مزاحیہ تحریر "زندہ دلان لاہور"

مزاحیہ تحریر "زندہ دلان لاہور"

تحریر: سید نبیل شاہ

شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

تقریبا ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی اور 684 مربع میل رقبہ پر پھیلے ہوئے اس خوبصورت اور تاریخی شہر لاہور کو اگر مہاجرین یا نیو آبادکاروں کا شہر کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا ۔
اس شہر کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔۔ اور اسی نسبت سے اس شہر کے باسی بهی "زندہ دلان لاہور" کہلاتے ہیں -
آپ چاہے پٹھان، ہزارہ وال، کشمیری، پوٹھواری، سرائیکی، سندھی، بلوچی، مہاجر یا اردو سپیکنگ ہوں لیکن اگر آپ اس شہر میں رہتے ہیں تو صرف لاہوریے کہلائیں گے -
یہاں بٹ صاحب ، رانا صاحب ، شیخ اور شاہ صاحب کے ناموں سے تو آپ کو مخاطب کیا جا سکتا ہے۔۔ لیکن کسی کو مظلوم مہاجر ، جئیے سندھی ، اردو سپیکنگ یا کسی بھی تعصب شدہ نام سے کبھی نہیں پکارا جاتا۔۔ بلکہ یہ شہر سب کو دل سے خوش آمدید کہتا ہے -
لاہور کو داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے۔۔ اور۔۔ لاہوریوں کا اپنے داتا صاحب پر اعتقاد اور احترام کا یہ عالم ہے۔۔ کہ اگر کوئی لاہوریا عمرہ پر جا کر وہاں بیمار ہو جائے۔۔ تو اس کی صحت یابی کیلئے دیگیں داتا دربار میں ہی چڑھا رہے ہوں گے ۔
حاسدین۔۔ کے پروپیگنڈہ کے برعکس مجھے تو لاہوریے صاف گو اور کھلے دل کے بیبے انسان (سادہ لوح) لگے ہیں ۔
چند من گھڑت باتیں لاہوریوں سے منسوب کی جاتیں ہیں۔۔ مثلاً ایک الزام یہ ہے کہ اگر لاہوریوں سے راستہ پوچھو تو یہ آپ کو غلط سمت میں بھیج دیں گے۔۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ بالفرض اگر اسے حقیقت بھی مان لیا جائے تو ایسا کرنے والا یقیناً لاہور کا مقامی باشندہ نہیں ہو گا۔۔ کیونکہ جن لاہوریوں کو میں جانتا ہوں وہ تو ہے ہی اتنے ویلے (فارغ) لوگ ہیں۔۔ کہ آپ کو آپ کی منزل مقصود پر پہنچانے کی جستجو میں۔۔ کئی شارٹ کٹس راستے بتائیں گے۔۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو آپ کا ہاتھ پکڑ کر اس گھر کے دروازے کی دہلیز تک ہی چھوڑ کر آ جائیں گے ۔
لاہوریے تھوڑے کریک (سر پھرے) بھی ہوتے ہیں۔۔ جہاں اکثر دوست ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے دھڑا دھڑ درجنوں گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے دانت نکال رہے ہوں گے۔۔ وہی اگر ان کو غصے کی حالت میں گالی نکالی جائے۔۔ تو یقیناً ۔۔آپ کسی سر پھرے لاہوریے کے ہاتھوں شہید بھی ہو سکتیں ہیں ۔
غصے کی حالت میں اکثر لاہوریوں کے دماغ کا میٹر چلنا بند ہو جاتا ہے۔۔ یا پھر زیادہ سپیڈ سے گھومتے ہوئے۔۔ اوور چارج ہو کر فیوز بھی ہو سکتا ہے ۔۔اس لیے ان سے دوستی اور دشمنی دونوں ہی سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے ۔
نوجوان لاہوریوں کی ایک مخصوص قسم۔۔ ویلی قوم (فارغ لوگ) کے طور پر بھی مشہور و معروف ہے ۔
یہ لوگ آپ کو سنسان سڑکوں میں۔۔ موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔
