مظلوم صحیفہ

۔۔۔ بعض ايسے لوگ بھی مسلمانوں ميں پائے جاتے ہیں جو نہ عربي زبان وادب ميں خاطر خواہ استعداد رکھتے ہیں ، نہ عرب كے قديم علمى سرمايہ پر ان کی نگاہ ہے ، نہ قرآن كريم كو ٹھیک طور پر سمجھ سکتے ہیں مگر اپنی اس علمى تہی مائيگی کے باوجود قرآن كريم كے ترجمہ اور تفسير كى كوشش فرماتے ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب ( اقبال ) كو اس قسم كى باتوں سے بڑی اذيت ہوتی تھی ، وہ اپنی متانت ، سنجيدگی اور عالى ظرفي كے باوجود اس غم كوچھپا نہ سکے ، ايك بار فرما ہی دیا : ۔۔۔ قرآن كريم اس اعتبار سے بڑا ہی مظلوم صحيفہ ہےكہ جسے ذنيا ميں اور كوئى كام نہیں ملتا وہ اس كے ترجمہ وتفسير ميں مصروف ہو جاتا ہے حالاں کہ یہ نہایت ہی نازك اور محتاط ذمہ دارى ہے ۔

__________ اقتباس از : روز گارِ فقير ، تاليف: فقير سيد وحيد الدين _________​
 

ساجد

محفلین
بالکل درست کہا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان "نیم حکیموں" کی وجہ سے مسلمان فرقوں میں تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں۔ آج کے دور میں تو اس میں کمرشلائزیشن بھی آ چکی ہے۔ یہ گلی گلی کھلتے ہوئے مدرسے جن میں اکثر رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتے اور جگہ جگہ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کہ جن میں انتہائی ناقص دینی معلومات والے خود کو عالم ظاہر کر کے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف مذہب کے نام پہ بھڑکاتے ہیں۔دین کی اصل روح سے ہٹ کر قرآن کی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور دلیل میں من گھڑت قصے سناتے ہیں۔ پھر ان کو جو چندہ ملتا ہے نہ اس کا ریکارڈ اور نہ اس کے مصرف کا کوئی اتا پتہ۔ عالم کہلوانا اور بننا بہت کڑے امتحان کے بعد ہی ممکن ہونا چاہئیے نا کہ جس نے دس سورتیں یاد کر لیں وہ دین کی غلط تشریح کر کے لوگوں کو گمراہ کرے۔
پیشگی معذرت اگر کسی کو یہ برا لگا ہو لیکن حقیقت یہی ہے۔
 
جب ہم اپنے دين سے غفلت برتتے ہیں تبھی فرقہ بازوں كى چاندى ہوتى ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں كو ڈاكٹر انجينير اور پائلٹ بنانے کے ساتھ ساتھ فخر سے عالم دين بنانے لگے تو سطحى علم ركھنے والوں كى دكان خود ہی ماند پڑ جائے گی۔
 

عثمان

محفلین
عربی آتی ہو یا نہ آتی ہو۔ کوئی بھی شخص اگر اپنی استطاعت کے مطابق قرآن پر غور کرتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ مسئلہ وہاں ہے جب لوگ اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے اپنی آراء فتووں کی صورت میں دوسروں پر نافذ کرتے پھریں۔
اپنی زندگی کے اہم فیصلے غوروخوض کے بعد میں خود کرتا ہوں۔ لیکن زندگی اور حیات بعد الموت کے بارے میں راہنمائی کا اختیار ایک عربی دان ملا کے حوالے کردوں؟ واہ بھئی!
 

سویدا

محفلین
زندگی کے تمام شعبوں میں ماہرین کا موجود رہنا ضروری ہے کوئی ایک شعبہ دوسرے کی نفی نہیں کرتا اور نہ ہی کرنی چاہیے
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَاۗفَّۃً۝۰ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَ۔۔ۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۝۱۲۲ۧ
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے
اے اہلِ ایمان! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے
 

سویدا

محفلین
ہسپتال جاکرجس طرح اپنی زندگی ڈاکٹر کے حوالے کردیتے ہیں
جہاز میں بیٹھ کر پائلٹ کے حوالے کردیتے ہیں
گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کے حوالے کردیتے ہیں۔
﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾

