ملکی نوادرات

F@rzana

محفلین
پاکستانی ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور دانشوروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تقشیمِ ہند سے قبل پاکستان سے بھارت منتقل کیئےگئے پانچ ہزار سال قدیم رقاصہ کا مجسمہ واپس لیا جائے۔
کانسی کا بنا ہوا یہ چھوٹا سا مجسمہ گزشتہ صدی کی دوسرے دہائی میں سندھ کے شہر لاڑکانہ کے قریب کی گئی کھدائی میں ملا تھا۔ اس مقام کوآج موئن جودڑو کے نام سے عالمی شہرت حاصل ہے اور دو دہائی قبل اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت یونیسکو نے اسے محفوظ قرار دے کر عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

رقاصہ کے مجسمے کی علاوہ موئن جودڑو سے ملنے والے شاہی پروہت اور ٹیکسلا کی کھدائی کے دوران گوتم بدھ کے بحالتِ روزہ مجسمے کی اصلیت پر بھی انگلیاں اٹھی ہیں۔

محکمہ آثارِ قدیمہ کی جانب سے ان نوادرات کو اصل قرار دیا جاتا ہے، تاہم معترضین کا کہنا ہے کہ تقسیمِ ہند کے کئی برس بعد پاکستانی مطالبے پر بھارت نے جو مذکورہ بالا نوادرات لوٹائے تھے، وہ اصل نہیں بلکہ ان کی ہو بہو شکل تیار کرکے واپس کی گئی تھی اس لیے ان کی حقیقت جانچنے کے لیے آزاد ملکی ماہرین پر مشتمل گروپ کی نگرانی میں ان کا سائنسی تجزیہ کروا کر حقیقت معلوم کی جائے۔

رقاصہ اور شاہی پروہت کا مجسمہ موئن جودڑو اور گوتم بدھ کا مجسمہ عالمی سطح پر ٹیکسلا کی پہچان ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے بدھ مت کے پیروکار اور آثارِ قدیمہ میں دلچسپی رکھنے وال
شاہی پروہت کا مجسمہ موئن جودڑو سے دریافت ہوا تھا۔
ے سیاح پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔

انجمنِ تاریخ و آثار شناسی، پاکستان کے سربراہ غضنفر مہدی نے بتایا کہ انجمن کے اجلاس میں رقاصہ کے مجسمے کی بھارتی تحویل میں موجودگی کا معاملہ زیرِ بحث آیا ہے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ رقاصہ کے مجسمے کی واپسی کے ساتھ ساتھ لاہور اور ملتان کے قلعوں سے بھارت منتقل کیے گئے ان تمام نوادرات کی واپسی کے لیے کوششیں کی جائیں جن کا جغرافیائی تعلق موجودہ پاکستان سے ہے۔

غضنفر مہدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے ثقافتی تعلقات خوش آئند ہیں، لیکن مکمل طور پر خوشگوار ثقافتی تعلقات کے لیے ایک دوسرے کی تاریخی اقدار اور پہچان کو تسلیم کیے جانا بھی ضروری ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات کی نوعیت پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش اور ثقافتی وفود تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ہمیں اپنی ان تاریخی نوادرات کی واپسی کے لیے بھی مذاکرات کرنے چاہئیں جو ابھی تک بلا جواز بھارت کی تحویل میں ہیں۔

اس ضمن میں ہمارا حکومتِ پاکستان کی وزارتِ ثقافت سے مطالبہ ہے کہ وہ سفارتی کوششوں کا آغاز کرے۔

1911 میں موئن جودڑو کی نشاندہی ’بدھ مت کے مقامِ مقدس‘ کے طور پر ہوئی اور 1922ء میں برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ اور متحدہ ہندوستان کے محکمہ آثارِ قدیمہ کے سربراہ سرجان مارشل نے جب یہاں کھدائی کی تو انہیں شاہی پروہت اور رقاصہ کے ڈیڑھ بالشت کے قریب اونچے دو مجسمے ملے، جن میں رقاصہ کا مجسمہ کانسی اور دوسرا پتھر کا بنا ہوا تھا۔ یہ دونوں نوادرات موئن جو دڑو سے ملنے والے سب سے اہم نوادرات تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان نوادرات کو پہلے لاہور میوزیم اور پھر وہاں سے دہلی منتقل کردیا گیا۔

اسی طرح گوتم بدھ کا بحالتِ روزہ سنگی مجسمہ بھی ٹیکسلا سے لاہور اور یہاں سے دہلی منتقل کیا گیاتھا۔

