عدم مسکرا کر خطاب کرتے ہو ۔ عبدالحمید عدم

فرخ منظور

لائبریرین
مسکرا کر خطاب کرتے ہو
عادتیں کیوں خراب کرتے ہو

مار دو مجھ کو رحم دل ہو کر
کیا یہ کارِ ثواب کرتے ہو

مفلسی اور کس کو کہتے ہیں
دولتوں کا حساب کرتے ہو

صرف اک التجا ہے چھوٹی سی
کیا اسے باریاب کرتے ہو؟

ہم تو تم کو پسند کر بیٹھے
تم کسے انتخاب کرتے ہو

خار کی نوک کو لہو دے کر
انتظارِ گلاب کرتے ہو

یہ نئی احتیاط دیکھی ہے
آئینے سے حجاب کرتے ہو

کیا ضرورت ہے بحث کرنے کی
کیوں کلیجہ کباب کرتے ہو

ہو چکا جو حساب ہونا تھا
اور اب کیا حساب کرتے ہو

ایک دن اے عدمؔ نہ پی تو کیا
روز شغلِ شراب کرتے ہو

کتنے بے رحم ہو عدمؔ تم بھی
ذکرِ عہدِ شباب کرتے ہو

ہو کسی کی خوشی گر اس میں عدمؔ
جرم کا ارتکاب کرتے ہو

(عبدالحمید عدمؔ)
 
Top