کلاسیکی موسیقی مروجہ کلاسیکی موسیقی کی بنیادی اوضاع

عثمان ستار

محفلین
ہماری دستوری موسیقی (مروجہ کلاسیکی موسیقی) کی چار بنیادی اوضاع مانی جاتی ہیں ۔
دھرپد
خیال
ٹپہ
ٹھمری
باقی تمام اوضاع ان چار اوضاع ہی سے مشتق یا مرکب سمجھی جاتی ہیں۔
دھرپد ایک قدیم اور نہایت گھمبیر وضع ہے ۔ دھرپد گانا خاص مردانہ گانا سمجھا جاتا ہے گزشتہ صدی تک عورتوں کو دھرپد سکھانا ممنوع تھا،نوم توم الاپ اس کی بنیاد ہیں، گائیک کو نہایت لگے بندھے طریقے سے چلنا پڑتا ہے ، تانوں کا استعمال نہیں کیا جاتا ، تالیں چند ایک مخصوص ہیں اور اس وضع کو پیش کرنے کے قواعد نہایت سخت ہیں جس کی وجہ سے گائیک کو اپنی انفرادیت اور جودت طبع دکھانے کا موقع میسر نہیں آتا۔ اس کے اسی جامد پن کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ صنف گائیکی اب متروک ہوتی جارہی ہے۔
خیال نسبتاً ایک جدید وضع ہے، زیادہ تر لوگ اس کو امیر خسرو سے اور کچھ محمد شاہ رنگیلے کے درباری صدا رنگ ادا رنگ سے منسوب کرتےہیں مگر صائب رائے یہی ہے کہ اسے کسی کی ایجاد ماننے کی بجائے فوک میوزک سے، یا کسی اور وضع موسیقی سے ارتقا یافتہ ایک صنف سمجھا جائے۔ خیال کو مقبول ہوئے کوئی بہت عرصہ نہیں ہوا آج سے سو سے ڈیڑھ سو سال قبل تک دھرپد کو ہی واحد معیاری دستوری موسیقی کی وضع خیال کیا جاتا تھا، اگرہ ، کیرانہ ، پنجاب اور گوالیار کے خیال گائیکی کے گھرانوں کے بانیان خود یا ان آبا دھرپد گائیک ہی تھے جو خیال گائیکی کی خوبصورتی اور اسکی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے خیال گائیک بن گئے۔ خیال کی وضع چونکہ ابھی دھرپد کی طرح جامد غیر متحرک اور بند نہیں تھی ، اسلیئے جس جس علاقے میں گئی وہاں کی مقامی روایات اور گائیک کی طبع کے مطابق نئے عناصر کو اپنے اندر جذب کرتی گئی۔ جسی کی وجہ سے خیال کی وضع میں بہت ورائٹی اور رنگا رنگی پیدا ہوگئی ۔ آپ کو آگرہ گرانے کے دھرپد سے قریب تر خیالوں سے لے کر جے پور کے فوک میوزک سے متاثر خیالوں کے مختلف رنگ نظر آجاتے ہیں ۔ خیال گائیکی میں سب سے اہم چیز اس کی بندش ہوتی ہے ۔ خیال کے بولو ں کو سراور لے کے اندر باندھا جاتا ہے اس کو بندش کہتے ہیں۔ استھائی اس کے کے بولوں کا ابتدئی اور انترا دوسرا حصہ ہوتا ہے ۔ استھائی کو بھرنا ہی خیال گائیکی ہے ۔ چند بار بندش اپنے اصل انداز میں سناکر گائیک لے کو آلاپ ، بہلاوں اور تانوں سے بھرنے لگتا ہے اور ہر آوردی کے آخیر میں بول پکڑ کر سم پر آجاتاہے۔ خیال کا ٹیمپو آہستہ آہستہ تیز ہوتا جاتا ہے جو بڑھت کرنے میں گائیک کی مدد کرتا اور گائیک کو نئی نئی طرح سے اپنے فن کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ غرض یہ کہ جب تک خیال وضع کی گائیکی متحرک اور کھلی ہے اپنے اندد نئی نئی اختراعات اور تخلیقات کی اجازت دیتی ہے اور دوسری نظام ہائے موسیقی سے نئے عناصر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے زندہ رہے گی۔ اور جب دھرپد کی طرح جامد اور بند وضع بن جائے گی متروک قرار دے دی جائے گی۔
