مری تشنہ لبی کی خیر ، ہوگا لُطفِ عام ان کا --- سید محمود احمد سرو سہارنپوری

الف نظامی

لائبریرین
مری تشنہ لبی کی خیر ، ہوگا لُطفِ عام ان کا​
کہ بزم ان کی، شراب ان کی ، صراحی ان کی ، جام ان کا​
حرم سے لامکاں تک اُن کے نقشِ پا چمکتے ہیں​
کہ ہے کونین پر سایہ فگن حُسنِ خرام ان کا​
زمانے نے ہزاروں ٹھوکروں کے بعد سمجھا ہے​
علاجِ ظلمت ایام ہے بے شک نظام ان کا​
جنہیں طیبہ کے جنت زار میں بسنا میسر ہو​
حقیقت میں نماز ان ، سجود ان کا ، قیام ان کا​
سنہری جالیوں کو جا کے جو چومے نظر وہ ہے​
تری گلیوں کی خوشبو جن کو مل جائے مشام ان کا​
مدینے جا کے جن کی زندگی کی شام ہو جائے​
مبارک اِبتدا اُن کی ، مبارک اِختتام ان کا​
مبارک ہو مدینے سے بلاوا آگیا جن کو​
سوئے جنت چلا ہے قافلہ اب گام گام ان کا​
میں اپنی آرزو کا ماحصل اب یہ سمجھتا ہوں​
ہے جبتک تابِ گویائی رہے ہونٹوں پہ نام ان کا​
اگرچہ عالمِ اسباب میں کچھ بھی نہیں اپنا​
مگر ڈھارس بندھائے ہے ابھی تک لطفِ عام ان کا​
نہ جانے کب سےاس امید میں پلکیں نہیں جھپکیں​
کہ بادِ صبح گاہی لے کے آئے گی پیام ان کا​
سمجھتا ہوں کہ اُن کے پیار کی دولت بڑی شے ہے​
شہنشاہی کو کب خاطر میں لاتا ہے غلام ان کا​
از "زخمۂ دل" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری
 

عمران اسلم

محفلین
سبحان اللہ۔ عمدہ۔

اگرچہ عالمِ اسباب میں کچھ بھی نہیں اپنا​
مگر ڈھارس بندھائے ہے ابھی تک لطفِ عام ان کا​
 
Top