مسلمانو " روزہ معاف کرالو " .

مختصر افسانہ​
مصنف : حسیب احمد حسیب​
مسلمانو " روزہ معاف کرالو " .​
ابھی میں اس پری کی مخروطی انگلیاں تھامے انگوٹھی پہنانے جا ہی رہا تھا کہ اماں بی کی کرخت آواز کانوں میں دھماکے کی طرح گونجی اور پری گھبرا کر پھڑ پھڑاتی ہوئی اڑن چھو ہو گئی آواز کچھ یوں آ رہی تھی ...​
اٹھ جا کمینے اٹھ کر روزہ معاف کروالے چل اٹھ جا آج میں ہڈ حراموں کو سحر و افطار کروانے والی نہیں چل اٹھ وقت نکلا جا رہا ہے ...​
ہائیں میں خواب میں ہی ہونق ہو چکا تھا یہ سچائی ہے یا میں نیند میں ہوں نیند میں تو میں ہوں تو پھر یہ آواز کیسی ہے کہیں میرا آخری وقت تو نہیں آ گیا سنا ہے قیامت کے دن روزہ معاف ہوجاوے گا نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ابھی میں نے ملک الموت کا سامنا کرنے کا موڈ بنانا شروع ہی کیا تھا کہ جوتی میزائل کا اٹیک ہوا اس سے پہلے کہ جھاڑو حملے کی نوبت آتی میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ارے کیا اول فول بک رہی ہو اماں بی کیا ہو گیا سروتہ کھینچ کر مارونگی ابھی اماں بی کہ جو پاندان کھولے بیٹھی تھیں انہوں نے مجھے دھمکایا ...​
آخر ہوا کیا ہے ...؟ میں نے جھنجلا کر پوچھا ...!​
ارے بے وقوف روزہ معاف ہو رہا ہے جا تو بھی جا کر معاف کروالے میں نے گھڑی دیکھی ڈھائی کا وقت تھا ابھی اماں بی کے سٹھیانے کا ٹائم تو نہیں ہوا تھا اچانک کانوں میں آواز گونجی کوئی لاؤڈ اسپیکر پر صدا لگا رہا تھا​
مسلمانو ...! روزہ معاف کرالو​
اٹھ جاؤ مسلمانو ... ! روزہ معاف کرانے ٹائم ہو گیا ہے مسلمانو ... ! جلدی جلدی آؤ روزہ معاف ہوا چاہتا ہے ..​
ہائیں ...​
اتنا ہونق تو میں اس وقت بھی نہ ہوا تھا کہ جب باھو بلی کا مفت ٹکٹ ملا تھا میں بے اختیار گھر سے باہر نکلا​
کیا منظر دیکھتا ہوں کہ قوت بیان عاجز ہوکر اظہار سے قاصر ہوئی جاتی تھی​
عجیب منظر ہے رات کے اس پہر جنگل میں منگل کا سما ہے چہار طرف روشنی پھیلی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کہ چاند زمین پر اتر آیا ہے اپنے گھروں کی بالکنیوں میں کھڑی سندر ناریاں ہاتھ لہرا لہرا کر خوشی کا اظہار فرما رہی ہیں جسکو دیکھو شاداں و فرحاں ہاتھوں میں خوبصورت رنگ برنگے سرٹیفیکٹس لیے چلا آتا ہے ایک جانب ایک لمبی قطار جا رہی ہے ..​
ابھی میں اس خوبصورت منظر میں مدہوش ہوا جاتا تھا کہ اچانک کسی نے میری گدی ناپی یہ چچا جگاڑی تھے .. یہاں کیوں کھڑا ہے کسی آوارہ گیڈر طرح ..​
چل چل کر روزہ معاف کروالے اور یہ الو کی طرح دیدے نہ مٹکا یہ حقیقت ہے مجدد دوراں فقیہ زماں حضرت چریاکوٹی صاحب تشریف لے آئے ہیں چل دنیا بدل رہی ہے تو بھی اس تبدیلی کا حصہ بن جا ...​
