ملکی و عالمی سیاست اور پاکستان کا مستقبل ؟ :

ظفری

لائبریرین
ملک کے اندرونی و بیرونی مسائل جس سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگ رہا ہے ۔ پاکستان میں بدامنی ، دہشتگردی اور خوف وہراس نے جہاں ایک عام شہری کا مستقبل غیر یقینی بنادیا ہے وہاں پیشہ ور سیاستدان کا رویہ بھی اتنا غیر یقینی اور غیر مستحکم ہے کہ پاکستان کی سالمیت کا انحصار ان پر کرنا خودکشی کی مترادف ہے ۔

ملک کے حالات جس نہج پر روں دواں ہیں اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو دو پیشگوئیاں اخذ کیا جاسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور جنرل مشرف ان کے مدد سے دوبارہ صدر بننے کی کوشش کریں اور دوسرا امکان یہ ہو کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی جائے اور انتخابات موخر ہوجائیں ۔ اپوزیشن جو خود کوئی سیاسی منظر حسب خواہش ترتیب نہیں دے سکتی وہ اس سارے قصے میں انتہائی بے جان دکھائی دیتی ہے کہ اپوزیشن اب کسی ایک وجود کا نام نہیں رہا ۔ اے پی سی کے بعد اب وہ مصنوعی تاثر بھی باقی نہیں رہا جس کا بھرم اب تک رکھا جارہا تھا ۔ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مختلف ہدف کی طرف بڑھ رہیں ہیں ۔ چنانچہ ایسی صورت میں وہ کسی بھی حالت میں حکومت کو کسی بات پر مجبور نہیں کر سکتیں ۔ مختلف نظریات ، بیانات اور ترجیحات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس باب میں کہیں بھی کوئی یکسوئی نہیں ہے ۔ حکومت کے خلاف ملک میں کوئی موثر مزاحمتی تحریک اٹھانے کی صلاحیت گر کسی میں تھی تو وہ بینظیر اور نواز شریف تھے ۔ جنہوں نے اپنے اپنے راستے اب الگ کر لیئے ہیں ۔ ایسی صورت میں اب اگر حکومت اپنی مرضی کا کوئی سیاسی منظر تشکیل دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو کون ہے جو اس کا ہاتھ روک سکتا ہے ۔ ؟

جنرل مشرف کو اپنے دورِ اقتدارمیں جو بھی مشکلات پیش آئیں ان میں سے کوئی بھی ایک ایسی نہیں ہے جن کا ایک بھی انتساب اپوزیشن کے نام نکلتا ہو ۔ اگر سیاسی جلسے جلوس اور بیانات سے حکومتیں تبدیل ہوسکتیں تو کوئی بھی سیاسی منظر زیادہ دیر تک نہیں ٹہر سکتا تھا ۔ آج اگرچہ حکومت کے بارے میں عوام کی ناپسندیدگی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے مگرامر ہے کہ یہ ردعمل کسی سیاسی تحریک میں ڈھلنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا ۔

عالمی سیاست کے حوالے سے آج پاکستان سےجو مطالبہ کیا جارہا ہے کہ انہیں درپیش دہشتگردی کو غیر موثر بنانا ہے تو ان کا پاکستانی علاقوں میں آپریشن کرنا ناگریز ہے ۔ اور اگر امریکہ میں کہیں بھی کسی قسم کی دہشتگردی کا کوئی واقعہ رُونما ہوگیا تو یہ آپریشن کردیا جائے گا ۔ چنانچہ اب ایسی صورتحال میں جہاں عوام حکومت سے بیزار ہے اور اپوزیشن بھی اتنی غیرموثر ہے کہ ان حالات میں کوئی مثبت کردار نبھانے کی اہل نہیں ہے تو اس پس منظر میں پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا ۔ ؟

عدالتِ عظمی کے فیصلے کے بعد حکومت واقعی کمزور ہوئی ہے ۔ اس لیئے پیپلزپارٹی جیسی جماعت کا سہارا لینا حکومت کے لیئے تقویت کا باعث بن سکتا ہے ۔ اگر حکومت مارشل لاء کے بجائے کسی اور سیاسی لبادے کو اہمیت دیتی ہے تو پھر بےنظیر کے ساتھ معاملات طے پانے کے امکانات خارج المکان نہیں ہیں ۔ ایسی صورت میں عدالتِ عظمی کے تاریخ ساز فیصلہ ہونے کے باوجود اس سیاسی منظر نامے میں کسی تبدیلی کا امکانات دور تک نظر نہیں آرہے ہیں ۔ تبدیلی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب سیاستدان کسی جرات اور وسعتِ نظر کا مظاہرہ کریں ۔ مگر سیاستدانوں کا جو رویہ ہم دیکھ رہے ہیں اس کو اگر پیشِ نظر رکھا جائے تو اس کے امکانات بہت کم ہے ۔
 
ظفری ابھی صرف بات ٹاک شوز تک پہنچی ہے اور میڈیا پر امریکی حملے کے حوالے سے سوال جواب شروع ہوئے ہیں۔

دیکھیں اسمبلی میں اس پر بحث ہو پاتی ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ کوئی ایکشن لے پاتی ہے یا نہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری ابھی صرف بات ٹاک شوز تک پہنچی ہے اور میڈیا پر امریکی حملے کے حوالے سے سوال جواب شروع ہوئے ہیں۔

دیکھیں اسمبلی میں اس پر بحث ہو پاتی ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ کوئی ایکشن لے پاتی ہے یا نہیں۔

محب ۔۔۔ ! میری جولائی کی اس پوسٹ کو اب موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھو ۔ کیا کیا ممکنات ہوئیں ہیں اور کیا ابھی باقی ہیں ۔ ؟
 
Top