مصحفی ملا چاہو تم تو بہانے بہت ہیں

غزل

ملا چاہو تم تو بہانے بہت ہیں
جگہیں سیکڑوں ہیں ٹھکانے بہت ہیں

تہی دست جانے کا یاں سے نہ غم کھا
زمیں کے تلے تو خزانے بہت ہیں

بھڑکیو سمجھ کر ٹک اے آتشِ گل
کہ اس باغ میں آشیانے بہت ہیں

بتوں کے تحشم کا کیا ذکر کیجئے
خدائی ہے یاں کارخانے بہت ہیں

زمانے کا شکوہ نہ کر ہم سے ہمدم
سخن اور کہہ کچھ فسانے بہت ہیں

اٹھ اے مصحفی کیا یہی در ہے تجھ کو
پٹکنے کو سر آستانے بہت ہیں​
 
Top