مفتی تقی عثمانی صاحب سے سوال: پاکستانی ریاست طالبان کی طرح فرار ہو کر کہاں جائے؟

مہوش علی

لائبریرین
محترم مفتی تقی عثمانی صاحب سے سوال: کیا پاکستانی ریاست طالبان کی طرح فرار ہو سکتی ہے؟ ۔۔۔ کیا پاکستانی ریاست اپنی ہی شہری آبادی کو طالبان کی طرح ڈرون حملوں کے خلاف بطور ڈھال استعمال کر سکتی ہے؟

563724_613300415377700_1063198574_n.png
 

نایاب

لائبریرین
آنکھیں کھول کر زمینی حقائق پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتا اک منطقی سوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

دوست

محفلین
نہیں جی امریکہ کے خلاف سینہ تان کر بلکہ گریبان کھول کر سینہ تان کر کھڑے ہونا چاہیئے۔ یہ جو دو دو کروڑ آبادی کے شہر ہیں ان پر میزائل برسوائیں اور کچے دھاگے سے بندھے ہوئے درجن بھر قوم پرست گروہوں کو چھوٹے چھوٹے ٹوٹوں میں بکھیر دیں۔ آج یہ حکومت امریکہ کے سامنے کھڑی ہو جائے تو نتیجہ کسی نے سوچا کہ کیا ہو گا؟ پینسٹھ کی جنگ میں سترہ دن میں اسلحے کی سپلائی ختم ہو گئی تھی۔ ایک طرف امریکی میزائل برسیں گے (انہیں کوئی ضرورت نہیں زمینی کاروائی کی، اس کے لیے انڈیا ہے نا) دوسری طرف انڈیا بسم اللہ کر کے حملہ کرے گا۔ اور ہاں تیسری طرف سے افغان "دوست" بھی حصہ بقدر جثہ ڈالیں گے۔ چوتھی طرف سے ایران کے بلوچوں کو میدان کھلا ملے گا۔ ارے ہاں ہمارا "دوست" چین ہماری مدد کو آئے گا، جیسے 1998 کی جنگ میں چین نے ہی سب کچھ کیا تھا، اور ہاں چونسٹھ میں بھی چین نے ہمارے آپریشن جبر الٹر کو پردہ فراہم کرنے کے لیے ہی تو بھارت کے ساتھ آڈا لگایا تھا۔ چین تو جیسے تیار بیٹھا ہے کہ ادھر پاکستان امریکہ کے خلاف سیدھا ہو تو وہ بھی پاکستان کے ساتھ اتحاد قائم کر کے عظیم اسلامی "خلافت" کے لیے راہ ہموار کرے۔ اور چینی ترکستان کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، جہاں ادھر سے ہی دہشت گرد برآمد ہوتے ہیں، وہ تو دل و جان سے چین کے حامی اور چینی ریاست کے وفادار، اس کی افواج کےساتھ مجاہدانہ انداز میں بھارتی و امریکی استعمار کے خلاف لڑیں گے۔ اور ہاں یہ سارے طالبان شالبان بھی امریکہ کی طرف سیدھے ہو جائیں گے، انڈیا پر حملے ہوں گے، انڈیا کے اندر جا کر حملے ہوں گے وہاں کے مسلمان ہمارا ساتھ دیں گے، کشمیر آزاد ہونے کی جد و جہد پھر سے شروع کر ےگا۔ اوہ ایٹم بم تو میں بھول ہی گیا ۔ اوپس یہ تو تازے کرارے بھنے ہوئے شہروں والی صورتحال ہو جائے گی۔ اور پھر پاکستان جس جگہ کا نام ہے وہاں کیا رہے گا بھلا؟ چند بڑے شہروں سے اڑتی (ایٹمی) خاک، اور باقی چھوٹی موٹی جگہوں پر چلتی گوریلا جنگیں۔ مرنے والوں کی تعداد چند کروڑ میں لگا لیں، لیکن "غلبہ اسلام" کے لیے یہ کوئی بڑی قیمت تو نہیں۔
نوٹ: کہانی کو عالمی سطح پر نافذ کرنے کے لیے احباب اپنی اپنی تصوراتی اور تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
مزید نوٹ: طالبان کے حامی اس کو ہرا ہرا ٹچ بھی دے سکتے ہیں جس میں پہلے ہی ہلے میں امریکہ دُم دبا کر بھاگ جائے گا اور آدھا بھارت ہمارے قبضے میں ہو گا، دوسرے ہلے میں چین یا تو ذمی بن جائے گا یا پھر حلیف۔ اور پھر خلافت خلافت، ہر پاسے خلافت خلافت ہو گی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مزید نوٹ: طالبان کے حامی اس کو ہرا ہرا ٹچ بھی دے سکتے ہیں جس میں پہلے ہی ہلے میں امریکہ دُم دبا کر بھاگ جائے گا اور آدھا بھارت ہمارے قبضے میں ہو گا، دوسرے ہلے میں چین یا تو ذمی بن جائے گا یا پھر حلیف۔ اور پھر خلافت خلافت، ہر پاسے خلافت خلافت ہو گی۔
اور خلافت کے معیار کے لئے ترکی والا ڈرامہ "میرا سلطان" دیکھئے :)
 