اوربلاشبہ ہم نے قرآن کریم کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیا ہے ۔
اور جب قرآن کریم ایک آسان کتاب ہے تو اس کی تشریح کے لیے کسی لمبے چوڑے علم وفن کی ضرورت نہیں ،لیکن یہ استدلال ایک شدید مغالطہ ہے جو خود کم فہمی اور سطحیت پر مبنی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں :
۝۱ ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں ، سبق آموز واقعات اور عبرت وموعظت کے مضامین بیان کیے گئے ہیں ، مثلا دنیا کی ناپائیداری ، جنت ودوزخ کے حالات ، خوف خدا اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں اور زندگی کے دوسرے سیدھے سادے حقائق ،اس قسم کی آیتیں بلا شبہ آسان ہیں اور جو شخص عربی زبان سے واقف ہو وہ انہیں سمجھ کر نصیحت حاصل کرسکتا ہے ،مذکورہ بالا آیت میں اسی قسم کی تعلیمات کے بارے میں یہ کہاگیا ہے کہ ان کو ہم نے آسان کردیا ہے چنانچہ خود اس آیت میں لفظ ’’ للذکر‘‘ (نصیحت کے واسطے) اس پر دلالت کررہا ہے ۔
۝۲اس کے برخلاف دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین ، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں اس قسم کی آیتوں کا کما حقہ سمجھنا اور ان سے احکام ومسائل مستنبط کرنا ہر شخص کا کام نہیں جب تک اسلامی علوم میں بصیرت اور پختگی حاصل نہ ہو ،یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مادری زبان اگرچہ عربی تھی اور عربی سمجھنے کے لیے انہیں کہیں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ آنحضرت ﷺ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے ، علامہ سیوطیؒ نے امام ابو عبد الرحمن سلمیؒ سے نقل کیا ہے کہ جن حضرات صحابہ نے سرکاردو عالم ﷺ سے قرآن کریم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے ،مثلا حضرت عثمان بن عفان ؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ جب وہ آنحضرت ﷺ سے قرآن کریم کی دس آیتیں سیکھتے تو اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ان آیتوں کے متعلق تمام علمی اور عملی باتوں کا احاطہ نہ کرلیں وہ فرماتے تھے کہ :
فتعلمنا القرآن والعلم والعمل جمیعا [الاتقان ،ج۲ ص۱۷۶]
ہم نے قرآن اور علم وعمل ساتھ ساتھ سیکھا ہے ۔
 

سویدا

محفلین
جو ملا غلط ہے سو وہ غلط ہے اس کی حمایت بھی نہیں کرنی چاہیے
جس طرح زندگی کے اور تمام شعبوں میں سو فیصد فرشتہ کوئی بھی نہیں ہے اچھے برے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ، بروں کی وجہ سے اچھے اور صحیح لوگوں کو برا نہیں کہاجاتا ہے
 
اپنی زندگی کے اہم فیصلے غوروخوض کے بعد میں خود کرتا ہوں۔ لیکن زندگی اور حیات بعد الموت کے بارے میں راہنمائی کا اختیار ایک عربی دان ملا کے حوالے کردوں؟ واہ بھئی!

یعنى كہ داڑھ درد كرے تو ڈینسٹ سے مشورے كى بجائے از خود ڈینٹسٹری dentistry پڑھی جائے؟ چہ خوب ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے اس تھریڈ کو یہاں منتقل کر دیا ہے۔ براہ مہربانی پوسٹ کرتے وقت زمرہ کا خیال رکھا کریں۔ شکریہ۔
 

عثمان

محفلین
یعنى كہ داڑھ درد كرے تو ڈینسٹ سے مشورے كى بجائے از خود ڈینٹسٹری dentistry پڑھی جائے؟ چہ خوب ۔

داڑھ درد کرے یا گاڑی کا پرزہ خراب ہوجائے ، معلومات عام مل جاتی ہیں۔ استفادہ کرنے والے استفادہ کرلیتے ہیں۔
مکینیک ہو، ڈینٹسٹ ہو، پائلٹ ہو یا ڈاکٹر۔ آپ کے پاس چوائس ہے۔ چاہے تو ان سے علاج کروا لیں۔ یا کسی متبادل شخص کے پاس چلے جائیں۔ مذکورہ افراد میں کوئی بھی ملاؤں کی طرح فتوے نہیں ٹھوکتا کہ میری ہی رائے برحق ہے، ایمان لاؤ نہیں تو گئے کام سے۔
ملا اپنی رائے دے ، اور اپنا راستہ ناپے۔ لوگوں پر اپنا فہم اور فتوے نافذ کرنا بند کرے!
 

