مقدمہ ضیاء القرآن

الف نظامی

لائبریرین
مقدمہ ضیاء القرآن از جسٹس پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

الحمد للہ رب العالیمن الرحمن الرحیم مالک یوم الدین و ازکی الصلوات واطیب التسلیمات و اسنی التحیات علی حبیبہ المعظم ونبیہ المکرّم سیّد ولد آدم مولانا محمد المبعوث رحمۃ للعالمین قائد الغر المحجلین وعلٰی آلہ الطیبین واصحابہ المکرّمین اللھم ایّاک نعبد وایّاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین اٰمین بحق طٰہٰ ویٰس ۔

رحمن و رحیم پرودگار نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لئے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے قلب منیر پر نازل فرمایا ، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں ،کہنے کو تو یہ ایک کتاب ہے اور کتابیں ان گنت ہیں ، بڑی ضخیم ،بڑی ادق ، بڑی دل آویز لیکن اس کتاب کی شان ہی نرالی ہے یہ صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم و معرفت کا آفتاب جہاں تاب بھی ، جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یکجا ہیں ، اس کا حسن و جمال قلب و نگاہ کو یکساں متاثر کرتا ہے ، اس کی تجلیات سے دنیا و عقبٰی دونوں جگمگارہے ہیں ، اس کا فیض ہر پیاسے کو اس کی پیاس کے مطابق سیراب کرتا ہے ، اس کاپیغام اگر عقل و خرد کو لذّت جستجو بخشتا ہے تو قلب و روح کو بھی شوق فراواں سے مالا مال کرتا ہے ، اس کی تعلیم نے انسان کو خود شناس بھی بنایا اور خدا شناس بھی ۔
یہ کتاب مقدّس ہرلحاظ سے سراپا اعجاز ہے ،اس کا ہر پہلو اتنا دلرُبا ہے کہ اپنے پڑھنے والے کو مسحور کردیتا ہے ، اسی لئے جب سے اس کا نزول ہوا اس نے اپنی فطری جاذبیت سے نوع انسان کے ہر طبقہ سے سنجیدہ اور ذہین افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ، اور اس میں قطعاً مبالغہ نہیں کہ قرآن کریم کے متعلق جتنا کچھ لکھا گیا ہے اُتنا کسی کتاب یا کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا ،لکھنے والوں میں اپنے بھی تھے اور بیگانے بھی ، محقق بھی تھے اور متعصب بھی ، ادیب بھی تھے اور فلسفی بھی ،عربی بھی تھے اور عجمی بھی ، شمع علم کے پروانے بھی تھے اور میخانہ عرفان کے متوالے بھی ، سب ہی نے تو اس کی خدمت کی بلکہ سب سے ہی اس نے اپنی خدمت لی اور ہر ایک نے اس چاکری کو اپنے لئے باعث عزّت و سعادت سمجھا ۔
اس بحر بے پید کنار میں غواصی کرنے والوں نے غوّاصی کا حق ادا کردیا ، ہر ایک نے اپنی ہمّت کے مطابق انمول موتیوں سے اپنی جھولیاں بھریں ،لیکن اس کے معارف کے خزینے بھرے کے بھرے ہی رہے ، اس کے اسرار و رموز کے گنجینوں میں کمی نہ ہوئی ، جنھوں نے اس گلستان معنی میں گل چینی کرتے کرتے عمریں گزار دیں ، انھوں نے بھی یہ تو نہیں کہا کہ ہم نے سب پھول چن لئے ہیں ، بلکہ سب نے بے تامّل یہ اعتراف کیا

دامان نگاہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چین تو از تنگی داماں گلہ وارد


اور ان کا یہ اعتراف عجز ازراہ تواضع وانکسار نہ تھا بلکہ حقیقت کا اظہار تھا اور وہ مجبور تھے کہ اس روشن حقیقت کا اظہار کریں ۔
جس میدان میں ابن جریر اور ابن کثیر جیسے محدث اور مؤرخ ،زمخشری اور ابن حیان اُندلسی جیسے ادیب اور نکتہ سنج ،رازی علیہ الرحمۃ اور بیضاوی علیہ الرحمۃ جیسے متکلم اور فلسفی ،ابو بکر حصاص اور ابو عبد اللہ القرطبی جیسے فقیہ اور مقنّن علیہم الرحمۃ قرآن کی عظمت وجلال کے سامنے دم بخود اور سر بگریباں کھڑے ہوں ، میرے جیسے ہیچمدان ،ہیچمیرز کا ادھر رُخ کرنا یقیناً محل تعّجب و حیرت ہے ۔