اگر غور سے ان کا حلیہ شریف دیکھیں۔۔ تو انکشافات کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔۔ اور آپ بے ساختہ پکار اٹھیں گے کہ ان کا تو چال چلن ہی خراب ہے۔۔ کیونکہ کوئی لنگڑا کر چل رہا ہوگا ۔۔ کسی کا دست اپنے ہی گریباں میں لٹکی ہوئی پٹی کے سہارے جھول رہا ہو گا ۔
لمبے بال رکھنا فیشن ہے پھر چاہے وہ جوؤں کا مسکن ہی کیوں نہ بن جائے ۔۔ خوبصورت چہرے پہ موٹر سائیکل سے گرنے کی وجہ سے اتنے ڈینٹ پڑے ہوں گے کے اس کی مزید رپئرنگ کے بجائے۔۔ ڈاکٹر ان کو پلاسٹک سرجری کا مشورہ دیتے ہیں ۔
پرانے لاہوریاں کی یہ جدید نسل۔۔ انتہا درجے کے ڈھیٹ ہوتے ہیں۔۔ کہ مجال ہے جو اتنے حادثات اور حکومت کی وارننگ سے ڈر کر ون ویلنگ کرنا چھوڑ دیں ۔
ویسے چہرے پر پڑنے والے ڈینٹ کا اس وقت فائدہ بھی ہوتا ہے ۔۔ جب شناختی کارڈ بنوانے جائیں تو شناختی نشانی ڈھونڈھنے کیلئے اپنے فارغ دماغ پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا پڑتا۔۔ اور جھٹ سے جہاں انگلی رکھ دی۔۔ وہی نشان عبرت۔۔ میرا مطلب ہے "شناختی علامت" بن جاتا ہے -
یہ لوگ عموماً فارغ البال ہوتے ہیں۔۔ کیونکہ ان کی فیملی میں سے کوئی نہ کوئی باپ ، بیٹا یا بڑا بھائی بیرون ملک مقیم ہوتا ہے۔۔ اور تسلسل کے ساتھ ہر مہینے ایک موٹی رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہے۔۔ جس کی وجہ سے باقی ماندہ بھائیوں۔۔ یا ابا جی۔۔ کو کچھ کام دھندہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔
یہ لوگ گھریلو مینجمنٹ چلانے اور باہر مقیم بڑے بھائی سے حیلے بہانوں سے پیسہ ٹھگنے میں ماہر ہوتے ہیں۔۔ اس لیے ان میں ایک کامیاب ماہر معاشیات بننے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔
لاہوریوں کی اکثریت چاہے وہ ویلے نکمے ہوں۔۔ یا پڑھے لکھے ۔۔ صاحب روزگار ہوں۔۔ سب کے دماغ میں ایک ہی کیڑا گھسا ہو تا ہے۔۔ کہ کسی طرح میرا جیک پورٹ لگ جائے۔۔ اور ۔۔میں باہر یورپ یا امریکہ میں جا کر سیٹل ہو جاؤں ۔
یہ بیرون ملک مقیم جن عزیز واقارب کی زندگی سے متاثر ہوتے ہیں۔۔ ان بیچاروں کی اندرونی حالت۔۔ بھی قابل رحم ہوتی ہے ۔
میرے ایک کزن اور بچپن کے جگری دوست عرصہ دراز سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔۔ وہ ان مظلوموں کی حالت زار کا بتاتے ہیں۔۔ کہ انگلینڈ میں مقیم اکثر پاکستانی انتہائی دکھ۔۔ درد اور مصائب سے نبرد آزما ہیں ۔
یہ انگریز نما پاکستانی ۔۔۔ انگلینڈ میں انتہائی سرد موسم میں ۔۔ بے سروسامانی کی حالت میں۔۔ اور کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
پاکستان میں ناز نخروں میں پروان چڑھنے والے یہ لاڈلے۔۔۔ گوروں کے دیس میں ان کے کتے تک نہلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔۔ بلکہ مال و زر اکٹھا کرنے اور اپنی جھوٹی شان و شوکت قائم رکھنے کیلئے دن رات ۔۔ مشینوں کی طرح۔۔ کام میں لگے رہتے ہیں ۔
ان لوگوں نے جب چھٹیاں گزارنے اپنے ملک آنا ہو تو۔۔ اپنے پاکستانی عزیز واقارب کیلئے جو جرسیاں ۔۔ سویٹر ۔۔ یا کپڑے لاتے ہیں ۔۔ان میں بھی اکثر و بیشتر لنڈن کے لنڈا بازار کی سوغات۔۔ شامل ہوتیں ہیں ۔