میں دل ہی دل میں چچا جگاڑی پر لعنت بھیجتا ہوا انکے پیچھے قطار میں لگ گیا گلی سے نکلا تو کیا منظر دیکھتا ہوں مرد و عورت غول در غول سوسائٹی کے درمیان موجود چمن عاشقاں کی جانب خراماں خراماں چلے جاتے ہیں سو میں بھی اچک اچک کر چمن عاشقاں کی اور چل پڑا ..​
چمن کے سارے در کسی عاشق کے گریبان اور کسی معشوقہ کی قبا کے بندوں کی طرح کھلے پڑتے تھے ایک خوبصورت ریڈ کارپٹ تھا کہ جو ہر دروازے سے کسی باندر کی زبان کی طرح چمن کے بیچ فوارے تک چلا جاتا تھا میں بھی ایک سرخ قالین پر ہو لیا قالین کے طرفین خوبصورت کنواری کنیائیں قالین پر چلنے والوں کے اوپر گل پاشی کرتی جاتی تھیں اور ہم بوئے گل کی بھینی بھینی خوشبو سے مسحور ہوئے چلے جاتے تھے ...​
فوارے کے چاروں طرف خوبصورت لائٹنگ تھی اور فوارہ رنگدار پانی پھینک رہا تھے درمیان میں ایک نقشین تخت لگا تھا کہ جسپر ایک نستعلیق بزرگ براجمان تھے ٹیکنی کلر شیروانی سر پر قراقلی ٹوپی پیروں میں سلیم شاہی جوتے اور منہ میں بدیسی سگار کہیں سے آواز آئی یہی تو ہیں حضرت علامہ پیر مغاں مجدد دوراں امام مغرب سلام مشرق چریا کوٹی صاحب ...​
فواروں کی خوبصورت دھاروں میں رنگ رنگ ہوتے علامہ کے ہر دو اطراف سرو قد خوبصورت نشیب و فراز کی حامل پرشین حسینائیں مور کے پنکھ جھلتی تھیں سامنے ہی ایک بڑی میز پر رنگ برنگی خوبصورت اسانید دھری تھیں اور علامہ کا تخت ریوال ونگ تھا کہ جو مدھر موسیقی کی لے کے ساتھ مہو گردش تھا آنے والے چہار راستوں سے آتے اور رنگ و نور کی بارش میں بھیگتے ہوئے اپنے اپنے حصے کی سند لیکر آداب و تسلیمات کرتے ہوئے چلتے بنتے ...​
ایک جانب ایک درویش رقصاں تھا تو دوسری جانب ایک مستانی مٹک رہی تھے درویش بار بار وجد کے عالم میں نعرہ حق بلند کرتا ..​
سب کو معاف .... سب کو معاف اور مستانی ہر ہر بار معاف کی "ف" کے ساتھ سر سے سر ملاتی​
ترتیب کچھ یوں تھی​
درویش ... سب کو معاف .. مستانی لے ملاتے ہوئے ... میف .....​
معاف ..... میف ..... معاف ..... میف ..... معاف .... میف ..... معاف ... میف .....​
ابھی ہم اس سر تال میں ہی مگن تھے کہ نستعلیق بزرگ کے تخت شاہی کے قریب جا پہنچے ...​
کیا دیکھتے ہیں کہ در دولت کھلا ہے فیض عام جاری ہے ہر کس و ناکس مستفید ہو رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ خزانوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ہو ..​
ایک جوان رعنا آگے بڑھتا ہے استازی امتحان علامہ سامنے پڑا ہتھوڑا اٹھا کر حکم لگاتے ہیں ... معاف بیک گراونڈ میں درویش کا نعرہ حق بلند ہوتا ہے ... معاف .. پیچھے سے مستانی ککڑی کی طرح کوکتی ہے ... میف .... میف ...​
ایک لونڈیا آگے آتی ہے حضور شاپنگ ... ہتھوڑا برستا ہے ... معاف .. درویش اور مستانی روٹین میں لگے ہوئے ہیں ...​
معاف .... میف .... میف ...​
