مزاح پلس سے ماخوذ : شہنشاہ اکبر کے دور میں ہونے والے تاریخی مناظرے کا حال

سید زبیر

محفلین
مناظرہ
{شہنشاہ اکبر کے دور میں ہونے والے تاریخی مناظرے کا حال }
شہنشاہ اکبر کے دور میں ایک ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ کا مشہور تاریخی مناظرہ منسوب کیا جاتا ھے ۔جس میں شرکا کو زبان کی بجائے صرف اشاروں سے کام لینا تھا رویت کے مطابق جب ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ آمنے سامنے بیٹھ گئے تو ایرانی عالم نے اپنی انگشت شہادت بلند کی ،ملا نے جواب میں اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ایرانی کے چہرے کے سامنے لہرائی ایرانی نے اثبات میں سر ہلایا ۔اُس کے بعد اُس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر ملا کے سامنے کیا جواب میں ملا نے داہنا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند کیا اور ایرانی کے سامنے مکّے کی طرح بلند کیا ایرانی نے ستائش کے انداز میں سر ہلایا پھر اُس نے اپنے آدمی کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اپنی جیب سے انڈا نکال کر ملا کے سامنے رکھ دیا ۔ملا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اپنے آدمی کے کان میں سرگوشی کی وہ ذرا سی دیر میں ایک پیاز لے آیا جسے ملا نے ایرانی کے رکھے ہوئے انڈے کے ساتھ رکھ دیا ایرانی نے بے ساختہ کھڑے ہو کر ملا کو گلے لگا لیا اور واخح الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ملا کی علمی قابلیت اور حاضر دماغی کی زبردست تعریف کی بادشاہ نے حسب اعلان اپنے گلے سے بیش قیمت موتیوں کی مالا اتار کر ملا کے گلے میں ڈال دی اور خلعت و زر نقد بھی عطا کیا ملا فتحیاب اور کامران دربار سے رخصت ہو گیا
بعد میں شہنشاہ نے ایرانی عالم سے سوال و جواب کی تشریح چاہی تو اُس نے کہا ' جہاں پناہ آپ کا عالم بے حد ذہین ، غضب کا حاضر دماغ اور علم و فن کا استاد ہے ۔ میں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ دیا کہ اللہ ایک ہے ملا نے جواب میں دو انگلیاں دکھا کر واضح کیا کہ مسلمانوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جواب درست تھا ۔پھر میں نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ قادر مطلق کی کائنات ہتھیلی کی طرح وسیع اور پھیلی ہوئی ہے ۔جواب ملا کہ اس کے باوجود وہ اللہ کریم کے مکمل قبضہ قدرت میں ہیں اس طرح جیسے مٹھی میں بند کوئی چیز۔بڑی معقول تشریح تھی چنانچہ مجھے تسلیم
کرنا پڑی جہاں پناہ تیسرا مسئلہ میں نے انڈا دکھا کر پیش کیا کہ زمین شکل و صورت کے اعتبار سے انڈے کی طرح گول ہے ۔ملا نے پیاز دکھا کر تصحیح فرمائی کہ سات آسمان اور زمین پیاز کی طرح تہ بہ تہ لپٹے ہوئے ہیں تینوں جوابات مُسکت اور از حد عالمانہ تھے چنانچہ مجھے ملا کی علمیت تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں " ۔ اگلے روز بادشاہ نے ملا دو پیازہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا ' عالم پناہ وہ عالم کہاں کا تھا ، ایک جاہل اور گھامڑ تھا چناچہ معیار کم کرکے اُس کی سطح پر آکر جواب دینا پڑا ، وہ کیسے ' بادشاہ نے تعجب سے دریافت کیا حضور اُس نے بیٹھتے ہی اپنی انگلی میری آنکھ کی طرف بڑھائی اور دھمکی دی کہ میں تیری آنکھ پھوڑ دونگا '
پھر ؟
جہاں پناہ میں نے جواب میں اشارہ دیا کہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دونگا اِس پر وہ اور زیادہ بد تمیزی پر اُتر آیا اور اشارہ دیا کہ تھپڑ ماروں گا ۔
اچھا ؟ بادشاہ نے سمجھتے ہوئے کہا ' جی عالم پناہ ، میں نے جواب دیا کہ ایسا گھونسہ ماروں گا کہ بتیسی باہر نکل آئے گی پھر جہاں پناہ ، وہ مجھے انڈا دکھانے لگا کہ میں یہ کھاتا ہوں اتنی طاقت ہے کہ میں تمہارا بھرکس نکال دوں گا ۔ واقعی ، ؟ جی جہاں پناہ ، لیکن بندے نے جواب میں پیاز دکھا ئی کہ یہ انڈے میں ملا کر کھاتا ہوں جس سے طاقت دس گنا ہو جاتی ہے اس لیے جان نکال دوں گا بس عالی جاہ ، پھر حضور کے اقبال کی بدولت وہ بھاگ نکلا ۔ "
ماخوز ازمزاح پلس ۔۔کراچی​
 

