ساغر نظامی مقسوم دل کروں خلش نشتر کو میں - ساغر نظامی

کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
مقسوم دل کروں خلش نشتر کو میں
اب کے تری نظر سے لڑادوں نظر کو میں
میرا مذاق عشق زمانے پہ کھل گیا
اب کیا کہوں چھپا نہ سکا چشم تر کو میں
خاموشیء جمود میں پھونکونگا صورِ حشر
تیری خبر سنا کے دلِ بے خبر کو میں
یا آرزو نے عمرِ محبت سنوار دی
یا دستِ آرزو سے گیا عمر بھر کو میں
کتنی گداز بخش ہے صبحِ تجلیات
پاتا ہوں ہر نفس میں نسیمِ سحر کو میں
گر یہ نشاطِ چشم ہے اے بیخودی مگر
کس دھوپ میں سکھاؤنگا دامانِ تر کو میں
ساغر یہ ہے شباب میں معیار مے کشی
آنکھوں سے کھنچتا ہوں شرابِ نظر کو میں
 

کاشفی

محفلین
صحیح اور مکمل غزل مطلع کی درستگی کے ساتھ کچھ اس طرح سے ہے۔۔
غزل
(ساغر نظامی)
کرتا ہوں یوں وسیع فریبِ نظر کو میں
ذرّوں میں ڈھونڈتا ہوں، تری رہگزر کو میں

رسوا کروں گا سوزشِ داغِ جگر کو میں
اُٹھّا ہوں لے کے حشر میں، دامانِ تر کو میں


مقسومِ دل کروں خلشِ نیشتر کو میں
اب کے تری نظر سے لڑادوں نظر کو میں

میرا مذاقِ عشق زمانے پہ کُھل گیا
مجبور تھا چھپا نہ سکا، چشمِ تر کو میں

دل مستیء نگاہ سے اک چیز ہوگیا
سرشار دیکھتا ہوں خرابِ نظر کو میں

خاموشیء جمود میں پھونکوں گا صُورِ حشر
تیری خبر سُنا کے دلِ بے خبر کو میں

یا آرزو نے عمرِ محبت سنوار دی
یا دستِ آرزو سے گیا عمر بھر کو میں!

کتنی گداز بخش ہے صبحِ تجلیات
پاتا ہوں ہر نفس میں نسیمِ سحر کو میں

گریہ نشاطِ چشم ہے اے بیخودی مگر
کس دھوپ میں سکھاؤں گا دامانِ تر کو میں

کس درجہ غم کی موت میں ہیجانِ یاس ہے
اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہوں، رُخِ نوحہ گر کو میں

ساغر یہ ہے شباب میں معیار مے کشی!
آنکھوں سے کھنچتا ہوں، شرابِ نظر کو میں!
 
Top