مشہور شخصیات کی قیمتی یادیں 4

عین عین

لائبریرین
جب گھر کا "بیدی" لنکا ڈھانے پر آمادہ ہوا۔۔۔!
سابق ٹیسٹ کرکٹر توصیف احمد کی یادوں سے دو واقعات
عارف عزیز
سیدھے ہاتھ کے مایہ ناز آف بریک بالر، توصیف احمد نے 80ءسے 93ءکے درمیانی عرصے میں کرکٹ کے کھیل میں پاکستان کی نمائندگی کی، اور 34 ٹیسٹ میچز میں 93 وکٹیں، اور 70ون ڈے میچز میں 55 وکٹیں حاصل کیں۔ اُن کی زندگی اور کیریر دل چسپ واقعات سے پُر ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ 1987 میں پیش آیا!
قصّہ کچھ یوں ہے کہ روایتی حریف پاکستان اور انڈیا کے مابین ہونے والے بنگلور ٹیسٹ میں اُنھیں معروف انڈین اسپنر، بشن سنگھ بیدی نے ایک ایسی ٹپ دی، جسے برتتے ہوئے پاکستانی اسپنرز نے بھارت کی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ لائن کو تباہ کر دیا اور ایک ناقابل یقین فتح حاصل کرکے وہ ٹیسٹ سیریز اپنے نام کر لی۔
توصیف احمد بتاتے ہیں: ”وہ پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز تھی جس کے پہلے چار میچ ڈرا ہو گئے تھے۔ آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں منندر سنگھ کے ہاتھوں ہماری بیٹنگ لائن کا بھرکس نکل گیا تھا اور تمام بوجھ ہماری بولنگ سائیڈ پر آگیا۔ اس وقت انڈین ٹیم کے ساتھ مقابلہ ہوتا تو کھلاڑیوں پر دباو¿ بھی بہت ہوتا تھا، یہی صورت حال اس ٹیسٹ کے دوران بھی پیدا ہو گئی تھی۔ میں اور اقبال قاسم خاصے پریشان تھے، میچ ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آرہا تھا۔“
لیکن پھر توصیف احمد نے ”گھر کے ’بیدی‘ کو لنکا ڈھانے“ پر آمادہ کر لیا!
” وہ پچ بہت مشکل تھی، اقبال قاسم اور میں اس سلسلے میں خاصے پریشان تھے کہ ریسٹ ڈے میں ہماری ملاقات معروف انڈین اسپنر بشن سنگھ بیدی سے ہو گئی جس میں ہم نے اُن سے اپنی مشکل کا ذکر کیا۔ پانچ منٹ کی اُس ملاقات میں اُنھوں نے ہمیں ایک ٹپ دے دی: ’بس، بال کو لائن میں رکھو!‘
اگلے دن اس معمولی ٹپ نے میچ کا نقشہ ہی بدل دیا۔“
توصیف احمد مزید بتاتے ہیں: ”میں نے اور اقبال بھائی نے پوری انڈین ٹیم کو آو¿ٹ کر دیا اور جیت ہمارا مقدر بنی۔ سبھی کو حیرت تھی کہ ہوم گراؤنڈ نہ ہونے اور شدید دباؤ کے باوجود ہم نے کس طرح فتح انڈیا کے جبڑوں سے کھینچ لی اور اپنی جیت کو یقینی بنایا۔ جب انڈین میڈیا نے اس کام یابی سے متعلق پوچھا تو میں نے بتا دیا کہ ہم نے بیدی سے ٹپ لی تھی جس نے ہمیں جتوا دیا۔ اس پر تو واویلا مچ گیا۔ بھارتی میڈیا نے بیدی کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے ملک دشمن ہونے کا خطاب دے دیا۔ جب بیدی سے میڈیا کے نمائندوں نے بات کی، تو انھوں جواب دیا: میں تو پچھلے پچیس سال سے اپنے بولروں کو بھی یہ بات سمجھا رہا ہوں، لیکن وہ نہیں سمجھے، شاباش ہے پاکستانی بولرز پر کہ صرف ایک مرتبہ انھیں یہ ٹپ دی اور وہ اس کی بدولت میدان مار گئے۔“