خدا شاہد ہے کبھی بھولے سے بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ مجھے یہ کام کرنا ہے یا میں یہ کام کرنے کی اہلیّت رکھتا ہوں یا اپنے فہم و ادراک کے ناخن سے کسی پیچیدہ گرہ کو کھول سکتا ہوں ،یا میرے قلم میں اتنا زور ہے کہ میری نگارشات قرآن فہمی کے راستہ سے ساری رکاوٹیں دور کرسکتی ہیں ، ان تمام کوتاہیوں کا پورا احساس ہوتے ہوئے یہ کچھ ہوگیا ، اس کی توجیہ میرے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ میں یہ کہوں کہ اللہ رب العزّت نے چاہا اور یہ ہو گیا ، اسی مسبّب الاسباب نے اسباب فراہم کیے ، اسی کی توفیق نے دستگیری فرمائی اسی کی عنایات پیہم کے سہارے قدم اٹھتے رہے ، اسی کی تائید مسلسل سے میں یہاں تک پہنچا اور اسی کی بارگاہ بیکس پناہ میں دامن طلب پھیلائے بصد عجز و نیاز فریاد کناں ہوں کہ اے ذرّوں کو رشک آفتاب بنانے والے !‌ اے قطروں کو سمندر کی وسعتیں بخشنے والے !‌ اے گداؤں کو ہفت اقلیم کی سُلطانی کا تاج پہنانے والے ! اے دلوں کے ظلمت کدوں میں اپنی معرفت کا چراغ روشن کرنے والے ! اس ذرّہ ناچیز کو ، اس قطرہ حقیر کو ، اس بے نوا فقیر کو ، اس سیاہ رو اور سیاہ دل کو اپنے محبوب مکرّم رسول معظّم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اپنی عنایات خسروانہ سے ، اپنے الطاف شاہانہ سے ، اپنی نوازشات کریمانہ سے ہمیشہ ہمیشہ سرفراز فرمائے رکھنا ۔
رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علّی وعلٰی والدی وان اعمل صالحا ترضاہ واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک وانی من المسلمین ۔ ( 46، 15 )

فاران کی وادیوں سے قرآن کا چشمہ فیض کیا پھوٹا کہ اس سے علوم و فنون کے دریا بہہ نکلے جنھوں نے جزیرہ عرب کے پیاسے ریگزاروں کو سیراب کیا اور انھیں حکمت و دانش کی جلوہ گاہ بنادیا ، اس ایک کتاب مجید نے جہاں پہلے علوم کو حیات نو بخشی وہاں اس نے بے شمار جدید علوم کی تشکیل کا سامان فراہم کردیا ، علوم تفسیر ،لغت و فقہ الّلغۃ ، فقہ و اصول فقہ ،معانی و بلاغۃ وبدیع ، صرف و نحو ،قرآت و تجوید ،وعظ و خطابت ،قصص و اخبار ، امثال و حکایات ان کے علاوہ اور کئی علوم ہیں جنھوں نے قرآن کریم کے سایہ عاطفت میں جنم لیا اور اسی کے آغوش تربیت میں پروان چڑھے ، اس طرح قرآن حکیم کے فیض سے دنیا کی سب سے زیادہ جاہل قوم علم و حکمت کے عظیم خزانوں کی مالک بلکہ خالق بن گئی ۔