یوسف-2

محفلین
دو انتہا ئوں سے بچہیں:
(1) جنہیں عربی نہیں آتی، وہ قرآن و حدیث کی بات کیوں کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ انہیں کوئی حق نہین ہے کہ قرآن و حدیث کے بارے میں لب کھو لیں۔ ۔ ۔ یہ غلط ہے۔ آج قرآن کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کا جاننا ضروری نہیں۔ دنیا کی بیشتر اہم زبانوں میں قرآن کے ایک سے زائد تراجم موجود ہیں۔ صرف اردو زبان میں 92 سے زائد تراجم موجود ہیں۔ قرآن سے دلچسپی اور عربی زبان نہ جاننے والا کوئی بھی فرد چند ایک تراجم کو دیکھ کر بھی قرآن کے اصل مفہوم سے آگاہ ہوسکتا ہے۔

(2) میں ایک پڑھا لکھا فرد ہوں۔ میں اپنے اچھے برے معاملات کو بخوبی سمجھتا ہوں۔ پھر میں دینی معاملات کے لئے ملا مولوی سے کیوں رجوع کروں؟ یہ نکتہ نظر بھی غلط ہے۔ جس طرح ہم میڈیسن کی چند کتب پڑھ کر ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔ قانون کی چند کتب دیکھ کر وکیل نہیں بن سکتے یا انجینئرنگ کی چند کتب پڑھ کر انجینئر نہیں بن سکتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم متعلقہ تعلیمی ادارے میں اس شعبہ کا مکمل نصاب پڑھیں، اس کا امتحان پاس کریں اور پھر اس علم کی عملی تربیت حاصل کریں تب ہی ہم کسی مریض کا علاج کرنے، کسی مئوکل کا مقدمہ لڑنے یا کوئی عمارت تعمیر کرنے کے اہل ہوں گے۔ اسی طرح دینی شعبہ میں بھی جب تک ہم کسی باقاعدہ دارالعلوم سے متعلقہ نصاب مکمل کرکے اس کا امتحان پاس نہ کر لیں ہم عالم دین، مفتی، وغیرہ کا متبادل نہیں بن سکتے۔

اللہ ہر مسلمان کو عقل سلیم عطا فرمائے تاکہ وہ راہ اعتدال اختیار کرکے ہر قسم کی انتہائی منفی سوچ سے محفوظ رہ سکے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
 

ابو یاسر

محفلین
اچھی فکر ہے
واقعی ،زندگی کے ہر شعبے میں ماہرین کی ضرورت ہے وہیں لیکن ہر ایک ماہر بھی نہیں بن سکتا
کسی بھی علم کے سیکھنے کے لیے اس کے اصولوں کا جاننا ضروری ہے
غیرجانکار یا نو سکھئے کی باتوں کو ذرا لائٹلی لینا چاہیے۔
 
داڑھ درد کرے یا گاڑی کا پرزہ خراب ہوجائے ، معلومات عام مل جاتی ہیں۔ استفادہ کرنے والے استفادہ کرلیتے ہیں۔
مکینیک ہو، ڈینٹسٹ ہو، پائلٹ ہو یا ڈاکٹر۔ آپ کے پاس چوائس ہے۔ چاہے تو ان سے علاج کروا لیں۔ یا کسی متبادل شخص کے پاس چلے جائیں۔ مذکورہ افراد میں کوئی بھی ملاؤں کی طرح فتوے نہیں ٹھوکتا کہ میری ہی رائے برحق ہے، ایمان لاؤ نہیں تو گئے کام سے۔
ملا اپنی رائے دے ، اور اپنا راستہ ناپے۔ لوگوں پر اپنا فہم اور فتوے نافذ کرنا بند کرے!