مہ جبین

محفلین
واہ واہ بہت ہی زبردست مناظرہ تھا :p
ملا دوپیازہ کی علمی قابلیت تو کھل کر سامنے آگئی :LOL:
اور بیچارہ ایرانی عالم تو اتنا شریف اور خوش گمان تھا اور پھر بھی اس نے ایسے کی قابلیت کو تسلیم کیا :D
بہت شکریہ سید زبیر بھائی اتنے اچھے مناظرے کی روداد سنانے کا:heehee:
 
مناظرہ
{شہنشاہ اکبر کے دور میں ہونے والے تاریخی مناظرے کا حال }
شہنشاہ اکبر کے دور میں ایک ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ کا مشہور تاریخی مناظرہ منسوب کیا جاتا ھے ۔جس میں شرکا کو زبان کی بجائے صرف اشاروں سے کام لینا تھا رویت کے مطابق جب ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ آمنے سامنے بیٹھ گئے تو ایرانی عالم نے اپنی انگشت شہادت بلند کی ،ملا نے جواب میں اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ایرانی کے چہرے کے سامنے لہرائی ایرانی نے اثبات میں سر ہلایا ۔اُس کے بعد اُس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر ملا کے سامنے کیا جواب میں ملا نے داہنا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند کیا اور ایرانی کے سامنے مکّے کی طرح بلند کیا ایرانی نے ستائش کے انداز میں سر ہلایا پھر اُس نے اپنے آدمی کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اپنی جیب سے انڈا نکال کر ملا کے سامنے رکھ دیا ۔ملا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اپنے آدمی کے کان میں سرگوشی کی وہ ذرا سی دیر میں ایک پیاز لے آیا جسے ملا نے ایرانی کے رکھے ہوئے انڈے کے ساتھ رکھ دیا ایرانی نے بے ساختہ کھڑے ہو کر ملا کو گلے لگا لیا اور واخح الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ملا کی علمی قابلیت اور حاضر دماغی کی زبردست تعریف کی بادشاہ نے حسب اعلان اپنے گلے سے بیش قیمت موتیوں کی مالا اتار کر ملا کے گلے میں ڈال دی اور خلعت و زر نقد بھی عطا کیا ملا فتحیاب اور کامران دربار سے رخصت ہو گیا
بعد میں شہنشاہ نے ایرانی عالم سے سوال و جواب کی تشریح چاہی تو اُس نے کہا ' جہاں پناہ آپ کا عالم بے حد ذہین ، غضب کا حاضر دماغ اور علم و فن کا استاد ہے ۔ میں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ دیا کہ اللہ ایک ہے ملا نے جواب میں دو انگلیاں دکھا کر واضح کیا کہ مسلمانوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جواب درست تھا ۔پھر میں نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ قادر مطلق کی کائنات ہتھیلی کی طرح وسیع اور پھیلی ہوئی ہے ۔جواب ملا کہ اس کے باوجود وہ اللہ کریم کے مکمل قبضہ قدرت میں ہیں اس طرح جیسے مٹھی میں بند کوئی چیز۔بڑی معقول تشریح تھی چنانچہ مجھے تسلیم