محترم مفتی تقی عثمانی صاحب سے سوال: کیا پاکستانی ریاست طالبان کی طرح فرار ہو سکتی ہے؟ ۔۔۔ کیا پاکستانی ریاست اپنی ہی شہری آبادی کو طالبان کی طرح ڈرون حملوں کے خلاف بطور ڈھال استعمال کر سکتی ہے؟
کس قسم کا بے منطق اور بے ڈھنگا آرٹیکل پوسٹ کیا ہے،
بے کار تجزیہ ۔۔۔
طالبان کا ہوا کھڑا کرکے امریکہ سے ڈرایا جارہا ہے ، کہ ان سے جنگ کرینگے تو یہ ہوجائے وہ ہوجائے گا ۔۔۔
او بھئی ۔۔۔امریکہ سے کون جنگ کررہا ہے یا کرنا چاہتا ہے ، کوئی بھی نہیں ،خاطر جمع رکھیں ۔۔۔
اور طالبانی نظریات کا کوئی حامی نہیں ، ہوگا بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔۔۔
تو اس قدر بھونڈا شور شرابہ کیوں کیا جارہا ہے کہ مفتی صاحب نے ایسا کیوں کہا ویسا کیوں کہا ، جیسے پاکستان میں مفتیوں کی بڑی چلتی ہے ۔۔
تحریک طالبان دہشتگرد ہیں ، پر ایسا خوف مسلط کرلیا ہے ، جیسے گھر کے دروازرہ پر کھڑے ہو ۔۔۔
اس آرٹیکل میں طالبان سے زیادہ امریکہ سے خوف دلایا جارہا ہے
حد ہوتی ہے خوف کی بھی ۔۔۔۔
 
جب حکمران امریکی غلام ہوں اور کرائے کے غنڈے اٹھ کر مذہب کے نام پر لوگوں کو ذبح کر نا شروع کر دیں اور علماء فرقہ واریت کو ہوا دے کر ملک میں آگ لگاتے پھریں اور ملک میں لاقانونیت ہو جائے۔ملک کے محافظوں کو ایسے فتوے دئیے جائیں تو اس عالم میں لکھنے والی قلم بھی لکھنے سے انکار کر دیتی ہے
 

ابن عادل

محفلین
صاحب تحریر نے ایک علمی بحث کو کہیں سے علمی انداز سے پیش نہیں کیا ۔ اور افسوس اس پر ہے کہ پہلے صاحب استفتاء پر گفتگو فرمانے کے بجائے مفتی صاحب پر اپنا زور علم صرف کیا ۔
ذرا صاحب استفتا ء کے بارےمیں گفتگو ہو کہ وہ کون ہیں ؟ یہ وہی صاحب ہیں جو اس وقت حاضر ڈیوٹی جنرل تھے ۔ اور یقینا ہم سب سے زیادہ صورت حال سے باخبر ۔ اب وہ ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے طرز عمل پر شرمندہ ہوتے ہیں ۔ اور اس کے مداوے کے لیے انہیں جو راہ سجھائی دیتی ہے وہ اس پر عمل کر رہے ہیں ۔ آپ جنرل صاحب کو جو کہیں مجھے اختلاف نہیں ۔
افسوس اس پر ہے کہ مفتی صاحب کہ جن کی جلالت علمی ہمیں قدر کرنی چاہیے ۔ اس وقت وہ شاید واحد علمی شخصیت ہیں جو کسی قدر مسلکی دائرہ سے ہٹ کربھی ملک پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ انہوں نے انتہائی شائستہ الفاظ میں ایک سلجھی بات کہی آپ کو اختلاف ہے کیجیے ۔ لیکن کیا علمی اختلاف یوں ہی کیا جاتا ہے ۔مفتی صاحب تو ایک عرصے تک خاموش رہے اور بہت سے حلقے ان کی اس خاموشی پر سیخ پا ہیں ۔
اور آتے ہیں زمینی حقائق کی طرف تو جناب جب یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ دہشت گردی کی جنگ کے نام سے شروع کی گئی تھی ۔ اس وقت کچھ یہی دلائل تھے پرویز مشرف کے ۔ اور آج پرویز مشرف مکافات عمل کا شکار ہے ۔ لیکن اس وقت کے شیخ رشید ،چوہدری شجاعت اور دیگر کئی سب موجود ہیں ۔ آج آئیں اور اپنی اس منطق کا دفاع کریں ۔
کئی آپشن تھے جنہیں استعمال کیا جاسکتا تھا اور اہل دانش نے وہ سب پیش کیے تھے ۔ لیکن بہادر جنرل نے ایک فون پر پورا ملک حوالے کردیا ۔ کیا ہوا ملک بچ گیا ؟؟؟ امریکہ نے نہ سہی طالبان نے ہی ۔۔۔ ہوا تو وہی جو امریکہ چاہتا تھا ۔ترکی اور ایران کی مثال ہی سامنے رکھ لیجے ۔ ایران نے کیا کیا ۔ ؟؟؟؟
ہمیں اس بات کو ماننے میں کیا عار ہے کہ یہ امرکہ کی جنگ ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اس سے نکلے بغیر ہم سلامتی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے ۔
حضور احترام سے عرض کرنے دیجے ۔ روس سرپھوڑ کر افغان سے نکلا تھا ۔ طالبان خود فوج نے پیدا کیے (میرا خیال ہے کسی کو انکار تو نہ ہوگا ) امریکہ آئندہ سال جانے کا اعلان کرچکا ۔ تو ہم کیا کریں گے ۔ ہماری حکومت اور فوج کا خدا امریکہ تو تنگ آگیا ۔ وہ جارہا ہے رہنا یہاں ہم نے ہے ۔ ہم نے کیا کیا ؟؟؟ سوچنے بات تو یہ ہے ۔
ویسے امریکہ کی شکست پر بہت سے حلقے ویسی ہی کیفیت کا شکار ہیں جیسی کیفیت سرخوں پر روس کی شکست پر طاری تھی ۔
بہرحال ہماری ہمدردیا ں اسلام اور اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کے ساتھ ہیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین

ملکہ وکٹوریہ کے عہدِ حکومت میں انگریزوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر حملہ کیا ۔ حضور شمس العارفین خواجہ شمس الدین سیالویؒ اپنے حجرہ مبارکہ میں تشریف فرما تھے، آپ اچانک اٹھے اور جنوبی دروازے کے قریب جا کر بڑے جلال سے فرمایا:
"جب افغان تلوار اٹھائیں گے تو اِس عورت (ملکہ وکٹوریہ) کا لندن میں اپنے لباس میں ہی (خوف کے مارے) پیشاب خطا ہو جائے گا"
حضرت اعلیٰ نے یہ الفاظ دو یا تین مرتبہ دہرائے اور اس جلالی کیفیت میں اپنی جگہ واپس تشریف لے گئے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ برطانوی افواج نے عین اس وقت کابل پر حملہ کیا تھا ، لیکن پٹھانوں نے انہیں شکست سے دوچار کیا
(برصغیر میں برطانوی راج کی مخالفت میں صوفیائے سیال شریف کا کردار از پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان شاہ صدر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ جی سی یونیورسٹی لاہور)

خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سرگودھا میں تشریف فرما تھے کہ آپ کی پوتیاں آپ کے پاس آ کر کہنے لگیں کہ ہمارے سکول کی معلمات نے ہمیں افغان مجاہدین کے لیے چندہ لانے کو کہا ہے، اس وقت آپ نے بچوں کے سامنے جہاد کا مفہوم بتایا ، شہداء اور مجاہدین کی شان بیان فرمائی ۔ اس کے بعد خورد و نوش کا بہت سا سامان اپنی گاڑی بازار بھیج کر منگوایا اور افغان مجاہدین کے لیے بچیوں کے حوالے کیا۔
بحوالہ انوارِ قمریہ جلد دوم ،صفحہ 147
لر(پاکستان) او بر(افغانستان) یو مسلمان
---
امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان نے کابل میں ایک مدرسہ مکتب حبیبیہ قائم کیا۔
مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں
مکتب حبیبیہ کا نظم و نسق تمام کا تمام برصغیر کے افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ جب سے حبیب اللہ خان نے اپنی توجہ علوم و فنون کے اجراء کی طرف مبذول کی ہے۔ برصغیر کے ایک اساتذہ کا گروہ کابل میں مقیم ہے اور ان میں سے اکثر پنجابی ہیں۔
بحوالہ کتاب :
ڈاکٹر عبد الغنی (جلالپوری) ، صفحہ 37
ڈاکٹر عبد الغنی (جلالپوری) سابق پرائیویٹ سیکرٹری برائے امیر عبد الرحمن و امیر حبیب اللہ والیان افغانستان ، سابق رکن مجلس قانون افغانستان و رکن مجلس مشاورت برائے امان اللہ
---

انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور بری طرح شکست کھائی ۔
حضرت قاضی احمد الدین چکوالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو فارسی اشعار میں حافظ شیرازی کی پہلی غزل پر تضمین کرتے ہوئے بڑے موثر انداز میں بیان کیا
پہلا شعر یہ ہے
نصاریٰ پرخسارہ اہلِ کابل را مقابل شد
الا یا ایھا الساقی ادر کاسا و ناولھا
(بحوالہ فوز المقال فی خلفاء پیر سیال)
لر(پاکستان) او بر (افغانستان) یو مسلمان
 

جاسم محمد

محفلین

جب عمران خان کی دو سالہ سیاست ۴۰ سالہ شدید سیاسی حریفوں کو ایک دوسرے کا بہترین عاشق بنا سکتی ہے۔ تو ٹرمپ کی ۴ سالہ سیاست پینٹاگون اور طالبان کو دوست کیوں نہیں بنا سکتی؟ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔
 
Top