لاہور کے نولکھا بازار کے لنڈے۔۔ اور۔۔ لنڈن کے لنڈے میں۔۔ بس اتنا ہی فرق ہوتا ہے۔۔ کہ یہاں کا کپڑا پہننا ۔۔ ہم پاکستانی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔۔ جبکہ لنڈن سے آئے۔۔ لنڈے کے کپڑوں کو۔۔ فخریا انداز۔۔ میں زیب تن کرتے ہیں ۔
یہ پاکستانی انگریز۔۔۔ جب لنڈے کے کپڑوں سے۔۔۔ بھرے ہوئے بیگوں سمیت پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔۔۔ تو ان کے چہرے پر عجیب۔۔۔ فاتحانہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔۔۔ جیسے انگلستان فتح کرلیا ہو۔۔ یا پھر۔۔۔ ہماری بے بسی پر ہنسی آ رہی ہو ۔
یہ کاٹھے انگریز۔۔۔ اپنی عیاش زندگی کی جھوٹی۔۔ اور۔۔ من گھڑت کہانیاں سنا کر۔۔۔ باقی ماندہ لوگوں کا دماغ بھی خراب کر دیتے ہیں۔۔۔ جس کی وجہ سے ۔۔۔ ہمارے سروں پر باہر جانے کا بھوت سوار ہو جاتا ہے ۔
یہ مغرب نواز مخصوص طبقہ لاہوریوں کے علاؤہ۔۔ بھی پورے پاکستان میں پایا جاتا ہے۔۔ یہ لوگ ہر وقت اس ملک کے نظام پر تنقید کرتے نظر آئیں گے۔۔۔ ہمارے اپنے ووٹوں سے منتخب کردہ حکومت کی کرپشن کو کوستے ہوں گے۔۔ جبکہ یہ خود اس بوسیدہ نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔۔ جب اپنے جائز اور ناجائز کاموں کیلئے۔۔ رشوت پیش کرکے۔۔ خود اس کرپٹ نظام کو سپورٹ کرتے ہیں ۔
اس نظام کی خرابیوں کے باوجود۔۔ کچھ لوگ محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر۔۔۔ آگے بڑھتے ہوئے۔۔۔ دنیا میں اس ملک اور شہر کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔۔۔ جن میں مرحومہ ارفع کریم اور جنرل راحیل شریف جیسی سینکڑوں شخصیات شامل ہیں۔۔ جو پوری دنیا میں ہماری پہچان ہیں۔۔ جو خود کو پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ۔۔ لاہوریا کہلوانے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں -
لاہوریے عموماً دوست کو۔۔ "ماما" اور بڑے بھائی کو "پائین"۔۔ کہہ کے مخاطب کرتے ہیں ۔۔ اس کے علاوہ خاص اندرون شہر۔۔ یعنی بارہ دروازوں۔۔ کی حدود میں رہنے والے لاہوریوں کے تکیہ کلام میں۔۔ "ر کی جگہ ڑ" اور "ت کی جگہ ٹ"۔۔ کا عام استعمال ہوتا ہے ۔
مثلاً: اگر کسی کو کہنا ہو۔۔ لاہور کی مال روڈ بہت خوبصورت ہے۔۔۔ تو یہ اضافت کہ ساتھ کہیں گے:
لہوڑ دی مال ڑوڈ بڑی سوہنی ہے گی اے ۔
لاہوریوں کا تکیہ کلام ماما ۔۔۔ بهی بہت مشہور ہے۔۔ عموماً ہم عمر اور بے تکلف دوستوں۔۔ کو ماما کہہ کر مخاطب کرتے ہیں -
لاہوریوں کو گفت و شنیدہ کے زریعے۔۔ پہچاننا بہت آسان کام ہے۔۔ بس ان سے پنجابی میں گفتگو کرنا شروع کر دیں۔۔ اور۔۔ جہاں ڑ اور ٹ کے۔۔ مستعمل الفاظ کے علاوہ ہر جملہ کے اختتام پر۔۔ "ہے گا یا ہی گا"۔۔ آ جائے ۔۔بس سمجھ لیں یہ پکا لاہوریا ہے ۔
لاہوریے کھانے پینے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔۔ اس لیے ہر وقت ان کے دماغ میں کھانا پینا ہی سوار رہتا ہے ۔