ہر عہد میں ملت اسلامیہ کے ذہین و فطین افراد نے جو روشن دماغ بھی تھے اور روشن ضمیر بھی اپنی ذاتی استطاعت، ذاتی صلاحیت و استعداد اور اپنے مخصوص ماحول کی ضروریات اور تقاضوں کے پیش نظر قرآن مجید کے ان خادم علوم میں سے کسی ایک کو اپنے لئے منتخب کیا اور خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔ اور اپنے اپنے موضوع پر ایسی زندہء جاوید تالیفات و تصنیفات کا گراں بہا ذخیرہ چھوڑا جن کی روشنی سے دنیا بھر کے کتب خانے اور دانش نگاہیں آج بھی چمک رہی ہیں لیکن اس ناچیز کے نزدیک قرآن کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ کتاب ہدایت ہے۔ اس کے نازل فرمانے والے نے بارہا اس کا تعارف اس قسم کے کلمات سے کرایا ہے:۔

ھذا بیان للناس وھدی وموعظۃ للمتقین (3: 138 )

آج ہمیں قرآن مجید کے اسی پہلو پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئیے لیکن شومئی تقدیر ملاحظہ ہو آج قرآن کا یہی پہلو متروک اور مہجورہے۔

قرآن حکیم کا مقصد اولین انسان کی اصلاح ہے تربیت پیہم سے اس کے نفس امارہ کو نفس مطئنہ بنانا ہے ہوا و ہوس کے غُبار سے آئینہ دل کو صاف کرکے اسے انوار ربانی کی جلوہ گاہ بنانا ہے۔ انانیت و غرور، تمردو سرکشی کی بیخ کنی کرکے انسان کو اپنے مالک حقیقی کی اطاعت و انقیاد کا خُوگر کرنا ہے۔ یہی کام سب سے اہم بھی ہے اور سب سے مشکل اور کٹھن بھی۔ قرآن مجید نے اسی اہم ترین اور مشکل ترین کام کو سر انجام دیا اور اس حسن و خوبی سے کہ دنیا کا نقشہ بدل گیا۔
یہ صرف باتیں ہی باتیں نہیں ہیں بلکہ ایک حقیقت ہے زندہء جاوید حقیقت اور ناقابل انکار حقیقت کہ قرآن کی ہدایت سے بگڑا ہوا انسان سدھرا اور سدھر کر ساری کائنات کے لئے آیہء رحمت بن گیا۔ غور فرمائیے حکمتِ الٰہی نے نزولِ قرآن کے لئے جس سر زمین کو منتخب کیا۔ وہ عرب کا خظہ تھا۔ وہاں بسنے والے لوگ شکل و صُورت میں تو انسان تھے لیکن انسانیت سے اُن کا دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ کفر و شرک، فسق و فجور، ظلم و ستم، وحشت و بربریت، جہالت اور اجڈپن اس پر فقر و افلاس مستزاد، غرضیکہ کونسا عیب تھا یا کونسی گمراہی تھی جو اُن میں بدرجہء اتم موجود نہ تھی۔ اور دنیا نے دیکھا کہ قرآن حکیم کی تاثیر اور صاحب قرآن کی برکت سے وہ کیا سے کیا بن گئے۔ اگر قرآن عرب کے اجڈ بدوؤں کو آدم و بنی آدم کے لئے باعثِ عز و شرف بنا سکتا ہے۔ اگر ان جاہلوں کو جو ابجد خواں بھی نہ تھے بزعم علم و دانش‌ کرنے والی قوم کے دل میں معرفت الٰہی کی شمع فروزاں کر سکتا ہے تو ہمارے صنم کدہ تصورات کے لات و ہبل کو کیوں ریزہ ریزہ نہیں کرسکتا ،بشرطیکہ ہم قرآن کی ہدایت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور ہمارا کاروان حیات اس شاہراہ ہدایت پر گامزن ہو جائے جو قرآن نے ہمارے لئے تجویز کی ہے ۔
اے درماندہ راہ قوم !قرآن تمھیں عظمت وعزت کی بلندیوں کی طرف آج بھی لے جا سکتا ہے بشرطیکہ تم اس کی قیادت قبول کر لو ۔
اے اپنی قسمت برگشتہ پر آہ فغاں کرنے والے نوجوانو !دنیا کی امامت تمھاری متاع گم گشتہ ہے ،تمھیں یہ واپس مل سکتی ہے اگر تم میں اس کی واپسی کی تڑپ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن تمھیں واپس دلاسکتا ہے اگر تم اس کا حکم ماننے کے لئے تیّار ہو۔
زندگی کی یہ ساری چہل پہل تقسیم کار کے باعث ہے ،ایک ہی ملت کے مختلف افراد مختلف کام سرانجام دیتے ہیں ،کسی کے ہاتھ میں حکمرانی کی باگ دوڑ ہے ،کوئی مجالس مشاورت کا رُکن رکین ہے ،کوئی تجارت و صنعت کو چار چاند لگا رہا ہے ،کوئی شکم زمین سے رزق کے سر مُہر خزانے نکال کر اُن کے ڈھیر لگا رہا ہے ۔ کوئی وعظ و نصیحت کے منبر پر جلوہ نما ہے ،کوئی تعلیم و تدریس کی مسند کو رونق بخشے ہے اور کوئی سجّادہ فقر و درویشی پر تشریف فرما ہے، قوم کو مجموعی طور پر اصلاح یافتہ اُسی وقت کہا جا سکتا ہے جب کہ اس کے عناصر حق کا دامن مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوں اور اپنے اپنے دائرہ عمل میں قرآن مجید کی ہدایت پر کاربند ہوں اور اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں پوری دیانت داری سے مصروف کار ہوں ، ان عناصر کا باہمی تعلق اتنا گہرا ہوتا ہے کہ اگر ایک عنصر بھی جادہ حق سے برگشتہ ہو جائے تو دوسرے عناصر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اس لئے قرآن حکیم نے ہر ایک کو اپنی خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا ہے اور ہر گروہ میں راہ پانے والی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے اور انھیں اس کے عبرتناک انجام سے آگاہ کیا ہے ۔
ہم اکثر بگڑی ہوئی قوموں کے حالات اور ان کے حسرت ناک انجام کے متعلق قرآن میں پڑھتے ہیں اور ایک لمحہ توقّف کیے بغیر آگے نکل جاتے ہیں ہم یہ زحمت بہت کم گوارا کرتے ہیں کہ اپنے اعمال کا موازنہ ان برباد شدہ قوموں کے اعمال سے کریں اور یہ سوچیں کہ کہیں ہم بھی انھیں نافرمانیوں کا شکار تو نہیں اور اگر خدانخواستہ ہیں تو اپنے انجام کی ہولناکیوں سے غافل کیوں ہیں ؟ کیا مکافات عمل کا قانون قدرت کا اٹل قانون نہیں ؟‌کیا ہم نے یہ نہیں پڑھا کہ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ۔
میں نے ہر ایسے موقع پر کوشش کی ہے کہ مطالعہ کرنے والے کے وجدان کو جھنجھوڑوں اور اُسے اپنا محاسبہ کرنے کی رغبت دلاؤں تاکہ وہ اپنی جنس عمل کو اسلام اور قرآن کے مقرر کیے ہوئے ترازو میں تولے اور اسی کسوٹی پر رکھے تاکہ اسے اپنے متعلق کوئی غلط فہمی یا اشتباہ نہ رہے ، اور اگر اس کا قدم جادہ حق سے پھسل گیا ہے تو وہ سنبھلنے کی بروقت کوشش کرے ۔
قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو ایک واضح اور مکمل ضابطہ حیات (شریعت ) بھی عطا کیا ہے اور یہ ضابطہ اتنا ہی وسیع ہے جتنی زندگی اپنی بُو قلموں تنوّع کے ساتھ وسیع ہے بلکہ مبالغہ اس سے بھی وسیع تر ہے ،انسان کیا ہے ؟ اس کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ اور اس کی مخلوق کے ساتھ کیسا ہونا چاہئے ؟ اگر وہ حاکم ہے تو اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ اگر وہ رعایا ہے تو اس کے فرائض کی نوعیّت کیاہے ؟ اگر وہ دولت مند ہے تو اس کا طرز عمل کیسا ہو ؟ اور اگر وہ فقیرو محتاج ہو تو کس طرح باوقار زندگی بسر کر سکتا ہے ؟ قرآن نے جو شریعت کاملہ ہمیں دی ہے اس میں ان سوالات کا مکمل جواب موجود ہے اسی لئے عبادات ، سیاسیات ، معاشیات ، نظام اخلاق ، وغیرہ تمام امور کو شریعت نے اپنے دامن میں سمیٹا ہوا ہے ۔
قرآن حکیم میں جہاں بھی یہ مباحث آئے ہیں میں نے کوشش کی ہے کہ اُن کو اس واضح اسلوب میں پیش کیا جائے جیسے عصر حاضر کا انسان سمجھ بھی سکے اور قبول بھی کر سکے ۔
یہ ایک بڑی دلخراش اور روح فرسا حقیقت ہے کہ مُرور زمانہ سے اس اُمّت میں بھی افتراق و انتشار کا دروازہ کھُل گیا جسے واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا کا حکم دیا گیا تھا ، یہ امّت بھی بعض خود عرض اور بد خواہ لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے متنازع گروہوں میں بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور جذبات میں آئے دن کشیدگی اور تلخی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ، اس پراگندہ شیرازہ کو یکجا کرنے کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ انھیں قران حکیم کی طرف بُلایا جائے اور اس کی تعلیمات کو نہایت شائستہ اور دلنشین پیرایہ میں پیش کیا جائے ،پھر ان کی عقل سلیم کو اس میں غور فکر کی دعوت دی جائے ،ہمارا اتنا ہی فرض ہے ،اور ہمیں یہ فرض بڑی دل سوزی سے ادا کرنا چاہئے ۔ اس کے بعد معاملہ خدائے برتر کے سپُرد کردیں ، وہ حی و قیّوم چاہے تو انھیں ان شبہات اور غلط فہمیوں کی دلدل سے نکال کر راہ ہدایت پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ، وما ذالک علی اللہ بعزیز ۔
