مر مٹنے کا عملی صوفی ازم

بہت سی دوسری خواتین مصنفین کی طرح بانو قدسیہ کی تحریروں کے آگے بھی سوالیہ نشان لگایا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں لکھتیں بلکہ انھیں ان کے شوہر اشفاق صاحب لکھ کر دیتے ہیں۔
ایسا اس لیے بھی تھا کیوں کہ دونوں کی تحریر کا اسلوب اور موضوعات بھی ملتے جلتے ہوا کرتے تھے۔
دوسری طرف بانو قدسیہ بھی ہمیشہ نہ صرف اشفاق صاحب کو اپنا استاد مانتی رہیں بلکہ انھوں نے متعدد جگہ یہ بھی کہا کہ انھوں نے اشفاق صاحب کو دیکھ کر ہی لکھنا شروع کیا تھا۔
آخر ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اشفاق صاحب نے یہ کہہ کر جھگڑا ہی ختم کر دیا کہ 'بھئی میں بھلا بانو کو کیسے لکھ کر دے سکتا ہوں، وہ تو مجھ سے بہتر لکھتی ہیں!'
بہتر لکھنے کا عملی مظاہرہ ان کا ناول 'راجہ گدھ' ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ناول اشفاق احمد کی کسی بھی تحریر سے بڑھ کر ہے۔ ویسے بھی اشفاق احمد نے زیادہ تر افسانے، ڈرامے، ریڈیو فیچر اور مضامین ہی لکھے، اور لمبی سانس والی تحریر کو ہاتھ نہیں لگایا۔
بانو قدسیہ کی تحریروں کا بڑا موضوع عورت رہا، لیکن یہ فیمینزم والی عورت نہیں جو مردانہ معاشرے سے بغاوت کر کے اپنی الگ شناخت چاہتی ہو۔
اس کے برعکس بانو قدسیہ نے اپنی تحریروں میں دکھایا ہے کہ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ضرور ہیں، لیکن دونوں کا مقام اور کردار متعین ہے۔ ان کے خیال کے مطابق مرد کا کام کفالت ہے، جب کہ عورت کا کام پرورش۔ دونوں کام اس قدر اہم ہیں کہ ان کے بغیر زندگی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
یوں تو بانو قدسیہ نے مختلف اصناف پر مشتمل دو درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں، تاہم جو شہرت اور مقبولیت 'راجہ گدھ' کو حاصل ہوئی، وہ ان کے کسی اور ناول کو حاصل نہیں ہو سکی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہیں ہو گا کہ یہ گذشتہ نصف صدی کا مقبول ترین اردو ناول ہے۔ ایک گنتی کے مطابق اب تک اس ناول کے کم از کم ڈیڑھ درجن ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
1981 میں سامنے آنے والے اس ناول میں انھوں نے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کی کہانی بیان کی ہیں جو زندگی کا مقصد اور اسے گزارنے کا قرینہ ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔
آخر ایک پروفیسر کی گفتگو میں انھیں وہ کلید مل جاتی ہے جس کی بنیاد پر زندگی گزاری جا سکتی ہے، اور وہ ہے بانو کا مشہور حرام و حلال کا مابعد الطبیعاتی نظریہ۔
بانو قدسیہ نے خود ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس ناول کی وجہِ تخلیق کچھ یوں بتائی تھی کہ ایک امریکی طالبِ علم سے بحث کرتے ہوئے انھیں اس سوال کا جواب نہیں مل پایا تھا کہ آخر اسلام دوسرے مذاہب سے کس طرح مختلف ہے۔ بقول ان کے آخر ایک دن گھر میں لگے سندری کے درخت سے، جس کی لکڑی سے سارنگی بنتی ہے، ایک آواز آئی جس نے انھیں نکتہ سمجھا دیا۔
