مقصدِ حیات

ابنِ رضا

محفلین
آج کی صبح کچھ زیادہ روشن اور خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔ ایاز کی آنکھ کھلی تو اس کے بہن بھائی اس سے پہلے بیدار ہو چکے تھے۔ ایاز انکی جانب دیکھ کر بے اختیار مسکرا دیا۔ ان کے چہروں پہ بھی شادمانی اور مسرت نمایاں تھی۔ اور آخر کیوں نہ ہوتی۔ یہ دن ہی اتنا خاص تھا کہ سب ہی خوشی سے سر شار نظر آتے تھے۔ ہاں آج چودہ اگست تھی اور یہ دن جشن آزادی کا دن تھا آج کے دن ہی ایاز کا عزیز از جاں وطن معرض وجود میں آیا تھا۔ ایاز نے منہ ہاتھ دھو کر جلدی سے ناشتا کیا اور کپڑے بدل کر باہر آگیا جہاں اسکے چند دوست پہلے ہی موجود تھے۔ وہ بھی بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ایاز انکے ساتھ خوش گپیوں میں مگن ہو گیا۔

رات دیر تک اپنے دوستوں کے ساتھ کام کر کہ اس نے اپنے گھر کے ساتھ ساتھ پورے محلے کو دلہن کی طرح سجا ڈالا تھا۔ ہر طرف سبز و سفید رنگ کی بہار آئی ہوئی تھی۔خوشی کے مارے وہ رات دیر سے سونے کے باوجود بھی جلدی بیدار ہو گیا تھا۔ ایاز نے جب سے ہوش سنبھلا ہر سال انکا معمول یہی ہوا کرتاتھا۔ اگست کا مہینہ آتے ہی اہل محلہ اک گھرانے کی صورت یکجا ہو جاتے۔ نوجوان لڑکوں کی اک ٹیم تشکیل دی جاتی جو محلے کے سب گھروں سے چندہ وصول کرتی اور پھر ان پیسوں سے بازار جا کر جھنڈیاں اور سجاوٹ کا دوسرا سامان لے آتی۔ تیرہ اگست کو لڑکیاں محلے کی صفائی اپنے ذمے لے لیا کرتی اور لڑکے محلے کو سجانے میں مصروف ہو جاتے تاکہ چودہ اگست تک تمام کام نمٹا دیا۔ سارے محلے کو ناصرف پاکستانی پرچموں اور جھنڈیوں سے سجایا جاتا بلکہ رات میں چراغاں کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ لیکن خاص بات یہ کہ اس یگانگت کے ماحول میں بھی بہت اعلی اخلاقی اقدار موجود تھیں۔ محلے کے لڑکیاں لڑکے مل کر کام کرتے لیکن سب کے درمیاں خونی رشتوں کا سا احترام پایا جاتا تھا۔ سب اک دوسرے کو بہن بھائی سمجھتے تھے اور کبھی بھی کوئی غیر اخلاقی واقعہ منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ کیا سنہرا زمانہ ہوا کرتا تھا؟؟؟

اک زوردار آواز اسے یادوں کے سمندر سے باہر کھینچ لائی۔ اک کم عمر سا لڑکا بناء سیلینسر کہ موٹر سائیکل پہ اپنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے اسے اک پہیئے پہ چلانے کا کرتب کر رہاتھا۔ ایاز اس وقت لاہور کی مشہور لبرٹی مارکیٹ میں کھڑا اس طوفان بدتمیز کو دیکھ رہا تھا جو آزادی کے جشن کے نام پر نکالا گیا تھا اور عین اسکے سامنے سے گزرتے ہوئے جب اک لڑکے نے بہت بیہودہ انداز میں اک لڑکی کو چھڑا تو ایاز کو بے اختیار اپنے بچپن کے سنہری دور کی یاد آ گئی۔ اس نے ہاتھ سے اپنے گالوں کو چھوا تو ان کو بھیگے ہوئے پایا۔ آج وہ دوستوں کے ہمراہ خصوصی طور پر جشن آزادی منانے کے لیے لاہور کے تاریخی شہر آیا تھا لیکن یہ حالات دیکھ کر اسکی ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی عروج کو پہنچ گئی اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسی لمحے ایک خوبصورت آواز نے اسکی سماعتوں میں رس گھول دیے۔۔۔

حی الفلاح۔۔۔۔ حی الفلاح۔۔۔۔۔
(آو فلاح کی طرف، آو کامیابی کی طرف)

قریب کی مسجد میں عشاء کی اذان ہو رہی تھی شور کے سبب جس کی طرف پہلے اس کا دھیان نہ گیا تھا۔ لیکن اب اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سوائے اذان کی آواز کے باقی ساری آوازیں معدوم ہو چکی ہے۔ بے اختیار اس کے قدم مسجد کی جانب اٹھ گئے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد دعا مانگتے ہوئے وہ کھول کہ رویا۔ کہتے ہیں رونے سے روح کو تازگی ملتی ہے۔ یہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوا۔

جب وہ مسجد کے دروازے سے باہر نکل رہا تھا تو اسکے دل سے مایوسی کے بادل چھٹ چکے تھے۔ اللہ کریم نے اسے اندھیرے میں امید کی کرن دکھلا دی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس دنیا میں کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔ مسائل ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ یہ وطن ہمارا گھر ہے تو اس کے مسائل بھی ہمیں ہی حل کرنے ہوں گئے۔ ہمارے آباءواجداد کو اگر یہ قلع اسلام بنانے کی ذمہ داری ملی تھی تو ہمیں اس کی اصلاح اور حفاظت کا کام سونپا گیا ہے۔ تب اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ اپنے لوگوں میں شعور اور آگہی پھیلانے کی بھرپور سعی کرے گا تاکہ معاشرے کی اصلاح ہو سکے اور بھٹک جانے والوں کو راہ راست پہ لا جا سکے۔ اب وہ ہر سال چودہ اگست یوم تجدید عہد کے طور پر منائے گا اور اپنا محاسبہ بھی کیا کرے گا کہ سال بھر میں اس نے ملک کی بہتری کے لیے کیا کچھ کیا۔۔۔۔۔ اس سوچ کے ساتھ اس کے رگ و پہ میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔

از: ابنِ رضا
 
Top