کرنا پڑی جہاں پناہ تیسرا مسئلہ میں نے انڈا دکھا کر پیش کیا کہ زمین شکل و صورت کے اعتبار سے انڈے کی طرح گول ہے ۔ملا نے پیاز دکھا کر تصحیح فرمائی کہ سات آسمان اور زمین پیاز کی طرح تہ بہ تہ لپٹے ہوئے ہیں تینوں جوابات مُسکت اور از حد عالمانہ تھے چنانچہ مجھے ملا کی علمیت تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں " ۔ اگلے روز بادشاہ نے ملا دو پیازہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا ' عالم پناہ وہ عالم کہاں کا تھا ، ایک جاہل اور گھامڑ تھا چناچہ معیار کم کرکے اُس کی سطح پر آکر جواب دینا پڑا ، وہ کیسے ' بادشاہ نے تعجب سے دریافت کیا حضور اُس نے بیٹھتے ہی اپنی انگلی میری آنکھ کی طرف بڑھائی اور دھمکی دی کہ میں تیری آنکھ پھوڑ دونگا '
پھر ؟
جہاں پناہ میں نے جواب میں اشارہ دیا کہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دونگا اِس پر وہ اور زیادہ بد تمیزی پر اُتر آیا اور اشارہ دیا کہ تھپڑ ماروں گا ۔
اچھا ؟ بادشاہ نے سمجھتے ہوئے کہا ' جی عالم پناہ ، میں نے جواب دیا کہ ایسا گھونسہ ماروں گا کہ بتیسی باہر نکل آئے گی پھر جہاں پناہ ، وہ مجھے انڈا دکھانے لگا کہ میں یہ کھاتا ہوں اتنی طاقت ہے کہ میں تمہارا بھرکس نکال دوں گا ۔ واقعی ، ؟ جی جہاں پناہ ، لیکن بندے نے جواب میں پیاز دکھا ئی کہ یہ انڈے میں ملا کر کھاتا ہوں جس سے طاقت دس گنا ہو جاتی ہے اس لیے جان نکال دوں گا بس عالی جاہ ، پھر حضور کے اقبال کی بدولت وہ بھاگ نکلا ۔ "
ماخوز ازمزاح پلس ۔۔کراچی​
:laugh:
 

نایاب

لائبریرین
تفصیلی وقت کی متقاضی ہے یہ تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر وقت ملا تو کوشش کروں گا کچھ لفاظی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک اچھی شراکت
 

یوسف-2

محفلین
بہت خوب :D
ملا دوپیازہ کی کیا بات ہے۔ لیکن اُن کی بیگم بھی اُن سے کم نہ تھیں :p
راوی روایت کرتا ہے کہ ایک مرتبہ ملا کو گھر کے باہر سے دو افراد کے زور و شور سے لڑنے کی آواز آئی۔ ملا باہر نکلے اور ماجرا پوچھا تو ایک نے اپنی رام کہانی سنائی۔ ملا نے کہا کہ کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو۔ اس پر دوسرے نے اعتراض کیاکہ آپ میری بات سنے بغیر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی بات درست ہے۔ پھر اُس نے اپنی کہانی سنائی۔ ملا نے دوسرے کی بات سُن کر کہا کہ کہتے تو تم بھی ٹھیک ہی ہو۔ :D ملا کی بیگم جو دروازہ سے لگی سارا معاملہ سُن رہی تھی، فوراً باہر نکل آئی اور کہنے لگی کہ ملا جی ! یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ دونوں درست بھی ہوں اور آپس میں لڑ بھی رہے ہوں۔ ان میں سے کوئی ایک تو غلط ہوگا ہی۔ ملا نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولے۔ بھاگوان! کہتی تو تم بھی ٹھیک ہی ہو۔۔۔ تو یہ تھے ہمارے ملا دوپیازہ جی :p
 