ایک لاہوریے بزرگ سے کسی نے اس کی زندگی کے تجربات کے بارے میں پوچھا۔۔ کہ بابا جی،۔۔۔ یہ بتائیں زندگی میں۔۔۔ "کھویا کیا ہے اور پایا کیا ہے"۔۔؟؟ تو بابا جی ،۔۔ نے بہت معصومیت سے جواب دیا۔۔ پتر گاجر کے حلوے کے اوپر جو سفید سفید ہوتا ہے۔۔ اسے کھویا کہتے ہیں۔۔ اور۔۔ صبح گرم گرم نان کے ساتھ۔۔ جو سالن کھاتے ہیں۔۔ اسے پایا کہتے ہیں ۔
پاکستان کے مشہور کھانوں کے بہترین ذائقے۔۔ یہاں ہر وقت باآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔۔۔ یہاں امیر ، غریب سب کے صبح کا ناشتہ۔۔ اکثر باہر سے ہی آئے گا۔۔ خاص طور پر چھٹی والے دن تو لاہوریوں کی موجیں ہوتیں ہیں۔۔ دیر تک سونا اور سری پائے یا مرغ چنے کا ناشتہ کرنا ۔۔ یہاں کا عام معمول ہے -
لاہوریے سٹیج ڈرامہ دیکھنے اور کھانے پینے کے بہت شوقین ہوتے ہیں ۔۔ اچھے سے اچھے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر رج۔۔ کے کھانا اپنی شان سمجھتے ہیں۔۔ پھر چاہے بل ادا کرنے کے بعد لوگوں سے لفٹ مانگ مانگ کر۔۔ گھرکیوں نہ جانا پڑے ۔
لاہوریوں کے مفت خورے دوست اسی تاڑ میں رہتے ہیں۔۔ کہ کہیں سے کوئی بکرا پھنس جائے تو موجایں ہی موجاں ہو جائیں ۔
مفت کا مال دل بے رحماں کی مثال ان پر سو فیصد فٹ آتی ہے۔۔جب آپ کو کوئی بڑی خوشی کی خبر ملے تو یہ مفت خورلنگھوٹئے دوست۔۔ ٹریٹ کے طور پر ڈنر کروانے۔۔ اور ۔۔ڈرامہ دیکھانے کی فرمائش کریں گے۔۔ اور۔۔ کہیں گے:
"چل او ماما اج ساہنوں روٹی کھوا تے نال سٹیج ڈراما وکھا" یعنی مبارکباد دینے کے بجائے سیدھا کہہ دیں گے۔۔ چلو رات کا کھانا اور سٹیج ڈراما دیکھاؤ...
پھر اتنی دیر تک اس بیچارے دوست کو جگتیں مار مار کر ذلیل کرتے رہیں گے۔۔ جب تک وہ ان کے منہ میں من سلوا نہ ٹھونس دے ۔
یہ لنگوٹیے۔۔ دوست اپنی طرف سے دی گئی ٹریٹ کا بدلہ لینے کیلئے بھی۔۔ آپ کو قطعاً رحم یا رعایت دینے کے حق میں نہیں ہوتے۔۔ بلکہ یہ سمجھتے ہیں آج بکرا چھری کے نیچے آیا ہے۔۔ تو اسے ذبح ہی کر ڈالو ۔ چاہے اس دعوت کے لیے اس بے چارے کی آدھی تنخواہ ہی خرچ کیوں نہ ہو جائے -
لاہوریوں سے حسد کرنے والا ایک گروہ ان پر ایک الزام یہ بھی لگاتا ہیں کہ یہ کھوتے (گدهے) کا گوشت بهی کھا جاتے ہیں۔۔ میری نظر میں یہ بھی ایک جھوٹا الزام ہے جسے ایک سازش کے تحت پھیلایا گیا ہے ۔
اگر کچھ لوگ دوسرے شہروں سے یہاں گدهے کا گوشت لانے کی کوشش میں پکڑے گئے ہیں۔۔ تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہاں گدهے کا گوشت باقاعدہ طور پر فروخت ہوتا ہے ۔
اگر ایسی بات ہے تو خیبر پختون خواہ میں چوہوں کا قیمہ بناتے ہوئے لوگ گرفتار ہوئے۔۔ اور۔۔ کراچی میں تو ایک گروہ باقاعدہ طور پر کتوں کا گوشت سپلائی کررہا تھا ۔۔اور تو اور ۔۔ راولپنڈی شہر تو سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔۔ یہاں پلاسٹک کے ڈرموں میں موجود سور کی چربی تک برآمد ہوئی ہے۔۔ تو اب آپ بتائیے کیا باقی شہروں کے رہنے والے لوگوں کو مخصوص جانوروں کا گوشت کھانے والا کہیں گے ؟؟ ہر گز نہیں بلکہ کہ ان علاقوں کی پولیس اور آرمڈ فورسز کو سیلوٹ کرنا چاہیے۔۔ جنہوں نے ان مکروہ چہروں کو بے نقاب کر کے عوام الناس کو آگاہی و شعور دیا ۔