توصیف احمد کی قومی ٹیم میں شمولیت کا قصّہ بھی کم دل چسپ نہیں اور اُن کے لیے ایک خوب صورت یاد ہونے کے ساتھ ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔
تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ برطانیہ سے آئے ہوئے جاوید صادق نامی صاحب نے ایک انگریزی روزنامے کے لیے مضمون لکھا تھا، جس میں پاکستانی ٹیم کے لیے آف بریک بولر کی ضرورت اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے پی ڈبلیو ڈی سے کھیلنے والے ایک باصلاحیت نوجوان کی نشان دہی کی گئی تھی۔ یہ توصیف احمد ہی تھے!
80ءمیں آسٹریلیا کی ٹیم دورے پر آئی ہوئی تھی۔ پاکستانی ٹیم کے مینیجر مشتاق محمد اور کپتان جاوید میاں داد تھے۔ جاوید صادق کی مشتاق محمد اور ماجد خان سے اچھی سلام دعا تھی اور اسی لیے کراچی میں کیمپ لگا تو جاوید صادق نے توصیف احمد کو کیمپ جوائن کرنے کے لیے کہا۔ تذبذب کا شکار توصیف احمد کیمپ کے پہلے دن نہیں گئے، تو دوسرے دن جاوید صادق خود اُنھیں لے کر وہاں پہنچ گئے!
توصیف احمد کے بہ قول،”اپنے ہیروز کو اتنے قریب سے دیکھنا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ دو دن ٹیم کے ساتھ نیٹ پریکٹس کی۔ تیسرے دن ایک غیر رسمی میچ ہوا، اور چوتھے دن میں نے اپنے کیریر کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔“
یعنی ان کا پہلا ٹیسٹ میچ ہی اُن کی زندگی کا پہلا فرسٹ کلاس میچ تھا۔ اگرچہ یہ واقعہ بعید ازقیاس معلوم ہوتا ہے، لیکن کرکٹ کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا حقیقتاً ہوا تھا۔
توصیف احمد کے بتاتے ہیں کہ اُنھیں منتخب ہونے کی قطعی امید نہیں تھی، اُن کے پاس تو جوتے، پیڈز، ہیلمٹ اور بیٹ جیسی بنیادی اشیاءبھی نہیں تھیں۔ عجلت میں اُن کا ”کٹ بیگ“ تیار ہوا۔ میچ والے دن وہ اپنے سائز سے ایک نمبر چھوٹا جوتا پاﺅں میں پھنسائے میدان میں اترے۔ نتیجہ؟ واپسی میں اُن کی ایڑھی سے خون رس رہا تھا۔
توصیف احمد کے بہ قول،”شاید نیٹ پریکٹس کے بعد سینیرز نے مجھے کھلانے کا فیصلہ کیا تھا۔“ اور یہ فیصلہ کسی طور غلط نہیں تھا۔ پہلی اننگز میں چار وکٹیں لے کر توصیف نے سبھی کو حیران کر دیا۔ اگلی اننگز میں اُن کے حصے میں تین وکٹیں آئیں۔ اُن کے بہ قول،”وہ ایک خواب تھا۔ اُس وقت تو مجھے ہوش ہی نہیں تھا۔ تمام سینیرز نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ اُس میچ میں اقبال بھائی (اقبال قاسم) نے گیارہ وکٹیں حاصل کی تھیں، وہ مین آف دی میچ ضرور تھے، تاہم اُنھوں نے ہر موقعے پر مجھے ہی آگے رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اقبال بھائی نے کیریر کے ہر موڑ پر میری راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی۔“

ایکسپریس سنڈے میگزین میں شایع شدہ
 
Top