كسى كمپنی كى گاڑی خريدى جائے تو بعض شرائط پر عمل كرنا پڑتا ہے ايك مخصوص عرصے بعد ان ہی سے سروس كروانا ہو گی، حادثے وغيرہ كى صورت ميں سپیئر پارٹس سے لے كر ضرورى مرمت تك سب كے ليے انہی سے رجوع كرنا ہو گا وغيرہ وغيرہ ۔ ۔ ۔آپ ٹویوٹا كى مصنوعات ميں فورڈ يا ہنڈا کے سپیئر پارٹس كيسے لگا سكتے ہیں؟
كسى ايك ڈینٹسٹ سے فلنگ كروا ليں تو بار بار اسى كے در دولت پر حاضرى دينا پڑتی ہے ، كسى سرجن سے درد دل كا مداوا كروا بيٹھیں تو آئندہ وہی طبيب ٹھہرتا ہے۔
سڑک پر گاڑی لے كر نكليں تو ٹريفك قوانين سے لے كر سگنلز تك سب كى پابندى كرنى پڑے گی يہ ممكن نہیں کہ حادثے يا چالان كى صورت ميں ٹريفك كانسٹیبل قانون كا حوالہ دے كر باز پرس كرے تو ہم اسے كہیں كہ مياں قوانين كى سارى كتاب ہميں حفظ ہے جاؤ ہمارا دماغ مت چاٹو ہمارى مرضى ہم قوانين پر عمل كريں يا نہ كريں !
حضرت علامہ محمد اقبال رحمت اللہ عليہ نے بھی عام انسان كو فہم قرآن سے نہیں روكا ، بلكہ ان نام نہاد مفسرين پر افسوس كا اظہار كيا ہے جو علم واصول تفسير سے ناواقف ہیں مگر اس عظيم ذمہ دارى ميں سر دے بیٹھتے ہیں۔
ياد رہے كہ علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ نو آبادياتى دور كى دانش ور شخصيت ہیں۔ اس دور كے بيشتر تراجم وتفاسير ايك خاص رنگ ليے ہوئے ہیں۔ اور اس بات سے علوم اسلاميہ کے ماہرين خوب واقف ہیں ۔
برسبيل تذكرہ قرآن مجيد اور احاديث مباركہ بغير علم كے بولنے والوں کے متعلق كيا كہتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائيے :
[ARABIC]قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[/ARABIC]
ترجمہ: آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو، اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو، اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ، اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔ سورت اعراف ، آيت نمبر 33، ترجمہ: مولانا جوناگڑھی
[ARABIC]عن عبدالله بن عمرو بن العاص قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء ، حتى إذا لم يبق عالما ، اتخذ الناس رؤوسا جهالا ، فسئلوا ، فأفتوا بغير علم ، فضلوا وأضلوا . متفق عليه[/ARABIC]
عبداللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (ترجمہ : مولانا داؤد راز دہلوى )
برصغير پاك وہند کے استاذ الاساتذہ شيخ الحديث علامہ عبدالغفار حسن رحمانى اپنی مشہور كتاب : انتخاب حديث ميں "دین کے معاملہ میں غیر ذمہ دارانہ کلام کی ممانعت" كے عنوان سے درج ذيل احاديث ذكر فرماتے ہیں :
[ARABIC]عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار۔ وفي رواية من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار۔( رواه الترمذي، مشكوة، كتاب العلم ص 37)[/ARABIC]
حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : " جس نے قرآن ميں اپنی رائے سے بات كى وہ اپنا ٹھكانہ جہنم میں بنالے۔ اور ايك دوسرى روايت ميں ہے جس نے قرآن ميں علم كے بغير گفتگو كى وہ اپنا ٹھكانہ جہنم میں بنا لے۔"
[ARABIC]- عن عوف بن مالك الاشجعي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقص إلا أمير أو مأمور أو مختال[/ARABIC]۔(رواه أبو داؤد)
بروايت عوف بن مالك الاشجعي رضي الله عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: نہیں خطاب كرتا مگر امير يا مامور يا مغرور ۔

وعظ وتقرير اور خطاب كرنے كا حق امير كو ہے یا وہ جس كو امير اپنی طرف سے مقرر كر دے، ان دو صورتوں کے علاوہ اگر كوئى شخص اس منصب كو اختيار كرتا ہے تو وہ غير ذمہ دارانہ طرز عمل كا ارتكاب كرتا ہے۔ جس سے معاشرہ میں فساد وانتشار رونما ہوتا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالى ہمارے حكام، علمائے كرام اور عوام الناس كو ہدايت دے۔ ہم سب كو اپنے خوب صورت دين كا فہم اور اس كے متعلق سنجيدگی اور ذمہ دارى سے گفتگو كى توفيق عطا فرمائے۔
 
Top