وہ نکتہ یہ ہے کہ نیکی اور بدی ایسے عمل ہیں جو صرف ایک زندگی تک محدود نہیں رہتے بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل تک جینیاتی طور پر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی حرام کھاتا ہے تو یہ عمل اس کی نفسیات پر اثرانداز ہو کر اس کی شخصیت کو بدل دیتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو اس ناول کے مابعد الطبیعاتی پہلوؤں سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے اردو کے چند گنے چنے اعلیٰ ترین ناولوں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے۔
معروف فکشن نگار اور نقاد حمید شاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'بانو نے روایت، کہانی اور فکر کو گوندھ کر جو تحریر لکھی ہے وہ سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اردو ناول کا جب بھی ذکر آئے گا، 'راجہ گدھ' کے تذکرے کے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہو گا۔'
حمید شاہد نے مزید کہا کہ 'بانو قدسیہ اپنے اسلوب اور مخصوص فکریات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کے افسانوں میں عورت مرد کی ذات سے جڑی ہوئی اور مرد کے شانہ بشانہ چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح وہ ایسی مصنفہ ہیں جو قاری کے سوچنے کا رخ بھی متعین کرتی ہیں۔'
بانو قدسیہ کے ناولوں، افسانوں اور ڈراموں میں فکریات کے دو واضح دھارے ملتے ہیں۔ ایک نسوانیت اور دوسرا صوفی ازم۔ وہ اشفاق احمد اور ان کے قریبی ساتھیوں قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی سے بہت متاثر ہوئی تھیں اور انھوں نے 'مردِ ابریشم' کے نام سے شہاب پر کتاب بھی لکھی۔
بظاہر صوفی ازم اور نسوانیت دو مختلف چیزیں ہیں، تو انھیں بانو نے کیسے ایک ساتھ نبھایا؟ اس سوال کے جواب میں حمید شاہد نے کہا: 'ان کی نسوانیت ایسی نہیں جو مردانہ معاشرے سے بغاوت پر آمادہ کرے، ان کی عورت مرد سے زیادہ دور نہیں جاتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے ہاں بعض جگہوں پر عورت کے مر مٹنے کا جو تصور ملتا ہے، وہ جا کر ان کے صوفی ازم سے بھی مل جاتا ہے۔'
2004 میں اپنے نامور شوہر اشفاق احمد کے انتقال کے بعد بانو نے گھر سے نکلنا، محفلوں میں شرکت کرنا، حتیٰ کہ لکھنا لکھانا بھی بہت کم کر دیا تھا۔ 2007 میں جب ناول نگار قرۃ العین حیدر کا انتقال ہوا تو میں نے ایک ریڈیو پروگرام کے لیے بانو قدسیہ کو فون کیا کہ ایک بڑی مصنفہ پر ان کے تاثرات ریکارڈ کر سکوں۔
میرا خیال تھا کہ ایک ہم عصر مصنفہ کی حیثیت سے بانو کے پاس قرۃ العین حیدر کے بارے میں کہنے کے لیے بہت کچھ ہو گا، لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے کہا کہ 'میں تو صرف اشفاق صاحب ہی پر بات کر سکتی ہوں اور انھی پر بات کروں گی۔' اس کے بعد اگلے دس منٹ تک وہ اشفاق صاحب کے بارے میں اپنے مخصوص دلکش، دھیمے اور نپے تلے انداز میں بولتی رہیں۔
بدقسمتی سے وہ ریکارڈنگ تو محفوظ نہیں رہ سکی، لیکن مر مٹنے کے عملی صوفی ازم کا وہ مظاہرہ جو بانو نے اپنی زندگی ہی میں دکھا دیا تھا، آج بھی دل پر نقش ہے۔
مر مٹنے کا عملی صوفی ازم