ان حاسدین کو بس لاہوریوں سے چڑ ہے۔۔ جو ان پر گدھوں کے گوشت کھانے کا الزام لگاتے ہیں۔۔۔ورنہ جان بوجھ کر حرام کی شراب پینا یا رشوت لینا انجانے میں گدھا کھانے سے۔۔ کئی گناہ بڑا اور اذیت ناک جرم ہے ۔
اس جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے لاہور کے قصابوں کے کاروبار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔۔ اور۔۔ وہ بیچارے اپنے جانور زبح کر کے گاہکوں کے سامنے سالم لٹکانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔۔ اور۔۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان جانوروں کی دم اور سری اس وقت تک تن سے جدا نہیں کی جاتی۔۔ جب تک اس جانور کے جسم کی آخری بوٹی بهی نہ اتار لی جائے -
لاہوریے۔۔ بہت ہنس مکھ اور حس مزاح کے پیکر بهی ہوتے ہیں۔۔ فیصل آباد کے بعد سب سے زیادہ جگت اور رنگ بازی آپ کو یہیں ملے گی۔۔ یہاں پر ہر بندہ دوسرے کو جگت مار رہا ہوتا ہے ۔
اگر سواریوں سے کھچا کهچ بھری ہوئی ویگن کے ڈرائیور سے پوچھیں کہ استاد جی ،۔۔ گاڑی میں جگہ ہے کیا۔۔؟ تو وہ فقط نہیں کہنے کی بجائے برجستہ جواب دے گا:
پائین جگہ ویچ کہ تے اے گڈی لئیی اے ہون جگہ نہیں ہے یعنی بھائی جگہ بیچ کر تو یہ گاڑی لی ہے اب جگہ نہیں رہی میرے پاس ۔
اسی طرح ایک لاہوریا موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ اچانک ایک گدھا گاڑی بے قابو ہو کر موٹر سائیکل سوار سے ٹکرا جاتی ہے۔ وہ بہت غصے میں نیچے اتر کے کہتا:
ماما اپنی اَکھاں دے سیل پوا" ۔۔اور ۔۔ پھر گدھے کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے۔۔ تے نال ایس پیو نوں وی عینکاں لوا-
اسی طرح ایک عورت رکشہ ڈرائیور کو کہتی ہے۔۔ بھائی ریگل چوک جانے کے کتنے پیسے لو گے۔۔؟ رکشہ ڈرائیور نے 250 روپے مانگے تو عورت ہاتھ کے اشارے سے ڈرائیور کو کہتی ہے۔۔ او بھائی۔۔ یہ پاس ہی تو ہے ریگل چوک تو رکشہ والے نے بھی برجستہ جواب دیا:
او باجی جی،۔۔ اپنا ہتھ تے تهلے کر لو کدرے ریگل چوک دے نال نہ ٹچ ہو جائے۔
بیبے لاہوریے۔۔ چاہے دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں۔۔ وہاں جا کر بھی یہیں کہہ رہے ہوں گے:
پائین جو وی ہو جائے۔۔ اپنا۔۔ لہور لہور اے ، جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔
ہر جگہ ان کو لاہور کی ہی یاد ستاتی رہے گی مثلاً :
اگر یہ نیویارک کے ٹائم سکوائر پر اپنی امریکی گرل فرینڈ کے ساتھ آئے ہیں۔۔ اور ۔۔ اگر گوری میم نے لاہوریے سے انگریزی میں پوچھ لیا۔۔ how do you feel about world's famace place "time squire ....s ۔۔یعنی آپ دنیا کی سب سے بارونق جگہ ٹائم سکوائر کو دیکھ کر کیسا محسوس کرتے ہیں ۔ ؟؟
تو لاہوریا اس گوری میم کو پہلے غصے سے گھوری ڈال کر دیکھے گا۔۔ پھر انگریزی کی جگہ۔۔ ٹھیٹ پنجابی میں بس اتنا ہی جواب دے گا کہ:
او۔۔۔ پولیئے مجھہے!! توں کی جانے انارکلی دیاں شاناں۔۔مطلب۔۔۔ تم بھینس!! کی طرح سادی ہی رہنا اب تمہیں کیا پتہ انارکلی کی رونق کیسی ہوتی ہے -