ٹپہ کے بارے میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس کو رائج کرنے والا میاں غلام نبی شوری لکھنئو کا باشندہ تھا جس کا عہد اٹھارویں صدی عیسوی کا وسط تھا۔ میاں غلام نبی شوری نے پنجاب کا سفر کیا تو وہاں کے لوگوں کو ٹپہ گاتے سنا، اور جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے وہ ٹپہ کے انداز گائیکی سے نہیں بلکہ پنجابی زبان اور ٹپہ کے بولوں سے زیادہ متاثر ہوا۔ لکھنئو واپس آکر اس نے پنجاب کی اس مقامی صنف کو ایک نیا انداز دیتے ہوئے لکھنئو میں رائج کیا۔مختلف راگوں کے لیے ٹپہ کے سینکڑوں بول (پنجابی یا پنجابی زبان سے مخلوط) تصنیف کیے اور ٹپہ گائیکی کے قواعد وضع کیے ۔ٹپہ ایک نہایت مختصر وضع موسیقی ہے ۔ نہ تو اس میں دھرپد اور بعض خیال گھرانوں کی طرح کے لمبے لمبے آلاپ کی اجازت ہوتی ہے ۔ نہ اس میں بول آلاپ اور بول بہلاوے ہوتے ہیں ۔نہ ہی خیال کی طرح سیکڑوں طرح کی تانوں سے اس کو مزین کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں چند باریک دانے دار بول تانوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بھی خیال کی طرح طویل اور مسلسل نہیں ہوتیں بلکہ ان کو توڑ کر اڑھائی سے ساڑے تین تک کے ٹکڑوں میں بانٹ لیا جاتا ہے پوری بڑھت انہی تانوں میں ہوتی ہے ۔آپ اسے خاص قسم کی تانوں کا ایک گلدستہ کہ سکتے ہیں ۔بول ٹپہ کے پنجابی یا پنجابی ، اردواور ہندی الفاظ کے مکس ہوتےہیں ۔ خیال کی طرح اس کے بول بھی استھائی اور انترا ، دوحصوں پر مشترک ہوتے ہیں۔ مضامین اس کے بولوں کے ٹھمری سے ملتے جلتے ہیں مگر متصوفانہ اور ناصحانہ مضامین بھی سننے میں ملتےہیں ۔
کہتے ہیں کہ جہاں خیالیے (خیال گائیک ) کا ریاض ختم ہوتا ہے وہاں سے ٹپہ کی تیاری شروع ہوتی ہے ۔ یہ بات قطعی درست نہیں ہے ، ٹپہ ایک مشکل صنف گائیکی ضرور ہے اور اس پر عبور حاصل کرنے کے لیے کڑا ریاض بھی چاہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ خیال سے بڑھ کر کوئی چیز ہے ۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ٹپہ ایک نہایت مختصر وضع ہے اس میں گائیک کے پاس کرنے کے لیے بہت کام نہیں ہے ۔ دوسرا یہ کہ ٹپہ ٹھمری کی طرح چند ایک راگوں میں ہی گایا جاسکتا ہے ، یہ وضع ہر طرح کے راگوں کے لیے یکساں موزوں نہیں ہے ۔ تیسرا یہ کہ جیسے دھرپد گانے کے لیے ایک خاص قسم کی گھمبیر اور بھاری آواز چاہے ہوتی ہے ویسے ہی ٹپہ گائیکی باریک آواز (زنانہ انگ کی )کے لیے موزوں ہے ۔ خیال گائیکی کے لیے جتنی کھلے اکار کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ ٹپہ گائیکی کے لیے قطعاً غیر موزوں ہےاسی لیے عمومی طورپر خیال گائیک ٹپہ سے اعراض برتتے ہیں اور پنجاب میں ٹپہ کے رائج نہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ پنجاب انگ کی گائیکی کے لیے جو آواز تیار کی جاتی ہے وہ ٹپہ نہیں گا سکتی(ٹپہ کے لیے گلے کی تان چاہیے جبکہ خیال میں گلے کی تان معیوب سمجھی جاتی ہے اور خیال کوسینے کا گانا سمجھا جاتاہے) ۔یہی وجہ ہے کہ خیال کے بڑے بڑے گائیک ٹپہ کی ایک تان دکھانے سے بھی قاصر رہتے ہیں (استاد سلامت اور استاد فتح علی خان گوالیاری کی ریکارڈنگ دستیاب ہیں )۔مگر اسے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور کرنی چاہے کہ ٹپہ کے گائیک بھی اچھے خیالیے نہیں بن سکتے ۔ مالنی راجوکر ، استاد مشتاق حسین خان، پنڈت کرشن راو شنکر پنڈت ، گرجا دیوی اور سدیشوری دیوی جو ٹپے کے گائیک ہیں وہ خیال کے اتنے اچھے گائیک نہیں سمجھے جاتے اور نیم کلاسیکی اوضاع تک محدود ہو جاتے ہیں ۔( آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ گائیک خیال گاتے تو ہیں چاہے اتنا اچھا نہ سہی ، جبکہ خیال گائیک تو برا ٹپہ بھی نہیں گا سکتے ۔ تو اسکی وجہ یہ ہے کہ خیال اس وقت کلاسیکی موسیقی کی سب سے معیاری وضع ہے کوئی بھی گائیک چاہے ہو کچھ اور گائے نہ گائے اگر کلاسیکل موسیقی میں آنا چاہتا ہے تو خیال ضرور گانا پڑے گا، اس لیے ٹپہ گائکوں کو خیال گائیکی کے لیے بھی ریاض کرنا پڑتا ہے، دوسری وجہ خیال گائیکی میں بہت گنجائش اور تنوع ہے جس کی وجہ سے ان کا کام چل جاتا ہے)۔ ٹپہ کے گائیکوں کو ہر سر کو جھلانے کی جو عادت پڑ جاتی ہے وہ ان کا خیال میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی جو خیال گائیکی میں نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
ٹپہ کی محدودیت، جذبات اور راگ کی ترجمانی کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالتی ہے ۔ اس کی مشکل پسندی اور مصنوعیت آہ کی بجائے واہ کے لیے زیادہ موزوں ہے ۔ گانے کے لیے ایک بہت خاص قسم کی آواز درکار ہوتی ہے۔فن کا مکمل اظہار نہیں بلکہ کسی بھی کنسرٹ میں ٹھمری کی طرح آخر میں سنائی جانے والی ضمنی چیز سمجھی جاتی ہے۔ اس پر کمال حاصل کرنے کے لیے خیال گائیکی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ، اس کی گائیکی ہر علاقے کے انداز گائیکی (مثلاًاگرہ اور پنجاب) سے میل نہیں کھاتی۔ اس کی وضع جامد اور بند ہونے کی بنا پر وقت کے ساتھ اپنے اندر تبدیلی لانے سے قاصر ہے اور نئی اختراعات کو اپنے اندر جذب نہیں کرسکتی ۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ وضع اب متروک ہوتی جارہی ہے۔
