہے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ان کی نبرد آزمائی نے ان کی غزل کو اس لایعنیت سے دور رکھا ہے جو ان کے ہم عصروں کے یہاں ایک رجحان کی صورت میں ابھرا تھا اور جسے بعد میں جدیدیت کی عصری خصوصیت سمجھا گیا۔
صنف غزل کے ساتھ راشد کی تخلیقی وابستگی کی عمر تقریباً پینتیس، چالیس سال کی لمبی مسافت طے کر چکی ہے ۔ وقت کا یہ طویل عرصہ جو اردو اور ہندوستان کی دیگر زبانوں میں جدیدیت کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ اب مابعد جدیدیت کے ساتھ داخل ہو چکا ہے ۔ غزل نظم اور افسانوی ادب میں نت نئی تبدیلیوں کا میدان کا رزار رہا ہے ۔ یہی وہ دور ہے جب غزل نے حسن و عشق کے محدود دائرہ سے باہر نکل کر ارد گرد کے ماحول سے رشتہ ہموار کیا اور کانوں سنی کی جگہ آنکھوں دیکھی پر اصرار کیا۔ غزل کے رائج علاماتی اور استعاراتی حصار کے انہدام اور نئے امکانات کی تلاش و جستجو کا سلسلہ بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے ۔
ممتاز راشدؔ اسی نئی غزل کے شاعر ہیں ، جو فراق و یگانہ سے ہوتی ہوئی ان تک پہنچی ہے ۔ اس غزل کو بنانے ، سنوارنے میں فراقؔ و یگانہؔ کے اثرات کے ساتھ پریم چند کے کفن سے لے کر عصمت، راجندر سنگھ بیدی اور منٹو کی تحریروں کی کارکردگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس غزل میں شامل کردار اپنے زمینی رقبہ اور مزاج و انداز کے لحاظ سے نہ وحشتوں میں دشت آباد کرتے ہیں ۔ نہ رات دن غم ہجر میں رو رو کر خود کو برباد کرتے ہیں ۔ ان میں زندگی کرنے کا حوصلہ بھی تھا اور زندگی کے تضادات میں شخصی ہم آہنگی پیدا کرنے کا سماجی شعور بھی مقابلتاً زیادہ تھا۔ ان کرداروں کی ارضیت اور زمینی مانوسیت نے غزل کی شکل کو ہی نہیں بدلا اس کے علاقوں کی ٹوپوگرافی بھی بدل دی جس کی آئینہ داری کی ذمہ داری وہ برسوں سے نبھا رہی تھی۔ راشدؔ کے اشعار ہیں ۔
تھی بھیڑ کچھ ایسی نظر آیا نہ وہ چہرہ
تکتی رہی نظریں یوں ہی جاتی ہوئی بس کو
*
وہی نظروں کا بھٹکنا وہی آوارہ شبی
میں تو سمجھا تھا تجھے پا کے سنبھل جاؤں گا
*
چمک رہا تھا پرانی گلی کا ہر منظر
کھڑا ہوا تھا وہ کھڑکی میں سرنکالے ہوئے
*
جس کی قربت نے دیے مجھ کو ہمیشہ حوصلے
ریل کی کھڑکی پہ سر رکھ کر وہی روتا رہا
ان اشعار میں ، کسی کا بھیڑ میں کھونا اور نظروں کا جاتی ہوئی بس کو تکنا ، محبوبہ کو پا کر بھی وہی بھٹکاؤ اور آوارہ شبی کا سبھاؤ، کسی کھڑکی سے کسی کا سر نکالنا اور اس سے پرانی گلی کے ہر منظر کا چمک جانا، کسی کا کسی کو رخصت کرتے ہوئے ریل کی کھڑکی پر سر رکھ کے رونا میں جو چھوٹی بڑی کہانیوں جیسے لمحے سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں ، جو رشتے اور ضابطے بنتے بگڑتے دکھائی دیتے ہیں ، ان میں شخصی شب و روز کی نرمیاں بھی ہیں اور بدلتی اقدار کی گرمیاں بھی ہیں ۔ راشدؔ کی غزل روایت و جدت کا خوبصورت امتزاج ہے ۔ ان کی غزل انحراف و اعتراف کے متوازی رنگوں کی مصوری ہے ۔ ان کے مزاج کی غنائیت اسی جمالیاتی رویہ کی دین ہے ۔