ظفر سید بی بی سی اردو ڈاٹ کام
 

سید عمران

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔
لیکن تصوف میں خواتین نے بھی بڑا نام کمایا ہے۔۔۔
مثلاً رابعہ بصریہ۔۔۔
ایک عورت لاکھوں مردوں پر بھاری۔۔۔
لہٰذا یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ تصوف عورت کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔۔۔
رہی بات فیمنزم کی۔۔۔
تو اس بات پر بہت بات ہوچکی ہے!!!
 
بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔
لیکن تصوف میں خواتین نے بھی بڑا نام کمایا ہے۔۔۔
مثلاً رابعہ بصریہ۔۔۔
ایک عورت لاکھوں مردوں پر بھاری۔۔۔
لہٰذا یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ تصوف عورت کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔۔۔
رہی بات فیمنزم کی۔۔۔
تو اس بات پر بہت بات ہوچکی ہے!!!
ظفر سید نے اپنے فہم کے مطابق بات کی ہے اس کو تو صوفیا کے تصوف کے بارے میں علم ہی نہیں ہوگا :) بی بی سی کا بندہ ہے ؛)
میرے لئے اس تحریر میں یہ بات اہم تھی
اس کے برعکس بانو قدسیہ نے اپنی تحریروں میں دکھایا ہے کہ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ضرور ہیں، لیکن دونوں کا مقام اور کردار متعین ہے۔ ان کے خیال کے مطابق مرد کا کام کفالت ہے، جب کہ عورت کا کام پرورش۔ دونوں کام اس قدر اہم ہیں کہ ان کے بغیر زندگی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
 

سید عمران

محفلین
یہ تو ہے۔۔۔
مرد اور عورت ہر ایک کا اپنا مرتبہ۔۔۔
اپنا دائرۂ کار ہے۔۔۔
جب جب جہاں جہاں اس کو توڑا گیا۔۔۔
خاندان اور معاشرے کا شیرازہ بکھر گیا!!!
 
انھوں نے لکھنا لکھانا بھی چھوڑ دیا تھا؟
معاملہ مشکوک ہوجاتا ہے۔ یعنی اشفاق احمد کے مرنے سے دو رائٹر فنا ہوئے؟ یا ایک ہی؟

ایک اور سوال آریا ہے کہ کھانا پیا بھی چھوڑ دیا تھا؟
یہ تو ہندو رسم ہے
 

نوید ناظم

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔
لیکن تصوف میں خواتین نے بھی بڑا نام کمایا ہے۔۔۔
مثلاً رابعہ بصریہ۔۔۔
ایک عورت لاکھوں مردوں پر بھاری۔۔۔
لہٰذا یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ تصوف عورت کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔۔۔
رہی بات فیمنزم کی۔۔۔
تو اس بات پر بہت بات ہوچکی ہے!!!
تصوف میں عورت اور مرد کی بحث تو نہیں لیکن اپنے اپنے تقاضے بحر حال ہیں۔ ویسے بھی تصوف کسی باہر کے سفر کی بات تو نہیں ۔۔۔ یہ تو انسان کے اپنے اندر کی کہانی ہے۔ یہ کوئی ایسی شاہراہ بھی تو نہیں جس پر چلتے ہوئے انسان ایسا سنگ میل دیکھے کہ تصوف 10 کلو میٹر۔ مرد ہو یا عورت اگر اپنے اندر اخلاص پیدا کر لے، خواہشات کا بوجھ ہلکا کر لے، اپنے حالات اور اپنی ذات کے ساتھ مطمئین ہو جائے تو یہ سب تصوف ہی کی بات ہے۔ اللہ نے کہا کہ انسان زیادتی کا بدلہ لے سکتا ہے اور یہی شریعت کا اصول ہے، ساتھ اللہ نے یہ بھی کہا کہ وہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اسے طریقت کہہ لیں یا تصوف کہہ لیں، اور معاف کرنے میں مرد و زن کی تخصیص نہیں۔ آللہ کی رضا پر راضی رہنے کے لیے نہ مرد ہونا ضروری ہے نہ عورت بلکہ اس کے لیے شوق کا ہونا ضروری ہے، شوق کیسے پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔ تو جی شوق نصیب ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ باقی راجہ گدھ ایک ادبی ناول ہے اسے تصوف کے ساتھ نتھی کرنا عین تصوف نہیں ہے۔ ہم نے تو یہ بھی سنا کہ بانو آپا نے راجہ گدھ لکھنے کا ازالہ مرد ابریشم لکھ کر کیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرما کر درجات بلند کر دے!
 

سید عمران

محفلین
انھوں نے لکھنا لکھانا بھی چھوڑ دیا تھا؟
معاملہ مشکوک ہوجاتا ہے۔ یعنی اشفاق احمد کے مرنے سے دو رائٹر فنا ہوئے؟ یا ایک ہی؟

ایک اور سوال آریا ہے کہ کھانا پیا بھی چھوڑ دیا تھا؟
یہ تو ہندو رسم ہے
میرے کو بھی جواب آریا ہے۔۔۔
یہ تھوڑی لکھا ہے کہ چھوڑ دیا۔۔۔
یہ کہا جاریا ہے کہ کم کردیا۔۔۔
دکھ، درد غم بھی انسان کو متاثر کرتا ہے۔۔۔
ہر چیز رسم تھوڑی ہوتی ہے۔۔۔
کوئی چیز طبیعت بھی ہوتی ہے!!!
 