"سٹیچو آف لیبرٹی"۔۔، کے سامنے کھڑے ہو کر بھی اپنے۔۔ "مینار پاکستان" ۔۔کو یاد کر رہے ہوں گے ۔
امریکہ کے فائیو سٹار ہوٹل "شیریٹن" کے بوفے پر پلیٹ اٹھا کر بھی آہیں بھر رہے ہوں گے۔۔ کہ انارکلی کے "ناصر بونگ پائے"۔۔ کتنے مزیدار ہوتے تھے ۔
کے-ایف۔سی کے بروسٹ کا پیس ہاتھ میں پکڑ کر "بٹ کی دیسی مرغ کڑاہی" کو یاد کرتے ہوئے رو رہے ہوں گے ۔
دنیا کی سب سے مشہور آئسکریم "باسکن روبنز" کھاتے ہوئے بھی۔۔ ان کو مال روڈ کی۔۔ "چمن آئسکریم"۔۔ کی ہی یاد آرہی ہو گی ۔۔ اور۔۔ وہاں کی آئسکریم ان کو اس وقت پھیکی لگ رہی ہو گی ۔
یار۔۔ حد تو یہ ہے کہ "کیسینو پب" کی مشہور بئیر پی کر بھی کہہ رہے ہوں گے نا۔۔ پاجی۔۔نا۔۔ جیہڑا نشہ "چاچا فیقے" دی پیڑے والی لسی پی کے ہوندا سی۔۔ نا۔۔ او اس بئیر وچ کیتھے ہونا ہے۔۔؟ جو خمار چاچا فیقا کی پیڑے والی لسی پی کر ہوتا تھا۔۔ وہ اس بئیر میں کہاں ہے ۔
ایک لاہوریا امریکہ کی ریاست ورجینیا میں رہتا تھا۔۔ ایک دن ہائی ویے پر گاڑی چلاتے ہوئے۔۔ اپنے لاہور شہر کے رنگ روڈ کو یاد کررہا تھا۔۔ کہ اچانک وہ راستہ بھول کر کہیں۔۔ اور۔۔ نکل گیا ۔
ان ہی بھول بھلیوں میں اسے اچانک ایک بارڈ نظر آیا۔۔ جس پر لکھا تھا آگے لاہور آرہا ہے۔۔ اسے اپنی آنکھوں کی بصارت پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔۔ یہ کیسے ممکن ہوگیا۔۔ میں بغیر پاسپورٹ لاہور کیسے آ گیا۔۔؟ کہیں یہ خواب تو نہیں۔۔؟ پھر خود ہی زور سے اپنے جسم پر چٹکی کاٹ کر کہتا ہے۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ یہ خواب تو نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہے ۔
خوشی خوشی۔۔ جب اس قصبے میں پہنچتا۔۔ ہے تو اس پر انکشاف ہوا کے امریکہ کی ۔۔ ریاست ورجینیا۔۔ کے ایک قصبہ کا نام بھی۔۔ "لاہور" ہے۔۔ اب یہ لاہوریا اپنے دیگر لاہوری دوستوں کے ہمراہ ہر ویک اینڈ پر باقاعدگی سے یہاں آتا ہے۔۔ اور۔۔ سب دوست اکٹھے بیٹھ کر اپنے محبوب شہر کو یاد کر کے اپنا غم غلط کرتے رہتے ہیں۔۔ بلکہ بعد ازاں اس لاہوریے نے اس مقام کو باقاعدہ طور پر۔۔ منی لاہور۔۔ کا ٹائٹل بھی عنایت کر دیا ہے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ یہ حقیقت ہے۔۔ کہ خالص لاہوریے دنیا کے کسی بھی کونے میں چلیں جائیں ان کا دل ہر وقت لاہور کیلئے ہی دھڑکتا رہے گا۔
شاید!!! ان کا خمیر بھی لاہور کی مٹی سے ہی گھوند کر کر امانتاً ان کے سپرد کیا گیا ہو۔۔۔ جسے ایک روز واپس اسی سر زمین کی خاک کو لوٹانا ان پر واجب ہو۔۔ لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ۔۔ کچھ بدنصیب۔۔ ایسے بھی ہو تے ہیں جنہیں تکمیل عہد و پیماں کا موقع ہی میسر نہیں آتا ۔۔ مجبوریاں۔۔ اور۔۔ ضرورتیں پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔۔اور۔۔اور ۔۔ وہ اس امانت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے دیارے غیر کی خاک میں مل جاتے ہیں۔۔ ان پردیسیوں کی حالت زار "بہادر شاہ ظفر" کی مشہور غزل کے ان اشعار سے مطابقت رکھتی ہے :

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

احقرالعباد ،
سید نبیل شاہ
 
Top