جون ایلیا مستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی، بُھول گئے

نور وجدان

لائبریرین
مستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی، بُھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی، بُھول گئے
یُوں مُجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا میرے دوست میری سادہ دلی بُھول گئے
میں تو بے حِس ہوں، مُجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روشِ چارہ گری بُھول گئے؟
اب میرے اشکِ محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بُھول گئے
اب مُجھے کوئی دِلائے نہ محبت کا یقیں
جو مُجھے بُھول نہ سکتے تھے وہی بُھول گئے
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام، کہ ہم
اپنا گھر بُھول گئے، ان کی گلی بُھول گئے
کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بُھول ہوئی، بُھول گئے

جونؔ ایلیا
 
Top