مصرع طرح "عروجِ فن مری دہلیز پر اُتار مُجھے" پر ایک کاوش ( اسد اقبال)

اسد اقبال

محفلین
خزاں گُزر تو گئی کر کے تار تار مُجھے
بِکھرنے سے ہے مِلا اک عجب نِکھار مُجھے

یوں زندگی ہے لہو گُھونٹ گُھونٹ پیتا ہوں
یہ بے قراری عطا کرتی ہے قرار مُجھے

اُنہیں تو ساتھ نبھانا تھا ایک عُمر تلک
جو آج چھوڑ گئے ہیں یوں اشک بار مُجھے

رفو نیا جو کوئی زخم کرنے لگتا ہوں
تو یاد اُن کی ستاتی ہے بار بار مُجھے

بُلندی ڈرنے لگی ہے کمالِ خاک سے اب
"عروجِ فن مری دہلیز پر اُتار مُجھے"

زمانے بھر کے سبھی دُکھ خرید لیتا اسد
یہ مُفلسی نے دِیا ہی نہ اختیار مُجھے
 
یوں زندگی ہے لہو گُھونٹ گُھونٹ پیتا ہوں
یہ بے قراری عطا کرتی ہے قرار مُجھے

اُنہیں تو ساتھ نبھانا تھا ایک عُمر تلک
جو آج چھوڑ گئے ہیں یوں اشک بار مُجھے

بُلندی ڈرنے لگی ہے کمالِ خاک سے اب
"عروجِ فن مری دہلیز پر اُتار مُجھے"
بہت خوب بھیا ۔ زبردست اور لاجواب ۔ ڈھیروں داد
 
Top