اس باہمی اور داخلی انتشار کا سب سے المناک پہلو اہل السنۃ والجماعت کا آپس میں اختلاف ہے جس نے انھیں دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفّق ہیں ، اللہ تعالٰی کی توحید ذاتی اور صفاتی حضور نبی کریم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوّت، قرآن کریم ، قیامت اور دیگر ضروریات دین میں کُلّی موافقت ہے لیکن بسا اوقات طرز تحریر میں بے احتیاطی اور انداز تقریر میں اعتدالی کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور باہمی سُوء ظن ان غلط فہمیوں کو ایک بھیانک شکل دے دیتا ہے ، اگر تقریر و تحریر میں احتیاط و اعتدال کا مسلک اختیار کیا جائے اور اس بد ظنّی کا قلع قمع کردیا جائے تو اکثر بیشتر مسائل میں اختلاف ختم ہوجائے اور اگر چند اُمور میں اختلاف باقی رہ بھی جائے تو اس کی نوعیّت ایسی نہیں ہوگی کہ دونوں فریق عصر حاضر کے سارے تقاضوں سے چشم پوشی کیے آستینیں چڑھائے ، لٹھ لیے ایک دوسرے کی تکفیر میں عمریں برباد کرتے رہیں ۔
ملّت اسلامیہ کا جسم پہلے ہی اغیار کے چرکوں سے چھلنی ہوچکا ہے ہمارا کام تو ان خونچکاں زخموں پر مرہم رکھنا ہے اس رستے ہوئے ناسوروں کو مندمل کرنا ہے ، اس کی ضائع شدہ توانائیوں کو واپس لانا ہے ، یہ کہاں کی دانش مندی اور عقیدت مندی ہے کہ ان زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں ، ان ناسُوروں کو اور اذیّت ناک اور تکلیف دہ بناتے رہیں ۔
میں نے پُورے خلوص سے کوشش کی ہے کہ ایسے مقامات پر افراط تفریط سے بچتے ہوئے اپنے مسلک کی صحیح ترجمانی کردوں جو قرآن کریم کی آیات بیّنات ، احادیث صحیحہ یا امت کے علماء حق کے ارشادات سے ماخوذ ہے تاکہ نادان دوستوں کی غلط آمیزیوں یا اہل غرض کی بہتان تراشیوں کے باعث حقیقت پر جو پردے پڑ گئے ہیں وہ اٹھ جائیں اور حقیقت آشکارا ہوجائے بفضلہ تعالٰی اس طرح بہت سے الزامات کا خود بخود ازالہ ہو جائے گا ، اور ان لوگوں کے دلوں سے یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی جو پرو پیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ واقعی ملّت کا ایک حصہ شرک سے آلودہ ہے یا ان کے اعمال اور مشرکین کے اعمال میں مماثلت پائی جاتی ہے العیاذ باللہ ۔
خداوند کریم ہمارے حال زار پر رحم فرمائے اور دلوں کو حسد اور نفرت کے جذبات سے پاک کر کے ان میں محبت و الفت پیدا فرماوے ۔ وھو علٰی کل شی قدیر ۔
فرقان حمید عربی زبان میں نازل ہوا ، عربی کا اپنا ادب ہے ، فصاحت و بلاغت کا اپنا معیار ہے اس کے اپنے مجازات ،استعارات اور امثال ہیں ،مفردات کے اشتقاق اور جملوں کی ترتیب کے الگ قواعد ہیں ، اس کا دامن الفاظ کی کثرت سے معمور ہے اور قواعد اشتقاق نے تو اس میں اتنی وُسعت پیدا کر دی ہے کہ دنیا کی کوئی ترقّی یافتہ زبان بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
اس کتاب مقدّس کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم عربی زبان سے ربط پیدا کریں ، اس کے قواعد و ضوابط سے اچھی طرح واقفیّت بہم پہنچائیں ، اس کے ادب اور اسلوب انشاء کی خصوصیات کو سمجھیں تاکہ کلمات کے آبگینوں میں حقیقت جو شراب طہور چھلک رہی ہے ، اس سے لطف اندوز ہوسکیں ۔
جہاں کہیں کوئی نحوی یا صرفی اُلجھن معلوم ہوئی یا لغوی پیچیدگی نظر آئی میں نے کوشش کی ہے کہ ائمّہ فن کے مُستند اقوال سے اس کا حل پیش کروں تاکہ دل میں خلش باقی نہ رہے ۔
ہر سورۃ سے پہلے میں نے اس کا تعارف لکھّا ہے جس میں سورۃ کا زمانہ نزُول ، اس کا ماحول ، اس کے اہم اغراض و مطالب ، اس کے مضامین کا خلاصہ ، اور اگر اس میں کسی سیاسی و تاریخی واقعہ کا ذکر ہے تو اس کا پس منظر بیان کیا ہے ،تاکہ قارئین جب پہلے اس تعارف کو پڑھ لیں گے تو سورۃ کا مطالعہ کرتے وقت وہ ان اُمور خصوصی پر زیادہ توجّہ مبذول کرسکیں گے ۔

