ملک بدر طلبہ پاکستان پہنچ گئے

اظفر

محفلین
برطانیہ میں زیر حراست دو مزید پاکستانی طلبہ ملک بدر ہوکر پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں۔ متاثرہ طلبہ کا کہنا ہے کہ ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا اس کے باوجود نہ صرف ان کا مستقبل تباہ کردیا گیا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا گیا۔

برطانوی شہر مانچسٹر سے ملک بدر ہونے والے طلبہ رضوان شریف اور عمر فاروق لاہور ائر پورٹ پر مختصر قیام کے بعد اپنے آبائی شہر کراچی پہنچ چکے ہیں۔

یہ دونوں ان دس پاکستانی طلبہ میں شامل ہیں جنہیں اس برس اپریل میں برطانوی پولیس نے دہشت گردی کے شبہ میں حراست میں لیا تھا لیکن ٹھوس شواہد نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکا۔

لاہور پہنچنے پر پاکستانی طلبہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستانی طلبہ پکڑے گئے ہیں لیکن اصل حقائق نہیں بتائے گئے کہ یہ بے گناہ تھے۔

ایک طالبعلم عمر فاروق نے کہا کہ برطانوی قانون کے مطابق انہیں اٹھائیس روز سے زیادہ حراست میں نہیں رکھا جاسکتا لیکن انہیں پانچ ماہ قید رکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ برطانیہ کی پولیس نے ثبوت نہ ملنے پر چند روز بعد ہی ان طلبہ کو چھوڑ دیا لیکن انہیں آزاد کرنے کی بجائے انہیں برطانوی سرحدی ایجنسی کے حوالے کردیا گیا تھا۔

یہ ایجنسی ان غیر ملکی افراد کو طویل عرصے تک حراست میں رکھ سکتی ہے جن پر شبہ ہو کہ ان کی برطانوی سرزمین پر موجودگی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔گذشتہ مہینے برطانیہ کے سپیشل امیگریشن اپیل کمیشن نے ان طلبہ کی ضمانتیں منسوخ کردی تھیں اور اگلی سماعت دس مارچ تک ملتوی کردی گئی تھی۔

پاکستان لوٹنے والے طالبعلم رضوان شریف نے کہا کہ ’ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ جب ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا تو ان کی ضمانتیں کیوں منسوخ کردی گئیں اور کیوں دس ماہ لمبی تاریخ دی گئی؟

انہوں نے کہا کہ’صاف ظاہر ہے کہ برطانوی حکومت دباؤ ڈال رہی تھی۔‘

عمر فاروق نے کہا کہ جیل میں انہیں قاتلوں، ڈاکوؤں، جنسی جرائم کرنے والے ایسے مجرموں کے ساتھ رکھا گیا جو آئے روز مارپیٹ کرتے تھے۔

’وہ چاہتے تھے کہ ہم دلبرداشتہ ہو کر اپنے وطن واپس چلے جائیں۔‘

گرفتار طلبہ میں سے بعض کے والدین اور حکومت پاکستان نے برطانیہ سے کہا تھا کہ اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے تو ان طلبہ کو برطانیہ سے بے دخل نہ کیا جائے اور تعلیم مکمل کرنے دی جائے لیکن جمعرات کو لوٹنے والے ان دو طلبہ سمیت پانچ اب تک رضا کارانہ طور پر پاکستان واپسی منظور کر چکے ہیں۔

ان دو طلبہ سے پہلے تین طلبہ ملک بدر ہو کر پاکستان پہنچ چکے ہیں جبکہ دو رہائی کے بعد انگلینڈ میں ہی مقیم ہیں۔اس طرح اب برطانوی حراست میں صرف تین طلبہ رہ گئے ہیں۔


بی بی سی
 
Top