میرے کو بھی جواب آریا ہے۔۔۔
یہ تھوڑی لکھا ہے کہ چھوڑ دیا۔۔۔
یہ کہا جاریا ہے کہ کم کردیا۔۔۔
دکھ، درد غم بھی انسان کو متاثر کرتا ہے۔۔۔
ہر چیز رسم تھوڑی ہوتی ہے۔۔۔
کوئی چیز طبیعت بھی ہوتی ہے!!!

لکھنا لکھانا کم کردیا؟ تو کچھ لکھا بھی ہوگا۔ کہاں ہے؟
 

سید عمران

محفلین
تصوف میں عورت اور مرد کی بحث تو نہیں لیکن اپنے اپنے تقاضے بحر حال ہیں۔ ویسے بھی تصوف کسی باہر کے سفر کی بات تو نہیں ۔۔۔ یہ تو انسان کے اپنے اندر کی کہانی ہے۔ یہ کوئی ایسی شاہراہ بھی تو نہیں جس پر چلتے ہوئے انسان ایسا سنگ میل دیکھے کہ تصوف 10 کلو میٹر۔ مرد ہو یا عورت اگر اپنے اندر اخلاص پیدا کر لے، خواہشات کا بوجھ ہلکا کر لے، اپنے حالات اور اپنی ذات کے ساتھ مطمئین ہو جائے تو یہ سب تصوف ہی کی بات ہے۔ اللہ نے کہا کہ انسان زیادتی کا بدلہ لے سکتا ہے اور یہی شریعت کا اصول ہے، ساتھ اللہ نے یہ بھی کہا کہ وہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اسے طریقت کہہ لیں یا تصوف کہہ لیں، اور معاف کرنے میں مرد و زن کی تخصیص نہیں۔ آللہ کی رضا پر راضی رہنے کے لیے نہ مرد ہونا ضروری ہے نہ عورت بلکہ اس کے لیے شوق کا ہونا ضروری ہے، شوق کیسے پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔ تو جی شوق نصیب ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ باقی راجہ گدھ ایک ادبی ناول ہے اسے تصوف کے ساتھ نتھی کرنا عین تصوف نہیں ہے۔ ہم نے تو یہ بھی سنا کہ بانو آپا نے راجہ گدھ لکھنے کا ازالہ مرد ابریشم لکھ کر کیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرما کر درجات بلند کر دے!
گھما پھرا کے وہی بات آگئی۔۔۔
جسے ہم عرض کرچکے ہیں!!!
 
مرد ہو یا عورت اگر اپنے اندر اخلاص پیدا کر لے، خواہشات کا بوجھ ہلکا کر لے، اپنے حالات اور اپنی ذات کے ساتھ مطمئین ہو جائے تو یہ سب تصوف ہی کی بات ہے

کس نے کہا؟
یہ تو بڑی کم ظرفی ہے
تصوف یہ ہے کہ انسان اپنے حالات سے اور اپنی ذات سے کبھی مطمئن نہ ہو اور خوب سے خوب تر پر چلے
 

سید عمران

محفلین
مرد ہو یا عورت اگر اپنے اندر اخلاص پیدا کر لے، خواہشات کا بوجھ ہلکا کر لے، اپنے حالات اور اپنی ذات کے ساتھ مطمئین ہو جائے تو یہ سب تصوف ہی کی بات ہے

کس نے کہا؟
یہ تو بڑی کم ظرفی ہے
تصوف یہ ہے کہ انسان اپنے حالات سے اور اپنی ذات سے کبھی مطمئن نہ ہو اور خوب سے خوب تر پر چلے
اپنے حالات سے مطمئن ہونا اگر اس رخ پر ہو کہ ہر حال میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہو تو۔۔۔
یہ رضا بالقضاء کہلاتا ہے۔۔۔
تصوف کا سب سے انتہائی مقام۔۔۔
جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں۔۔۔
وہ نیک اعمال ہیں۔۔۔
تقویٰ ہے۔۔۔
ان پر کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
ہر دم تیز قدم رہنا چاہیے!!!
 
Top