مزیدار کہانی ہے۔۔۔
ایک اور واقعہ ملا دوپیاذہ سے منسوب ہے۔ (دروغ بر گردنِ راوی)۔۔۔کہتے ہیں کہ جہانگیر کے زمانے میں ایران سے ایک مشہور عالم (ملا شوستری) تشریف لائے۔ جہانگیر کی اہلیہ یعنی نورجہاں اہلِ تشیع سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ جہانگیر اہلِ سنت سے وابستہ تھا۔ ملا شوستری دربار میں آکر کسی سنی عالم سے مناظرے کے طلبگار ہوئے۔ ملکہ نور جہاں نے بھی انکی حمایت کی، چنانچہ جہانگیر نے اپنے زمانے کے مشہور عالم جناب عبدالحق محدث دہلوی کو اہلِ سنت کی طرف سے مناظرے کیلئے طلب کیا۔ انہوں نے ضعیف العمری کا عذر پیش کرکے مناظرے میں شمولیت سے معذرت کرلی۔ چنانچہ ملا دو پیاذہ کو طلب کیا گیا۔
مناظرے کا آغاز ملا شوستری نے کیا اور ملا دو پیاذہ سے کہا کہ :
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب اپنی کتبِ حدیث یعنی بخاری و مسلم سے بیان کرو۔
چنانچہ ملا دو پیاذہ نے وہ تمام احادیث جو بخاری و مسلم میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں، انکو بیان کیا۔ جب احادیث بیان کرچکے تو ملا شوستری نے اگلا سوال کرنے کیلئے لب کشائی کی لیکن انکے کچھ بولنے سے پہلے ملا دو پیاذہ نے انکو روک دیا اور کہا کہ پہلے آپ نے سوال کیا تھا اور میں نے جواب دیا، اب میری باری ہے سوال کی اور آپ جواب دیں گے۔
ملا شوستری مناظرے کے اس Trick کو سمجھ نہ سکے اور ملا دو پیاذہ کی بات مان گئے کہ چلو ٹھیک ہے اب تم کہو۔
ملا نے کہا؛
شیخ سلیم چشتی کے مناقب بیان کرو اپنی کتب سے۔
ملا شوستری شیخ سلیم چشتی نامی کسی بھی شخصیت سے واقف نہ تھے۔ اور ملا دو پیاذہ کا یہ سوال انہیں خاصا غیر متعلقہ بلکہ احمقانہ لگا۔ چنانچہ جھلا کر قدرے غصے سے کہنے لگے:
یہ ۔۔۔(فلاں فلاں) کون ہے، میں نہیں جانتا۔
ملا دو پیاذہ نے فوراّ جہانگیر کی طرف منہ کیا اور طیش دلانے والے انداز میں کہنے لگے؛
حضور !، یہ دیکھئے یہ ملا آپکے پیر و مرشد کی شان میں کیا گستاخانہ الفاظ استعمال کر رہا ہے۔
جہانگیر نے فوراّ مناظرے کو ختم کرنے کا حکم دیا اورغیظ و غضب کے عالم میں ملا شوستری کو ہاتھی کے پاؤں سے روند کر ہلاک کرنے کا حکم جاری کردیا۔ کہتے ہیں کہ جہانگیر اس قدر غصے میں تھا کہ اسکی لاڈلی ملکہ یعنی نور جہاں کو بھی مداخلت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔۔۔
چنانچہ یہ تھے ہمارے ملا دو پیاذہ۔
:p:D
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب:laugh:
ویسے جناب ملا دو پیازہ کی وجہ تسمیہ کسی کو معلوم ہو تو شئیر کریں۔


