ملی نغمہ

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس ٹائپ کا ملی نغمہ لکھنے کا کیا طریقہ کار ہے مثلن بحر وغیرہ کا کیا حساب کتاب ہے،
کیا تمام مصرعوں کی بحر ایک ہی ہوتی ہے یا فرق۔

اے وطن پیارے وطن پاک وطن پاک وطن

میرا دل تیری محبت کا ہے جاں بخش دیار
میرا سینہ تیری حرمت کا ہے سنگین حصار
میرے محبوب وطن تجھ پر اگر جان ہو نثار

میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہِ تن
اے وطن پیارے وطن پاک وطن پاک وطن
 

احمد بلال

محفلین
ملی نغمیہ بھی بحروں پر ہی لکھا جاتا ہے۔ یہ نغمہ تو مشہور زمانہ بحر فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن پر ہے۔ ویسے تو ہر صنف ِ کلام میں موسیقیت ہونا مستحسن ہے لیکن ملی نغمہ میں بہت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے ملی نغموں کے لیے کچھ بحریں مخصوص ہوں لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ مجموعی طور پر نغموں کی ہئیت نظم کی ہوتی ہے۔ اساتذہ کا انتظار کر لیں تو بہتر ہے۔ میری تو ویسے بھی آج کل حالت پتلی ہے۔
 
ملی نغمیہ بھی بحروں پر ہی لکھا جاتا ہے۔ یہ نغمہ تو مشہور زمانہ بحر فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن پر ہے۔ ویسے تو ہر صنف ِ کلام میں موسیقیت ہونا مستحسن ہے لیکن ملی نغمہ میں بہت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے ملی نغموں کے لیے کچھ بحریں مخصوص ہوں لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ مجموعی طور پر نغموں کی ہئیت نظم کی ہوتی ہے۔ اساتذہ کا انتظار کر لیں تو بہتر ہے۔ میری تو ویسے بھی آج کل حالت پتلی ہے۔
مشہور تو بے شک ہوگا لیکن ہمارے کانوں میں اب تک نہیں پڑا :oops:
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ملی نغمیہ بھی بحروں پر ہی لکھا جاتا ہے۔ یہ نغمہ تو مشہور زمانہ بحر فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن پر ہے۔ ویسے تو ہر صنف ِ کلام میں موسیقیت ہونا مستحسن ہے لیکن ملی نغمہ میں بہت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے ملی نغموں کے لیے کچھ بحریں مخصوص ہوں لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ مجموعی طور پر نغموں کی ہئیت نظم کی ہوتی ہے۔ اساتذہ کا انتظار کر لیں تو بہتر ہے۔ میری تو ویسے بھی آج کل حالت پتلی ہے۔

دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے والی بحر۔
نجانے کتنی عظیم تخلیقات کی گئی ہیں اردو شاعری میں اس بحر سے۔
 

الف عین

لائبریرین
بلال میاں، اگر اسے نغمہ ہی ہونا ہے تو موسیقی کی مانگ کے مطابق کہیں کوئی بحر ہو سکتی ہے، کہیں کوئی اور، یہ صرف گانے کی چیز ہے نا۔ لیکن کیونکہ موزونیت موسیقی کا بھی جزو ہے، اس لئے بحر کا ہونا مستحسن ہی ہے۔ بلکہ نئی قسم کی بحور بھی ایجاد کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کا ترانہ ہی اس کی مثال ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بلال میاں، اگر اسے نغمہ ہی ہونا ہے تو موسیقی کی مانگ کے مطابق کہیں کوئی بحر ہو سکتی ہے، کہیں کوئی اور، یہ صرف گانے کی چیز ہے نا۔ لیکن کیونکہ موزونیت موسیقی کا بھی جزو ہے، اس لئے بحر کا ہونا مستحسن ہی ہے۔ بلکہ نئی قسم کی بحور بھی ایجاد کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کا ترانہ ہی اس کی مثال ہے۔

بہت بہتر استادِ محترم، اب سمجھ آ گئی ہے۔
شکریہ آپ کا۔
 
بلال میاں، اگر اسے نغمہ ہی ہونا ہے تو موسیقی کی مانگ کے مطابق کہیں کوئی بحر ہو سکتی ہے، کہیں کوئی اور، یہ صرف گانے کی چیز ہے نا۔ لیکن کیونکہ موزونیت موسیقی کا بھی جزو ہے، اس لئے بحر کا ہونا مستحسن ہی ہے۔ بلکہ نئی قسم کی بحور بھی ایجاد کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کا ترانہ ہی اس کی مثال ہے۔

زبردست استاد جی.
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے یہ سوالات تو اکثر میرے ذہن میں بھی آتے ہیں کہ:
  • نغمہ یا گیت نگاری کے لئے کیا تکنیک استعمال ہوتی ہے؟
  • ایک بحر سے دوسری بحر میں جانا اور واپس آ جانا کن قوانین کے تحت ہوتا ہے؟
  • عام سی شاعری گیت میں ڈھل کر اتنی پرکشش کیسے ہو جاتی ہے؟
اس ویب سائٹ پر کچھ گیتوں کی شاعری لکھی ہوئی ہے۔