راشدؔ نئے عہد کے شاعر ہیں ۔ ان کے عہد کی طرح ان کی غزل بھی نئی ہے اپنے لباس میں بھی اس کی تراش خراش میں بھی۔ نئی سے یہاں مراد اس غزل سے ہے جو ساٹھ ستر کی درمیانی مدت میں نئی نظم کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس دلانے لگی تھی۔ جس طرح ہندی میں نئی کویتا نے ہندی گیت کا روپ رنگ بدلا تھا اور اسے پنگھٹ گھونگٹ اور پائل وغیرہ کے محدود دائرہ سے آزاد کر کے اسے اسٹیشن ، ریل، ہرکارہ، رومال اور گھر آنگن کے سنسار میں لا کھڑا کیا تھا اسی طرح ہی اردو نظم میں ہیئت و موضوع کے نئے تجربوں نے غزل کو اپنے عصر سے ہم رشتہ کیا تھا۔ ادب میں تبدیلی کا معاشرتی جواز بھی ہوتا ہے اور شخصی ذہنی ساخت بھی اس کی وجہ بنتی ہے ۔ ایک ہی عہد میں غالب، ذوق اور مومنؔ کے شعری امتیازات فرد اور سماج کے رشتوں کی مختلف سطحوں کا سراغ بھی دیتے ہیں اور اپنے دور کے مشترک زمین و آسمان کا رقبہ بھی فراہم کرتے ہیں ۔ الگ الگ عہد میں فکر و نظر کے زاویے بھی الفاظ سے منعکس ہوتے ہیں ۔
ممتاز راشدؔ کے پہلے مجموعہ ’’بھیگا ہوا کاغذ‘‘ کا ایک بہت مشہور شعر ہے ۔
کوئی تحریر مٹائیں تو دھواں اٹھتا ہے
دل وہ بھیگا ہوا کاغذ ہے کہ جلتا ہی نہیں
اس شعر میں کاغذ کا استعارہ کس طرح عہد بہ عہد اپنے معنی و مفہوم اور سیاق بدلتا رہا ہے ۔ اس کی دو مثالیں ملاحظہ کریں ان سے نہ صرف بدلتے ہوئے ادوار کی جست کا اندازہ ہوتا ہے ، انفرادی سچ اور اس کی بدلتی ہوئی اقدار کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ میرؔ نے لگ بھگ تین سو سال پہلے کہا تھا۔
میرے رونے کی حکایت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
اور میرؔ سے پہلے کبیر یوں کہہ گئے تھے :
رہنا نہیں دیس برانا ہے
یہ سنسار کا گد کی پڑیا
بوند پڑے گھل جانا ہے
یہاں مقابلہ مقصود نہیں ہے ، صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہر عہد اپنے اجتماعی و انفرادی مزاج کا آئینہ ہوتا ہے ۔ راشدؔ اپنے عہد کے نمائندہ شاعر ہیں ۔ ان کا بچپن اس وقت پروان چڑھا، جب خواب معاشرہ کی سمت و رفتار کا تعین کرتے تھے اور اس معصومیت میں جب شعور جاگا تو سارے خواب حقائق سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ چکے تھے ۔ وقت کی اس شکست و ریخت کا رد عمل ایک ہی عہد میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔ راشد نے اپنی پہلی شعری کتاب ’بھیگا ہوا کاغذ‘ اشاعت 1981 ) ’’کچھ اپنی شاعری کے بارے میں ‘ کے ذیل میں لکھا ہے ۔
’’ایک دن مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میرے ساتھ ’کوئی اور بھی ہے ‘ اس احساس کے ساتھ میرے پیروں کے نیچے زمین سخت اور آسمان دور ہونے لگا۔ اس نے پہلی بار مجھے بتایا کہ باپ کی طاقت و محبت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکا ہوں ۔ ممتاز راشدؔ نے جس محرومی کو باپ کی طاقتور محبت کے نہ ہونے سے تعبیر کیا ہے ، میرے خیال سے وہ محرومی جدا جدا جوازوں کے ساتھ اس پوری نسل کا مقدر ہے ۔ جس سے راشد کا تعلق ہے ۔ اس اجتماعی بحران میں ہر تخلیق کار کا رد عمل انفرادی سطح پر ابھرتا ہے ۔ راشد کے یہاں اس بحران سے باہر نکلنے کا راستہ محبت ہے ۔ لیکن یہ محبت آسمانی نہیں ہے ۔ زمینی ہے ۔ یہ محبت چلتی پھرتی دنیا میں دو زندہ انسانوں کی قربتوں سے منور ہے ۔ راشد کی غزل میں یہ زمینی کردار روایتی غزل کے عاشق و معشوق کی طرح اکہرے یا یک رخے نہیں ہیں ۔ ان کرداروں کے درمیان سماج بھی ہے ، رواج بھی ہے اور کہیں کہیں احتجاج بھی ہے ۔ یہ زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستے کو ایک دوسرے کی ہم سفری سے آسان کرتے نظر آتے ہیں ۔