ملاّ دو پیازہ کا اصل نام ابوالحسن بن ابو المحاسن بن ابو المکارم تھا۔ مکّہ معظمہ کے قریب شہر طائف میں (عرب)میں 1540؁ کو پیدا ہوئے۔فطری طور پر ہنسوڑاورظریف تھے۔ ہنسنا ہنسانا عاد ثانیہ تھی۔ اس کے والد اس کی سوتیلی ماں سے لڑ جھگڑ کر گھر سے نکل گئےتو یہ اپنے والد کی تلاش میں نکلےاور قافلا در قافلہ پھرنے لگے۔آخرکار ایک ایرانی قافلے کے ہمراہ ایران پہنچے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نصیر الدین ہمایوں،شیر شاہ سوری سےشکست کھا کر امداد لینے ایران آیا ہوا تھا۔ہمایوں کے سپہ سالار بخش اللہ خان اور ایرانی سپہ سالار اکبر علی کی آپس میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔ابو الحسن کی خوش مزاجی ، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی نے سپہ سالار بخش اللہ خان کو بے حد متاثر کیا۔اس نے سپہ سالار اکبر علی سے ابوالحسن کو بطور یادگار مانگ لیا۔شو مئی قسمت ابو الحسن کا مربی سپہ سالار بخش اللہ خان کابل کے ایک محاصرےمیں مارا گیا، اور ابو الحسن فوج کے ہمراہ ہندوستان پہنچا۔1556؁میں ماچھی واڑے کی لڑائی کے بعد ابو الحسن دہلی آکر رہنے لگا۔ اس وقت ابو الحسن کی عمر 15،16 برس تھیمگر علم خاصا تھا۔ابو الحسن نے دنیا سے بیزار ہو کر شمس الامراء محمد خان لودھی کی مسجد میں ٹھکانا کر لیا۔علم کے اظہار اور خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا وصف بھی تھا،لہٰذا سب ابو الحسن کو ملاّ جی ، ملاّ جی کہنے لگے۔رفتہ رفتہ ان کی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی نے شہر بھر میں دھوم مچا دی۔ایک روز ملاّ جی ایک امیر کے ہاں دعوت پر گئے،وہاں ان کو ایک قسم کا پلاؤ بہت پسند آیاجو شخص ان کے برابر میں دسترخوان پر بیٹھا تھا اس سے دریافت کیا کہ اس کھانے کا نام کیا ہے؟جواب ملا اسے دوپیازہ پلاؤ کہتے ہیں،کہ اس میں پکاتے وقت دو بار پیاز ڈالی جاتی ہے۔ ملاّ جی اس نام سے بہت خوش ہوئےاور یاد کر لیا،بلکہ عہد کر لیا کہ جب تک دوپیازہ پلاؤ دسترخوان پر نہ ہوگا وہ کسی کی ضیافت قبول نہ کریں گے۔
ملاّ جی کی یہ معصوم اور البیلی ادا بھی لوگوں کو بہت پسند آئی،پس لوگوں نے ملاّ جی کی دوپیازہ پلاؤ سے یہ رغبت دیکھ کر ان کا نام ہی ملاّ دوپیازہ رکھ دیا اور یہی نام وجۂشہرت بنا، اور اصل نام ابو الحسن بس پردہ رہ گیا۔علامہ ابو الفیضی(ثم فیاضی)اور علامہ ابو الفضل دونو بھائی ہی ملاّ دوپیازہ کے ہم جلیس اور مداح تھے۔علامہ فیضی اور ملاّ دوپیازہ کی دوستی تو یہاں تک بڑھی کہعلامہ فیضی نے عبادت خانہ الہٰی کا انتظام و انصرام ملاّ دوپیازہ کے سپرد کر دیا،اور شہنشاہ اکبر تک ان کو پہنچا دیا۔یو ں قدرت نے انہیں ان کے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا۔ ملاّ دوپیازہ کی ظرافت دربار میں پھلجھڑی چھوڑتی، باہر کا رخ کرتی تو کیا امیر کیا غریب سبھی سے خراج وصول کرتی۔ابو الحسن عرف ملاّ دوپیازہ نے60برس کی عمر پائی۔مغل اعظم احمد نگر کے محاصرے سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ملاّ دوپیازہ بیمار پڑ گئے، اور مہینہ بھر بیماری کاٹ کر 1600؁میں قصبہ ہنڈیا میں انتقال کرگئے، چنانچہ کسی ظریف نے اسی وقت کہا کہ”واہ بھئی! ملاّ دوپیازے۔مر کے بھی ہنڈیا کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ملاّ دوپیازہ اور لالا بیربل کے چٹکلوں سے مہابلی اکبر کا من خوب بہلتا تھا، سو ملا جی کی وفات پر اکبر کئی دن تک غمگین رہا۔
………………………………………………….. بشکریہ
 