ایک میری پسند کا یہ ہے۔

سرود: آنند بخشی
آهنگ: راهول دیو برمن
آواز: کشور کمار
برگردان: س س


میرے نیناں ساون بهادوں/ پهر بهی میرا من پیاسا
میرے نیناں ساون بهادوں/ پهر بهی میرا من پیاسا

اے دل دیوانے! کهیل ہے کیا؟ جانے
درد بهرا یہ گیت کہاں سے ان ہونٹوں پہ آئے؟
دور کہیں لے جائے
بهول گیا کیا؟ بهول کے بهی ہے مجھ کو یاد ذرا سا
پهر بهی میرا من پیاسا

بات پرانی ہے/ ایک کہانی ہے
اب سوچوں تمہیں یاد نہیں ہے
اب سوچوں نہیں بهولے، وه ساون کی جهولے
رت آئے، رت جائے، دے کر جهوٹا ایک دلاسا
پهر بهی میرا من پیاسا

برسوں بیت گئے؛ ہم کو ملے، بچھڑے
بجری بن کر گگن پہ چمکی بیتے سمے کے ریکها
میں نے تم کو دیکها
من سنگ آنکھ مچولی کهیلے آشا اور نراشا
پهر بهی میرا من پیاسا

میرے نیناں ساون بهادوں/ پهر بهی میرا من پیاسا
میرے نیناں ساون بهادوں/ پهر بهی میرا من پیاسا

1976

"سرود" سے مراد غالباً "شاعر" ہے۔ "آھنگ" کا لفظ "طرز" کے لئے ہے۔ یہ "برگردان: س س" سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے یہ گیت بھی نظم کی طرز پر لکھا گیا ہے۔
 
احمد بھائی گیت اور گانوں وغیرہ میں پہلے سر کو منتخب کرلیا جاتا ہے اکثر۔
کئی ساری بحور کا ملغوبہ ہوتے ہیں یہ۔
کچھ مصرعے تو بحر میں ہی نہیں ہوتے سرے سے۔
اب ایک تازہ مثال ہی لے لیں۔ ایک گانا ایک فلم (جنّت 2) کا
تجھے سوچتا ہوں میں شام و صبح
اس سے زیادہ تجھے اور چاہوں تو کیا
ایک شعر کے دو مصرعے

پہلا مصرعہ دیکھیں بحر متقارب مثمن محذوف :
فعولن فعولن فعولن فعل

دوسرا مصرعہ بحرِ متدارک مثمن سالم:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی گیت اور گانوں وغیرہ میں پہلے سر کو منتخب کرلیا جاتا ہے اکثر۔
کئی ساری بحور کا ملغوبہ ہوتے ہیں یہ۔
کچھ مصرعے تو بحر میں ہی نہیں ہوتے سرے سے۔
اب ایک تازہ مثال ہی لے لیں۔ ایک گانا ایک فلم (جنّت 2) کا
تجھے سوچتا ہوں میں شام و صبح
اس سے زیادہ تجھے اور چاہوں تو کیا
ایک شعر کے دو مصرعے

پہلا مصرعہ دیکھیں بحر متقارب مثمن محذوف :
فعولن فعولن فعولن فعل

دوسرا مصرعہ بحرِ متدارک مثمن سالم:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن۔

معلومات بہم پہنچانے کا شکریہ۔۔۔۔!

لیکن آج کل جو گیت گائے جا رہے ہیں وہ تو لگتا ہے تمام ہی حدود و قیود سے آزاد ہیں ۔ ہمارے گلوکار کھینچ تان کر اور کچھ چلا چلا کر کسی طرح گا ہی دیتے ہیں۔ :) اکثر اُنہیں خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ "وہ کس گلی جا رہے ہیں" اور آیا "اُن کا کوئی ٹھکانہ بھی ہے یا نہیں"۔ ;)
 
معلومات بہم پہنچانے کا شکریہ۔۔۔ ۔!

لیکن آج کل جو گیت گائے جا رہے ہیں وہ تو لگتا ہے تمام ہی حدود و قیود سے آزاد ہیں ۔ ہمارے گلوکار کھینچ تان کر اور کچھ چلا چلا کر کسی طرح گا ہی دیتے ہیں۔ :) اکثر اُنہیں خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ "وہ کس گلی جا رہے ہیں" اور آیا "اُن کا کوئی ٹھکانہ بھی ہے یا نہیں"۔ ;)

احمد بھائی غزلوں کا مسئلہ تو الگ ہی لیکن جیسا میں نے کہا کے نغموں میں بھر حال آزادی ہوتی ہے۔
آپنے جو اوپر گانا دیا ”ہم کس گلی جارہے ہیں“
میر کی ہندی بحر سے ہے۔
 
اور جو گیت آپ نے اوپر دیا اسکا بھی اکثر حصہ فعلن فعِلن اور فع والی بحر یعنی متدارک یا دوسرے لفظوں میں میر کی ہندی بحر میں ہے۔
 
Top