ٹھمری ایک لائٹ کلاسیکل فارم ہے ۔ لفظی طور پر ٹھمری کا مطلب ہی نرت یعنی رقص ہے ۔ یہ وضع پہلے پہلے رقص کے ساتھ گائی جاتی تھی ۔ بول کے ساتھ جسمانی حرکات کے ذریعے جذبات کی ترسیل کی جاتی تھی اور شروع میں صرف خواتین(رقاصاوں ) کے ساتھ مخصوص صنف تھی ، مگر بعد ازاں مرد گویوں نے بھی اسے اپنایا اور رقص کے بھاؤ کی کمی کو آواز کے لوچ اور گائیکی کے بھاؤ سے دور کرکے موجودہ ٹھمری بنادی ۔ٹھمری میں سنگھار رس اور بول بھاؤ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے ۔ اسکے بولوں کے لیے کرشن اور گوپیوں کی چھیڑ چھاڑ کے مضامین مخصوص ہیں ، اس کے علاوہ راگ کے مطابق ، موسمی ، برہا ، اور بیراگ کے مضامین بھی باندھے جاتے ہیں مگر سنجیدہ ، ناصحانہ اورصوفیانہ مضامین اس میں استعمال نہیں ہوتے ۔ تالیں بھی ٹھمری کے ساتھ مخصوص ہیں ، اکہروے میں زیادہ تر ٹھمریاں گائیں جاتی ہیں ، علاوہ ازیں دیپ چندی ، تین تال اور دیگر ہلکے پھلکے ٹھیکے بھی استعمال کیے جاتے ہیں ۔
ہوری،دھمار، سادرہ، ترانہ ، تروٹ، نقش ،گل ، چھند، پربندھ، جکری، چترنگ ،سرگم، تلانہ، قول ، قلبانہ، کافی ، چٹکلہ ، کش پد ھ ، بشن پدھ اور دادرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میں سے کچھ ابھی مروج ہیں کچھ متروک ہوگئے سب اوضاع موسیقی تو ہیں مگر بنیادی نہیں ۔ بلکہ ان میںمذکورہ بالا چار اوضاع میں کسی ایک کی یا ایک سے زیادہ کی مخلوط تکنیک کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ترانہ جس کا آپ نے ذکر کیا یہ بولوں کے لحاظ سے تو الگ صنف ہے مگر انداز گائیکی میں خیال ہی کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے ۔ یاد رہے کہ ترانے صرف درت لے ہی میں نہیں بلکہ بلمپت بندشوں کے بھی پائے جاتے ہیں اگرچہ کم سننے میں آتے ہیں ۔ دھمار اور سادرہ میں دھرپد کی تکینک استعمال ہوتی ہے مگر تال کے فرق سے یہ الگ اوضاع بن جاتی ہیں ۔اسی طرح داردا ایک طرح کی ٹھمری ہی ہے جو دادرا تال میں گائی جاتی ہےْ۔ قول اور قلبانہ میں خیال کی تکینک استعمال ہوتی ہے مگر پولوں کی وجہ سے الگ اصناف بن جاتی ہیں؛ کافی میں ٹھمری کی تکینک کا استمعال ہوتا ہے مگر شاعری کی بنا پر الگ صنف کہلاتی ہے ۔ نقش اور گل کچھ ٹھمری اور کچھ ٹپہ کے ملاپ سے بنتا ہے ۔ تروٹ کا معاملہ کچھ اور ہے وہ اصل میں گائیکی کی صنف ہے ہی نہں بلکہ پکھاوج کے بول ہیں تو خوبصورتی ہے لیے ترانے اور چتررنگ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سرگم ہے وہ بھی خیال کی تکینک کو استعمال کیا جاتا ہے مگر بجائے بولوں کے سرگم کے الفاظ کو بطور بول لیتے ہیں ۔
 

