کاشفی

محفلین
معاف کرنا یہ میرے جملے نہیں تھے۔۔۔
تحریر : کمیل احمد

“میں ہگس کے زرہ کے بارے میں بلکل نہیں جاننا چاہتا “، احمد نے چڑ چڑی آواز میں بولا۔ اس کی عمر شاید ۱۵ برس ہوگی، سائنس کا طالبِ علم تھا، طبعیات کا بہت شوق تھا، لیکن معلوم نہیں کیوں ہِگس ذرے کے بارے میں پڑھنا وہ غلط سمجھتا تھا۔ “یار احمد، آخر کوئی وجہ تو بتاؤ نا پڑھنے کی؟ ہگس صاحب نے تمھاری دیوار پر لگی ہولی وڈ اداکارہ کی تصویر چوری کرلی ہے، یا تمھارا کتّا بھگالے گئے ہیں! ہاہاہا”، عارف نے تفریحاً دریافت کرنے کی کوشش کی۔
Dr-Abdus-Salam.png

“نہیں یار ! مجھے تو ہگس ذرہ یہودیوں کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ اس نئی تحقیق کے ذریعے وہ ہم کو کنٹرل کرسکتے ہیں۔ وہ اپنا علمی دھوس ہم پر جمانا چاہتے ہیں۔ اگلی بار جب پاکستان میں تباہی آئے گی تو، اس ہی کی وجہ سے آئے گی۔ یہ دیکھو! یہ دیکھو! یہ مقالہ دیکھو!”

یہ کہتے ہوے احمد نے کاغذوں کا ڈھیر عارف کو تھما دیا۔ عارف نے مطالعہ شروع کیا تو چند تصاویر اس کی نظر سے گزریں۔ ان تصاویر میں نمایہ تصاویر جنرل ضیاء الحق، زید حامد، بزرگ صحافی زاہد ملک، جنہوں نے ڈاکٹر عبد قدیر خان پر کتاب لکھی تھی، اور چند مولوی حضرات کی تھیں۔ عارف کو اور بھی کچھ تصاویر نظر آئی، ان میں سے ایک تصویر ڈاکٹر عبدالسلام کی بھی تھی۔ عارف کو حیرت ہوئی کے اُن کی تصویر اس ‘فوجی- مذہبی’ مقالے میں کیا کررہی ہے۔

“بھائی عارف ! ہِگس ذرے کی تحقیق میں اَس آدمی کا بھی ہاتھ ہے”، احمد نے بےساختہ بولا۔ اُس کی شکل پر نفرت نمایہ تھی اور ڈاکٹرسلام کی تصویر کو دیکھنا تک گوارا نہیں کررہا تھا۔

“احمد تم تو سائنس کے طالبِ علم ہو! ڈاکٹر عبدالسلام کا تو ایٹم کی تحقیق میں بنیادی کردار ہے، وہ پاکستان کے واحد نوبل پرائز انعام یافتہ سائنسدان ہیں، تمھاری زبان سے ایسی بات سن کر بہت حیرت ہورہی ہے”، عارف بولا۔

“ڈاکٹر سلام تو یہودی ایجنٹ تھا! تم نے زاہد ملک کی کتاب نہیں پڑھی؟ اس نے پاکستان کے ایٹم بم کے خلاف سازش کی تھی۔ اور اس ہی سازش کی وجہ سے اس کو نوبل انعام ملا تھا۔ اور اُس کا مذہب بھی تم جانتے ہو کیا تھا۔ تم یہ مقالہ پڑھو، تم کو بھی سمجھ آجائے گی کہ ہِگس ذرے کو یورپ میں صرف اس لیے اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ یہ عبدالسلام کا کارنامہ ہے۔ میں تو ہگس کے خیالات کبھی نہیں پڑھوں گا۔”

عارف تو جیسے سکتے میں آگیا ہو۔ پاکستان کا واحد نوبل پرائز وینر کو صرف اس لیے رد کیا جارہا ہے کیونکہ اس کا مذہب کچھ اور ہے۔ اس کو سازشی قرار دیا جارہا ہے۔ اس کو امریکی ایجنٹ کہا جارہا ہے۔ عارف کے ذہن میں ہٹلر کے زمانے کی تصویر آگئی، اس زمانے میں آئنسٹائن کی کتابیں اس لیے جلائی جاتی تھیں کیونکہ وہ یہودی تھا۔ اس کے کارِ نانمایہ کو یہودی مذہب کی پیدوار کہہ کررد کردیا جاتا تھا۔ کیا ہم ڈاکٹر سلام کے ساتھ یہی تو کرنے نہیں جارہے؟ شاید ضیاء الحق کے دور میں جو کتابیں چھپی تھیں، وہ اس رویے کی ذمہ دار ہوں۔ شاید نہ تھمتی ہوئی انتہا پسندی اس کی ذمہ دار ہو، شاید ملک میں عدم برداشت کی کیفیت اس کی ذمہ دار ہو۔ شاید ان سب وجوہات کی آمیزش ہو۔ شاید جنزل ضیاء اور سیاسی مولوی کامیاب ہوئے اور مہذب اور روشن خیال لوگ شکست کھا گئے۔ احمد کی زبان پر ایسے جملے آنا بلکل ایسا ہی تھا کہ مردہ بولنا شروع کردے۔ ایک طبعیات کا طالبِ علم اور ہگس ذرے کو ناپڑھے! واہ!

“احمد، تم کیا کیا نہیں پڑھو گے، یہ تھمارے کمرے میں لگی ہوئی اداکاروں کی تصاویر سے ایم – پی -۳ تک، حسین مساجد سے لے کر حسین گھروں تک، گاڑی سے لے کر ہوائی جہاز تک، یہ تمام علم کہا سے آیا ہے۔ اور کیا ایک ہند، عیسائی، یا یہودی سچ نہیں بول سکتا؟ کیا صرف اس مقالے میں شامل “ٹولا” ہی سچ بولتا کی طاقت رکھتا ہے؟ اور تمھارے پڑھنے اور نہ پڑھنے سے دنیا کو کیا فرق پڑھتا ہے، آخر میں تم ہی بسم اللہ کہا کر یورپی گاڑی میں سفر کرو گے۔”، عارف نے مدہم لہجے میں کہا۔

عارف پھوٹ پڑھا، “تم چاہو یا ناچاہو، تمھاری اگلی نسل کے لیے عبدالسلام کے خیالات کے بارے میں پڑھنا لازم ہوجائے گا۔ ہگس کی دریافت اتنی ہی اہم معلوم ہوتی ہے جتنی آئنستائن کی دریافت ہے۔ اور کل پروسوں تم ہی تو آئنسٹائن کے نظریے کی مدد سے اسلام کی حقانیت ثابت کر رہے تھے. بھول گئے؟ – عارف نے آخر میں کہا

احمد کی زبان پر اب کوئی جواب نہیں آرہا تھا، اس کا مقالے واقعی کاغذ کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ عارف کی باتیں منطقی معلوم ہورہی تھیں۔ اس کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں تھی۔ اچانک اس کے اندر کا سائنسدان بول پڑھا:

“معاف کرنا عارف بھائی، میرے جملے میرے نہیں تھے بلکہ سماج نے میرے مو میں ڈالے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
 
Top