1947ء میں تقسیم ہند کے چند برس بعد موئن جو دڑو کے نگراں برائے آثارِ قدیمہ ڈاکٹر ایف اے خان کو ان نوادرات کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے لیے بھارت بھیجا گیا۔

مذاکرات کے نتیجے میں بھارت نوادرات کی واپسی پر رضامند تو ہوگیا تاہم اس نے ان تینوں میں سے ایک کو اپنے پاس رکھنے کا مطالبہ کیا ، جس پر بھارت کو کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا، جس پر اس نے رقاصہ کا مجسمہ اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔
برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ کے سربراہ سرجان مارشل کی سربراہی میں 1922 میں موہنجوداڑو میں کھدائی کروائی گئی

اس وقت موئن جو دڑو کے عجائب گھر میں رقاصہ کے مجسمے کی نقل اور مبینہ اصل شاہی پروہت کراچی کے قومی عجائب گھر جبکہ گوتم بدھ کا مجسمہ لاہور عجائب گھر میں رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت کی تحویل میں موجود رقاصہ کا اصل مجسمہ دہلی کے عجائب گھر میں رکھاہوا ہے۔

لاہور اور کراچی کے سرکاری عجائب گھروں کی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ گوتم بدہ اور شاہی پروہت کے مجسمے اصلی ہیں۔ لاہور کے نجی عجائب گھر فقیر خانہ کے نگراں فقیر اعجازالدین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن نوادرات میں دلچسپی رکھنے والے متعدد افراد کو اس سے یکسر اختلاف ہے۔

پاکستان کے معروف دانشور اور دستاویزی فلم ساز عبید اللّہ بیگ کا اس بارے میں کہنا ہے’میں نے عجائب خانوں پر بہت کام کیا ہے اور نہ صرف یہ میری ذاتی رائے ہے بلکہ بہت سارے دیگر اہلِ علم بھی گوتم بدھ اور شاہی پروہت کے مجسمےکی اصلیت کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف تو ان کا کاربن ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ حقیقتِ حال سامنے آئے، کیونکہ اندیشہ ہے کہ بھارت نے اصل نوادرات کے بجائے ان کی نقلیں واپس کی تھیں‘۔

عبید اللّہ بیگ جہاں مجسموں کے کاربن ٹیسٹ کا خیال پیش کرتے ہیں، وہیں وہ رقاصہ کے مجسمے کو واپس لیے جانے کے حق میں بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’ان کا واپس لیے جانا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے‘۔

آثارِ قدیمہ کےممتاز عکاس جمشید مسعود کا خیال ہے کہ آزاد ملکی ماہرینِ آثارِ قدیمہ پر مشتمل کمیٹی کی نگرانی میں پروہت اور بدھا کے مجسموں کا سائنسی تجزیہ کرواکر حقیت سامنے لائی جائے۔

لاڑکانہ کے صحافی ڈاکٹر ایم بی کلہوڑو بھی شاہی پروہت کے مجسمے کی اصلیت کی بارے میں شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہےکہ ایک طرف تو اصلیت کا پتا چلایا جائے اور دوسری طرف رقاصہ کا مجسمہ پاکستان واپس لا کر موئن جودڑو کے عجائب گھر میں رکھا جائے، کیونکہ ہر لحاظ سے یہ لاڑکانہ اور پاکستان کا ہی ورثہ ہے اور یہی میوزیم اس کا وارث بھی ہے۔

یہ اس لیے بھی ضرروری ہے کہ یہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور ذرا سوچیے کہ جب انہیں پتا چلتا ہوگا کہ موئن جو دڑو کی شناخت (رقاصہ اور شاہی پروہت کے مجسمے) نقلی ہے، تو اندازہ کیجیے کہ پاکستان کے بارے میں ان کا کیا تصور قائم ہوتا ہوگا‘۔

“بشکریہ بی بی سی “
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھئے جن مجسموں‌کو ابھی تک کوئی یقین سے جعلی نہیں کہ سکا، اور جن کے کاربن ٹیسٹ کی بات کی جارہی ہے، ان کے بارے میں‌عام بندہ کیا جانتا ہوگا۔(پاکستان کے امیج والی بات پر یہ لکھا) دوسری بات یہ کہ کاربن ٹیسٹ اتنا حساس ہے کہ اس میں بے شمار غلطی کے امکانات ہیں۔ اور یہ کوئی 100 ٪ درست بھی جواب نہیں‌دیتا۔ معمولی سی غلطی سے کئی ہزار سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اس بارے میں‌میں‌کوشش کرتا ہوں کہ کچھ لکھوں‌کہ کاربن ٹیسٹ سے کیا مراد ہے اور اس کو کیسے کیسے سبوتاژ کیا جا سکتا ہے۔یہ میں‌نے اس لئے لکھا ہے کہ یہ کوئی قابلٍ اعتبار ٹیسٹ نہیں ہے۔ قابلٍ اعتبار سے مراد 100 فیصد۔(ترمیم شدہ ٹیکسٹ نیلے شیڈ میں‌ہے)
 