عثمان ستار

محفلین
مندرجہ بالا مضمون فیس بک پر وارث بھائی اور طارق ایوب خان صاحب کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اور اب وارث صاحب کے حکم کی تکمیل میں یہاں پوسٹ کردیا ہے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
کیا ان تمام اصناف کی مثالیں بھی یوٹیوب وڈیوز کی صورت میں دی جا سکتی ہیں؟ اس طرح سے مبتدیوں کی بہتر رہنمائی ہو سکتی ہے۔
 

عثمان ستار

محفلین
کیا ان تمام اصناف کی مثالیں بھی یوٹیوب وڈیوز کی صورت میں دی جا سکتی ہیں؟ اس طرح سے مبتدیوں کی بہتر رہنمائی ہو سکتی ہے۔
خیال گائیکی کے گھرانے ہوتے ہیں جبکہ دھرپد گائیکی میں بانیاں ہوتی ہیں ۔ بانی کا لفظی مطلب زبان ، منہ سے نکلی ہوئی بات یا قول کا ہے مگر یہاں اس مطلب اسلوب یا طریقہ کا ہے ۔ دھرپد گائیکی کی بانیاں متعدد تھیں؛ نوہارو، گندھار، گوری اور ڈاگر۔ مگر ان میں سے اب صرف ڈاگر بانی ہی باقی ہے ، باقی اسالیب وقت کے ساتھ ختم ہوگئے ۔ آج جو بھی دھرپد گائیک ہیں ان سب کا تعلق ڈاگر بانی کے ساتھ ہی ہے ۔
استاد سعید الدین ڈاگر کا گایا ہوا راگ بھوپالی میں دھرپد ملاحظہ ہو۔ پہلے وہ سنسکرت میں ایک منتر پڑھتے ہیں پھر نوم توم الاپ شروع کرتے ہیں ۔ نوم توم الاپ دھرپد کا سب سے اہم اور بڑا حصہ ہوتا ہے ۔ پورے راگ کی بڑھت اسی الاپ میں ہوتی ہے ، اس کے بعد دھرپد(تال کے ساتھ) گایا جاتا ہے جس کے چار حصے ہوتے ہیں استھائی ،انترا،ابھوگ اور سنچاری۔ مگرتال والا حصہ دھرپد کا بہت مختصر حصہ ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر گائیک نے ایک گھنٹہ آلاپ کیا ہے تو صرف دس پندرہ منٹ میں وہ دھرپد گا کر ختم کردے گا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ دھرپد گائیک صرف الاپ کر کے ختم کردیتے ہیں ۔ اور دھرپد کے چاروں حصے تو اب شاذ ہی سننے میں آتے ہیں زیادہ تر گائیک صرف استھائی اور انترا گا کر کام ختم کردیتے ہیں ۔
اس ویڈیو میں منتر گانےکے بعد استاد سعید الدین ڈاگر بہت بلمت الاپ شروع کرتے ہیں جوآہستہ آہستہ تیز ہوتا جات ہے ، ویڈیو کے دوسرے حصہ میں اس آلاپ کی لے تقریباً مدھ (درمیانی) تک پہنچ جاتی ہے ۔ یہاں آپ خیال گائیکی کی بڑھت اور دھرپد آلاپ کے بڑھت کا موازنہ کرسکتے ہیں ۔ خیال گائیک جو بڑھت لے کے ساتھ خیال کے بولوں کو لےکر کرتا ہے دھرپد گائیک اسی بڑھت کو بغیر لے کے ( لے ہوتی ہے مگر چھپی ہوتی ہے ) صرف نوم توم الاپ میں کرتا ہے ۔ اور جیسے خیال اتی بلمپت سے بلمپت ، پھر برابر اور اسکے بعد درت اور اتی درت کی طرف بڑھتا ہے اسی طرح یہ الاپ بھی آہستہ آہستہ رفتار تیز کرتے جاتے ہیں ۔الاپ کے چھوتھے حصے میں درت الاپ دیکھیں یہاں پر اتی درت الاپ نہیں ہیں ( نیز یہ بھی خیال رہے کہ دھرپد کی لے خیال کی لے سے دھیمی ہوتی ہے )
اسکے بعد دھرپد شروع ہوگا ۔ دھرپد میں چند ہی تالوں کا استعمال ہوتا ہے جن میں سب سے اہم یہ چوتال ہے جیسے ہم آڑا چوتالہ بھی کہتے ہیں ۔دھرپد میں لے صرف پکھاوج سے دی جاتی ہے طبلہ یا کسی اور چیز کا استعمال نہیں کیا جاسکتا،۔دھرپد کے لے والے حصہ میں خیال کی طرح کی بڑھت نہیں ہوتی بلکہ زیادہ زور بول اور لے بانٹ پر رہتا ہے ۔ آخری حصہ میں دیکھیں بولوں کو لے میں کیسے تقسیم کیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ دھرپد میں خیال کی طرح ہر قسم کی تانوں کی اجازت نہیں ہے بلکہ آلاپ یا بول والے پورشن میں صرف گمگ دیکھائی جاسکتی ہے ۔http://youtu.be/oUUYRGSR40A
 