اب تو ایک سلسلہ دکھائی دیتا ہے ... ایک نیا نویلا دولہا استاذی شادی ... استاذی شریر .... چل معاف ... ہتھوڑا برستا ہے ...​
ایک گونگلو بدن آنٹی ... بھیا گرمی ... استاذی ... معاف ... ہتھوڑا ... ڈھن .. ایک مدقوق بڈھا ... بابو قبض ... استاذی .... معاف ... ہتھوڑا ... ڈھن .. ایک خوبصورت دوشیزہ ... جانو ..... استاذی .... معاف معاف ... ہتھوڑا ... ٹن ٹن ٹنا ٹن ٹن ٹنا​
بیک گراؤنڈ میں بجتی جلترنگ​
معاف .... میف .... میف ...​
ابھی ہم اس منظر میں مگن ہی ہوتے ہیں کہ اچانک دھکا لگتا ہے اور ہم استاذی کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں ...​
استاذی ہمیں گھورتے ہیں ہم استاذی کو تاڑتے ہیں انکی نگاہیں سوال کرتی ہیں ہمارے ہونٹ خاموش ہو جاتے ہیں​
ہائیں ہم کیا کہیں ہمارے پاس تو کوئی عذر بھی نہیں اب ہمارا روزہ کیسے معاف ہوگا​
ابھی یہ گستاخانہ خیالات ہمارے مغز میں کلبلا ہی رہے ہوتے ہیں کہ ااستاذی کا چہرہ جلال میں سرخ قندھاری انار کی مانند چمک اٹھتا ہے​
تو کیا سمجھتا ہے ہمارے در سے خالی جاوے گا لے معاف ... استاذی ہتھوڑا ایسے گھماتے ہیں کہ جیسے ہمارے منہ پر ہی دے ماریںگے ....​
ایک چندن ناری لچکتی ہوئی آتی ہے اور ایک خوبصورت ریشمی سند ہمارے ہاتھوں میں تھما دیتی ہے​
پیچھے سے درویش کا نعرہ حق بلند ہوتا ہے .... معاف ... مستانی کوکتی ہے ..... میف ..... میف ..... ہتھوڑا بجتا ہے .... ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن ڈھن .....​
ہم ہتھوڑے کی خوبصورت تال پر شادی مرگ کی کیفیت میں رقص کرتے ہوئے ریڈ کارپٹ سے باہر آتے ہیں اور سامنے رقص کرتی ہوئی ایک فربہی مائل آنٹی سے بغلگیر ہو جاتے ہیں ابھی ہم اس سوز و گداز کو محسوس ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ...​
ڈھن ڈھن کی خوبصورت تال دھم دھم کے دھموکوں میں بدل جاتی ہے اچانک پیٹھ پر دو ہتڑ پڑتے ہیں ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو علامہ چریا کوٹی کی شکل دھندلی ہوئی جاتی ہے اور انکے منہ سے آواز نکلتی ہے ...​
کمینے ... پیچھے سے درویش کی ہیت بدلتی ہے اور وہ بھی نعرہ حق بلند کرتا ہے کمینے .... مستانی بھی بدلی بدلی لگتی ہے وہ بھی تال ملاتی ہے .... کمینے ...​
اور اچانک اماں بی کا چہرہ نمودار ہوتا ہے اٹھ جا کمینے ... سحری کا وقت نکلا جاتا ہے اگر مرتا بھی ہوا تو روزہ ضرور رکھنا پڑے گا چل اٹھ کچھ کھا مر لے ہم مڑتے ہیں تو بانہوں میں فربہی مائل آنٹی کی جگہ گاؤ تکیہ ہوتا ہے اچانک ایک کھٹمل نمودار ہماری ستواں ناک کا بانسہ چومتا ہے اور ہم حیران و پریشان اٹھ بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں​
پھر وہی دل تھا، وہی ماتم، وہی درد و قلق خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا​
حسیب احمد حسیب​
 
Top