اسے قریب سے دیکھا تو ہم نے یہ جانا
کہ مختلف تھیں بہت اس سے شہرتیں اس کی
*
لاکھ گرداب سہی پار اتر جاؤں گا
میرے ہاتھوں میں تیرے ہاتھ ہیں ، پتوار نہیں
*
تو بھی بدل گیا تو شکایت نہیں مجھے
کرتا ہے کون ٹوٹے مکانوں کی دیکھ بھال
*
ذراسی آنچ سے ہوجاؤں گا میں راکھ کا ڈھیر
بہت پرکھ نہ مجھے جنس رائیگاں ہوں میں
*
کون آیا تھا دل میں رات گئے
روشنی سی مکان میں کچھ ہے
*
آندھیوں کے سامنے رکھ دے جو اپنے سب چراغ
میں نہیں تو کوئی مجھ سا دوسرا باقی رہے
*
دنیا کا جو حصہ ہے دنیا جانے
میرا ہر اک حصہ ان آنکھوں کے نام
راشد کی شعری دنیا کا رقبہ زیادہ وسیع نہیں ہے ۔ مقدار کے لحاظ سے بھی، فکری ترجیحات کے لحاظ سے بھی لیکن اپنی دنیا کے ہر موڑ ، ہر منظر سے وہ واقف ہیں ۔ امریکن ناول نگار، گورے ودال، نے جین آسٹن سے بحث کرتے ہوئے ایک اہم بات کہی ہے ۔’’جین آسٹن کی دنیا بہت چھوٹی تھی۔ لیکن وہ اپنی چھوٹی دنیا کی بڑی سیاح تھی اور یہ ہی اس کی عظمت کا راز ہے ۔‘‘
ودال نے جو بات جین آسٹن کے بارے میں کہی تھی وہ عصمت چغتائی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے اور کسی حد تک راشد پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ راشدؔ کی پہلی کتاب اور دوسری کتاب ’’خدا باقی رہے ‘‘ میں 24 برس کا فاصلہ ہے ۔ ان برسوں نے ان کی عادات و اطوار اور وقت کے ساتھ، ان کے رویوں میں بھی کہیں پنہاں کہیں نمایاں تبدیلی کا احساس دلایا ہے اور یہ لازمی بھی ہے ۔ لیکن دونوں کتابوں میں زندگی اور معاشرہ کے تعلق سے جو مشترک قدر کار فرما ہے ، وہ محبت ہی ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ محبت کی ارضیت میں وقت کے ساتھ روحانیت کی تہہ داری بھی پیدا ہو گئی ہے ۔ فرائڈ نے دو جنگوں سے برباد دنیا کے بارے میں کہا ہے ’’انسان کے لیے زندگی جینا بہت مشکل ہے ۔ یہ صرف مذہب ہی ہے جو اس مشکل کو آسان بناتا ہے ۔‘‘
فرائڈ نے جس معنی میں مذہب کے لفظ کو علامتی روپ دیا ہے ، اسے زیادہ وسعت کے ساتھ محبت بھی کہا جا سکتا ہے ۔ یہ محبت ہی راشدؔ کی شاعری کی طاقت بھی ہے اور زندگی کے سفر کا سب سے محفوظ راستہ بھی ہے ۔ راشدؔ کی شاعری کی طاقت بھی یہ اور زندگی کے سفر کا سب سے محفوظ راستہ بھی ہے ۔ راشدؔ کے شعر ملاحظہ کریں ۔
یہ اور بات کہ اُس کی گلی سے ہم گزریں
وہ چاند ورنہ دریچے میں کب نکلتا ہے
l
جینا پڑے گا اپنی ہی خاموشیوں کے ساتھ
وہ شخص تو صدا ہے بکھر جائے گا کبھی
l
اسی کے دم سے سلامت ہے تشنگی کا سفر
وہ اک سراب جو دریا دکھائی دیتا ہے
l
گلی کے موڑ پہ چل کے غزل کہیں راشدؔ
وہاں سے چاند کا چہرہ دکھائی دیتا ہے
یہی چاند چہرہ جو ’’خدا باقی رہے ‘‘ کے شاعر کا انسپریشن ہے ، اس نے ان کی غزل کے لب و لہجہ کو ہی تابناک نہیں کیا ہے ، اس کے حسن و جمال نے ہند و پاک کے بیشتر موسیقاروں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ ان کی غزلیں جتنی رسائل، جرائد اور کتابوں کی زینت ہوتی ہیں اتنی ہی موسیقاروں کے کیسیٹوں میں بھی مقبول ہوتی ہیں ۔ انہیں کے اشعار ہیں ۔
اپنے آئینے میں اتار مجھے
میں ترا عکس ہوں سنوار مجھے
اور کیا وقت دے گا اس کے سوا
تشنگی تجھ کو، انتظار مجھے
***
تشکر: منصف، حیدر آباد
http://www.munsifdaily.com/adab.html
 
Top