عثمان ستار

محفلین
اوپر میں نے سہوا لکھ دیا کہ دیگر اسلوب ختم ہوگئے ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ دیگر بانیاں نسلا (بلڈ لائن سے حساب سے ) ختم ہوگئی ہیں مگر ان بانیوں کے شاگرد گھرانے ابھی موجود ہیں ۔ جیسے کندھاربانی کے شاگرد گھرانوں میں پنجاب کا تلونڈی گھرانہ اور بہار کا ملکوں کا گھرانہ (دھربنگہ دھرپد) اور مشرا گھرانہ (بیٹیہ گھرانہ ) موجود ہیں ۔ مشرا گھرانے کے گویے نوہاروبانی کے اسلوب کو بھی استعمال کرتے ہیں اور ان کے پاس اس بانی کی کئی تصانیف بھی موجود ہیں ۔
 

عثمان ستار

محفلین
عالیہ رشید کا تعلق لاہور سے ہے ، پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہیں مگر دھرپد بہت اچھا گاتی ہیں پاکستان میں دھرپد گائیکی کو دوبارہ رائج کرنے کی فی الحال یہ واحد مثال ہیں ۔ انہوں نے دھرپد کی تعلیم گھنڈوچہ برادران سے لی جو ڈاگر بانی کے شاگرد ہیں ۔ ہر سال آل پاکستان میوزک کانفرنس میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور فن دونوں میں برکت دے ان سے بہت امیدیں ہیں ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راگ ماروا میں ان کا گایا ہوا ایک دھرپد
 

سید ذیشان

محفلین
یعنی خاطر خواہ افاقہ نہیں ہوا ابھی:)
ہاہاہاہا
نہیں جناب بہت ہی اعلیٰ۔ ہم تو موسیقی سے بالکل نابلد ہیں۔ اور آپ کی تحریر بہت ہی کمال لگی۔ خاص طور پر مثالیں۔ اور ہم یہی چاہیں گے کہ مزید مثالیں بھی میسر ہوں کہ کوئی چاشنی نہ رہے۔
 

عثمان ستار

محفلین
ہاہاہاہا
نہیں جناب بہت ہی اعلیٰ۔ ہم تو موسیقی سے بالکل نابلد ہیں۔ اور آپ کی تحریر بہت ہی کمال لگی۔ خاص طور پر مثالیں۔ اور ہم یہی چاہیں گے کہ مزید مثالیں بھی میسر ہوں کہ کوئی چاشنی نہ رہے۔
چاشنی رہنی چاہے ۔
یک سخن نیست کے خامشی ازاں بہتر نیست
نیست علمی کہ فراموشی ازاں بہتر نیست
 

فاخر

محفلین
عمدہ اشتراک ہے ۔
خیر سے میں تو نہیں جانتا ہے کہ موسیقی اور وہ بھی کلاسیکی موسیقی جس کو ہندوستانی زبان میں ’’شاستری سنگیت‘‘ کہتے ہیں کیا ہے؟۔ البتہ ان فن سے تعلق رکھنے والے نامور اور معروف گھرانوں میں ایک گھرانہ ’’رامپور سہسوان ‘‘ گھرانے کے ممبران کو جانتا ہوں ان لوگوں سے گہرے مراسم بھی ہیں ۔ اسی گھرانے میں ایک معروف ہستی گزری ہے جنہیں ’خیال‘ میں غیر معمولی دسترس حاصل تھا؛بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ رامپور کے نواب کے درباری موسیقی کار بھی تھے ۔ ان کا نام نامی اسم گرامی استاد مشتاق حسین خان صاحب تھا ۔انہیں ہندوستانی حکومت کی طرف سے فن موسیقی میں بیش بہا خدمات کے صلہ میں 1957ء میں ’پدم بھوشن‘ نامی ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔ ان کے متعلق ویکی پیڈیا میں یہ تفصیلات ہیں جسے میں لنک میں پیش کررہا ہے Mushtaq Hussain Khan - Wikipedia
علاوہ ازیں اس فن کے جانکاروں کی خدمت میں مرحوم استاد مشتاق حسین خان صاحب کے آڈیو میں ان کی موسیقی پیش کررہا ہوں ۔ اسے اس سلسلہ کی کڑی سمجھا جائے ۔
 
Top