اس اشاروں والے مناظرے کے حوالے سے ایک حکایت بھی ذہن میں آتی ہے جو مولانا روم نے اپنی مثنوی میں درج کی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بہرہ تھا۔ اسکا پڑوسی بیمار ہوگیا تو بہرے کی بیوی نےاسے سمجھایا کہ پڑوسی ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض بنتا ہے کہ جا کر اسکی عیادت کرو۔ بہرے نے پہلے تو اپنے بہرے پن کا عذر پیش کیا لیکن جب کوئی پیش نہ چلی تو بیٹھ کر سوچنے لگا کہ جا کر کیا کیا سوال جواب کرنے چاہئیں۔ چنانچہ اس نے ذہن میں کچھ سوالات ترتیب دئیے ۔
جب میں کہوں گا کہ اے میرے دوست! تو کیسا ہے؟ تو وہ جواب میں یہی کہے گا کہ اچھا ہوں یا خوش ہوں۔
چنانچہ میں کہوں گا کہ اللہ کا شکر ہے۔ بتا آج تونے کیا کھایا ہے؟
وہ ضرور کسی نہ کسی پرہیزی کھانے یعنی شربہ یا کھچڑی وغیرہ کا نام لے گا، چنانچہ میں کہوں گا کہ بہت اچھا ہے مناسب ہے۔
پھر میں اس سے پوچھوں گا کہ تم کس طبیب سے علاج کروا رہے ہو؟
وہ کسی نہ کسی ڈاکٹر کا نام لے گا، چنانچہ میں یہ کہوں گا کہ اس سے علاج کروانا تمہارے لئے بہتری اور برکت کا باعث ہو۔ امید ہے کہ وہ اپنا کام اچھے طریقے سے کرے گا۔ ہم نے اسکے بارے میں سنا ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے، مسئلہ حل کردیتا ہے۔
یہ سب سوچ کر وہ بہرہ اپنے پڑوسی کے پاس گیا اور اسکے پاس بیٹھ کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور انکی گفتگو کچھ یوں ہوئی:
کیسے ہو میرے بھائی؟
بہت برا حال ہے ، میں تو مرگیا اس تکلیف سے۔ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔
شکر ہے شکرہے۔۔ اچھی بات ہے، بتاؤ آج کیا کھایا؟
اس نے چڑ کر کہا "زہر"۔۔
ماشاء اللہ۔ بہت عمدہ چیز ہے، مبارک ہو۔۔۔کونسا ڈاکٹر علاج کرنے آرہا ہے؟
بیمار نے چڑچڑے پن سے کہا "ملک الموت"۔۔۔
سبحان اللہ۔۔بڑا ماہر اور حاذق ہے۔ اپنا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے اور میں نے اسے کبھی ناکام ہوکر جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مجھے بھی ملا تھا کل۔ میں نے اسے تاکید کی ہے کہ خوب اچھی طرح تمہاری خبر لے۔:p:LOL::D
 
واہ ناشتے سے پہلے ناشتہ ہو گیا۔ اب پتہ نہیں ناشتے کا مزہ آئے گا کہ نہیں :)، اتنی عمدہ تحریر شریکِ محفل کرنے کا شکریہ زبیر بھائی۔
 
Top