قرآن کریم کے اُردو تراجم جو میری نظر سے گزرے ہیں وہ عموماً دو طرح کے ہیں ایک قسم تحت اللفظ تراجم کی ہے لیکن ان میں وہ زور بیان مفقود ہے جو قرآن کریم کا طرّہ امتیاز بلکہ اس کی روح رواں ہے ، دوسری قسم با محاورہ تراجم کی ہے ، ان میں دقّت یہ ہے کہ لفظ کہیں ہوتا ہے اور اس کا ترجمہ دو سطر پہلے یا دو سطر بعد درج ہوتا ہے اور مطالعہ کرنے والا یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ میں جو نیچے لکھا ہوا ترجمہ پڑھ رہا ہوں اس کا تعلق کس کلمہ یا جملہ سے ہے ۔
میں نے سعی کی ہے کہ ان دونوں طرزوں کو ا سطرح یکجا کردوں کہ کلام کا تسلسل اور روانی بھی برقرار رہے ، زور بیان میں بھی (حتی الامکان ) فرق نہ آنے پائے اور ہر کلمہ کا ترجمہ اس کے نیچے بھی مرقوم ہو، اس میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں ،اس کا فیصلہ تو قارئین کرام ہی کریں گے ،بہر حال اگر مجھے اس میں کامیابی ہوئی ہے (پوری نہ سہی ادھوری سہی ) تو یہ میرے مولائے کریم کا اپنے اس ناچیز بندے پر ایک مزید احسان عظیم ہے جس کی شکر گزاری سے یہ ہیچمدان کبھی عُہدہ بر آنہیں ہوسکتا ۔
 
Top