F@rzana

محفلین
نوادرات کی چوری

کراچی سے ہڑپہ اور گندھارا تہذیب کے قیمتی نوادرات دبئی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنادی گئی ہے جن کی مالیات ستر کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔
کسٹم کی کلیکٹر مسرت جبیں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نوادرات میسرز کشمیر کارپیٹ کی جانب سےایک کنٹینر میں دبئی کے لیے اسلام آباد سے بک کروائے گئے تھے۔

کنٹینر میں یہ نوادرات فرنیچر اور پرانے برتنوں کے ساتھ رکھے گئے تھے۔ کسٹمز عملے نے ایک ہفتہ قبل چھاپہ مارکر کنٹینر سے چودہ سو بیاسی نوادرات برآمد کئے ۔ جن کا معائنے ایک چار رکنی کمیٹی سے کروایا گیا جس میں ماہر آثار قدیمہ اور قومی عجائب گھر کے لوگ بھی شامل تھے۔

ماہرینِ آثار قدیمہ نے تصدیق کی کہ یہ نوادرات جن میں مجسمے، اسلامی تہذیب کے نمونے شامل تھے اصلی ہیں ۔ جن کا تعلق ہڑپہ اور گندھارا تہذیب سے ہے ۔

آثارِقدیمہ کے ایک ماہر نے بتایا ہے کہ یہ نوادرات بلوچستان اور افغانستان سے چوری کئے گئے ہیں۔ جن کی عالمی مارکیٹ میں مالیت سترکروڑ روپے ہے۔

“بشکریہ بی بی سی “
 

قیصرانی

لائبریرین
انشاء اللہ۔ بہت اچھا لگا کہ آپ کو میرا اس طرح سے آپ کے مضمون کے درمیان میں اپنی ٹانگ اڑانا برا نہیں لگا۔
بریکٹ کا کیا کہوں، بلکہ اس کے کیا کہنے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ابھی لکھنا شروع کیا ہی تھا مضمون کہ دل جل گیا۔ :lol: کیسے کیسے نادرٍ روزگار ہمارے محکمہ آثارٍ قدیمہ میں‌ہیں۔ کاربن ٹیسٹنگ کی بینادی بات یہ ہے کہ کاربن 14 جو کہ تابکار کاربن ہے، اس کی مقدار ایک کھرب ایٹم میں سے ایک ہے، کی گنتی پر کی جاتی ہے۔ اس کاربن کی ہاف لائف یا آدھی عمر 5700 سال ہے۔ یعنی اگر کسی سیمپل میں 5700 سال سے کم عمر ہے تو اس کی ڈیٹنگ کا عمل ناقابلٍ اعتبار ہے۔ اس کاربن کے بننے کا عمل قدرتی شعاعوں سے ہوتا ہے جو سورج وغیرہ سے زمین پر آتی ہیں۔اسی طرح‌اگر اس سیمپل کو کسی طرح سے تابکاری کا سامنا کرنا پڑا(جیسا کہ ڈیرہ غازی خان میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں‌یورینیم سطح زمین پر ملتی ہے، یا یورینیم اور مٹی کو کان سے نکال کر عام سے ٹرکوں میں‌منتقل کیا جاتا ہے) تو اس میں ان کاربن ایٹموں کی تعداد فرق ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے چرنوبل کا حادثہ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ابھی بھی پاکستان میں اس سے پھیلنے والی تابکاری محسوس کی جاسکتی ہے۔ جب کوئی بھی چیز ان جگہوں‌سے گزرتی ہے تو اس کی ڈیٹنگ والی بات کرنا بہت عجیب لگتی ہے۔اسی طرح‌کراچی میں کینوپ کا ایٹمی فضلہ جس طرح سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے، وہ بھی ابھی تک غیر واضح ہے۔ ان حالات میں کاربن ڈیٹنگ کیا گل کھلائے گی؟یہ آپ دوستوں کے شرارتی ذہن جانتے ہی ہیں۔۔۔ :D
 

F@rzana

محفلین
ہم ایسے اہل نظر کوثبوت حق کے لئے
اگر اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
(جوش)
۔
 
Top