امیر مینائی مر چلے ہم مر کے اُس پر مر چلے - امیرؔ مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

مر چلے ہم مر کے اُس پر مر چلے
کام اپنا نام اُس کا کر چلے

حشر میں اجلاس کس کا ہے کہ آج
لے کے سب اعمال کا دفتر چلے

خونِ ناحق کر کے اک بے جُرم کا
ہاتھ ناحق خون میں تم بھر چلے

یہ ملی کس جرم پر دم کو سزا؟
حکم ہے دن بھر چلے شب بھر چلے

شیخ نے مے خانے میں پی یا نہ پی
دخترِ رز کو تو رسوا کر چلے

گل کیا آخر تہہ تربت کفن
ایک جوڑا حشر تک کیونکر چلے؟

رہنے کیا دنیا میں‌آئے تھے امیرؔ
سیر کر لی اور اپنے گھر چلے
 
Top