مشرف کاآرمی ایکٹ کےتحت ٹرائل کامطالبہ،منصورالحق کوانکار کیا

اسلام آباد(تجزیہ :…انصار عباسی) سنگین غداری کے گھناؤنے الزامات کا سامنا کرنے والے سابق آرمی چیف جنرل (ر) مشرف آج اپنے آپ کےلیے جو مطالبہ کررہے ہیں، وہی رعایت انہوں نے سابق نیول چیف منصور الحق کو دینے سے انکار کیا تھا حالانکہ منصور الحق مشرف کے مقابلے میں قدرے چھوٹے جرم میں ملوث تھے۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف چاہتے ہیں کہ سنگین غداری کے جرم میں انکا ٹرائل آرمی ایکٹ کے ذریعے کیا جائے اور انہوں نے اپنے آدمیوں سے یہ پروپیگینڈا کیا کہ انکے ٹرائل کا مطلب ہے پاک فوج کا ٹرائل ہونا۔ تاہم جب مشرف اقتدار میں تھے تو انہوں نے پاک بحریہ کے سابق سربراہ کو گرفتار کرواکر ہتھکڑیاں لگوائیں اور انہیں نیب کے ذریعے سزا دلوائی۔ مشرف کے دور اقتدار میں اُن دنوں سابق نیول چیف کے ٹرائل کو پاکستان نیوی کا ٹرائل قرار دینے کیلئے ایک بھی آواز بلند نہیں ہوئی تھی۔ مشرف حکومت نے ایڈمرل منصور الحق کا بھی نیول ایکٹ کے ذریعے ٹرائل نہیں کروایا تھا بلکہ انکا ٹرائل نیب کے ذریعے کروایا تھا۔ منصور الحق ریٹائرڈ تھے اور نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار( 1997-98 ) میں انہیں نیب نے طلب کیا لیکن بعدازاں وہ امریکا چلے گئے۔ نواز شریف کی حکومت کی رخصتی کے جنرل مشرف نے جارحانہ انداز سے سابق نیول چیف کے خلاف بدعنوانی کے کیس کی پیروی کی۔ پاکستان میں ان پر مقدمہ چلانے کےلیے امریکا سے انکی حوالگی معاملہ اٹھایا۔ مشرف کی ذاتی دلچسپی کی بناء پر ایڈمرمل منصور الحق کو اگسٹا کلاس آبدوز کے معاہدے میں کمیشن وصول کرنے کی پاداش میں امریکا میں 2001میں گرفتار کیا گیا اور مشرف کی جانب سے واشنگٹن سے انکی حوالگی کے مطالبے کے انکی پاکستان واپسی ہوئی۔ انکی واپسی پر انہیں نیب نے گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگائیں۔ 1994 میں انہیں بطور نیول چیف اگسٹا ابدوز کے معاہدے کے اسکینڈل میں شامل کیا گیا ساتھ ہی انہیں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن(پی این ایس سی) میں بدعوانی کے الزامات درپیش تھے۔ 2004 میں انہیں 7 سال قید بامشقت اور 2کروڑ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ تاہم منصور الحق کافی عرصہ گرفتار رہنے کے بعد پی این ایس سی میں بدعنوانی کے الزامات کا مقدمہ جیت گئے، نیب نے عدالت کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔ بعد ازاں قومی احتساب بیورو نے منصور الحق کی جانب سے 45 کروڑ75 لاکھ روپے( 75لاکھ ڈالر) کی ادائیگی کے عوض انہیں آزاد کرنے اور انکے خلاف بدعوانی کے مقدمات ختم کرنے کی ایک غیر معولی پیشکش قبول کرلی، یہ رقم ایڈمرل کے 1270 برس کی تنخواہ کے مساوی ہے جبکہ مذکورہ رقم پاکستان میں نیوی کے تمام اہلکاروں کی2 سال تنخواہ کے برابر ہے۔ منصور الحق نیول چیف تھے اور انہیں کرپشن کے الزامات کا سامنا تھا پھر بھی انکا ٹرائل سول قوانین کے تحت اس وقت کے آرمی چیف اور انکی حکومت کی جانب سے کیا گیا۔ پاکستان کی دفاعی افواج پاکستان نیوی ، پاک فوج اور پاک فضائیہ پر مشتمل ہیں۔ بری فوج، فضائیہ اور پاک بحریہ پاکستانی کی تینوں دفاعی افواج کی قوت حیات پاکستان کا دفاع ہے۔ پاک بحریہ اور فضائیہ کے بجائے پاک فوج کے جرنیل آئین کی منسوخی اور مارشل لاء کے نفاذ میں پیش پیش رہے، جس نے پاک فوج دیگر دونوں مسلحہ افواج کے مقابلے میں متنازع بنادیا۔ اگر مشرف نے سابق نیول چیف کا ٹرائل سول قوانین کے تحت کرانا موزوں سمجھا تو وہ انتہائی سنگین ترین نوعیت کے جرم کا ارتکاب کرنے کے باوجود خصوصی سلوک کے متقاضی ہیں۔ مشرف کے کیس میں عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ انہوں نے آئین معطل کیا۔ اگر اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف کی جانب سے سابق نیول چیف منصورالحق کے خلاف عام سویلین قوانین کے تحت ضابطہ فوجداری کی کارروائی کرانے سے پاک بحریہ کے ادارے کی تضحیک اور تحقیر نہیں ہوئی تو مشرف کے کیس میں اسکے برخلاف کیسے ہوسکتا ہے؟
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=162845
 
مشرف اپنے آپ کو بچانے کے لئے اسی قانون کو ماننے سے انکار کر رہا ہے جس کے تحت دوسروں کا اس نے خود ٹرائل کیا۔ اسے منافقت بھی کہ سکتے ہیں
 
Top