مرزا یاس یگانہ چنگیزی عرف غالب شکن۔۔۔۔از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان

Dilkash

محفلین
مرزا یاس یگانہ چنگیزی عرف غالب شکن

آج آپ کو ایک منفرد مگر رسوائے زمانہ شاعر کی باتیں سناتا ہوں‘ حال ہی میں ان پر ایک کتاب رسالے کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ لاہور سے ایک سستا رسالہ کتاب کی صورت میں ہر ماہ نکلتا ہے‘ نام ہے سپتنک‘ 160 صفحات کا رسالہ کافی ضخیم کہلاتا ہے اور قیمت محض 30 روپے فی رسالہ۔ اسے میرے اَن دیکھے مہربان آغا امیر حسین کلاسک پبلشرز ریگل چوک مال روڈ لاہور سے نکالتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ ہزاروں کی تعداد میں بک جاتا ہے۔ اس کے چیئرمین پنجاب کے سابق گورنر شاہد حامد ہیں‘ بڑے بڑے ادیب شاعر اس کی مجلس ادارت میں شامل ہیں

پتہ نہیں کس خیال سے آغا صاحب نے میرا نام بھی مجلس ادارت میں ٹانک دیا ہے۔ اس رسالے میں آغا صاحب بڑی عجیب و نایاب قسم کی چیزیں چھاپتے ہیں‘ میری دو کتابیں بھی سپتنک کے رسالوں میں شائع ہو چکی ہیں‘ اس رسالے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی حیرت انگیز کم قیمت ہے۔ اس مرتبہ اس رسالے میں لکھنؤ عظیم آباد کے راندئہ درگاہ اور متنازعہ شاعر مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا ذکر ہے‘ وہ 1884ء میں پیدا ہوئے اور 1956ء میں فوت ہوئے‘ وہ کچھ عرصہ کے لئے پاکستان بھی آئے‘ لاہور و کراچی میں مشاعرے پڑھے‘ ایک بار ہمارے صوبے میں کاکول کے مقام پر مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔

انکی تصانیف کے نام نشتر یاس‘ چراغ سخن‘ آیات وجدانی‘ غالب شکن ترانہ اور گنجینہ ہے۔ وہ انتہائی خود پرست اور انسان شکن قسم کے آدمی تھے‘ اپنے سوا دنیا میں کسی کو شاعر نہیں مانتے تھے‘ غالب شکنی ان کی وجۂ شہرت بنی ورنہ ان کا نام تک کوئی نہ جانتا نہ لیتا۔ ان کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ ہندوستان کی ادبی دنیا میں بیسویں صدی کا سخنور علی الاطلاق تنہا شاعر‘ آرٹسٹ اور جینئس مرزا یگانہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ٹھہر سکتا۔ ان کی طبیعت میں انکساری‘ خاکساری‘ وضع داری اور دوسروں کا احترام نام کو نہ تھا‘ اسی وجہ سے ان کو آخری عمر میں گھسیٹ کر گدھے پر سوار کر کے منہ کالا کر کے سارے لکھنؤ شہر میں پھرایا گیا مگر پھر بھی ان میں عقل نہ آئی۔

وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے‘ وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے اپنی کتاب چنگیز خان کے نام معنون کی۔ ان کا سر ساری زندگی فخر سے تنا رہا‘ جیل کی ہوا بھی کھائی مگر ٹین نہ ٹوٹی‘ نہ ہندوستان میں ان کو گھاس ڈالی گئی نہ پاکستان میں۔ بلکہ صرف گھاس ہی ڈالی گئی اور وہ اس گدھے کے لئے تھی جس پر بٹھا کر لکھنؤ میں ان کا جلوس نکالا گیا۔ وہ اقبال کو بھی شاعر نہیں مانتے تھے‘ فراق لکھنوی کے بارے میں لکھا کہ شعر و شعریت پر لیکچر دینے والے تو بہت ہیں مگر آپ (فراق) نے یہ بھی کہیں پڑھا ہے کہ شعر گوئی کے اصول اور اس کے گر کیا ہیں۔

حسرت موہانی کے بارے میں رقم طراز ہوئے‘ ان کی شاعری کچھ ایسی بلند تو نہیں البتہ غیر شاعرانہ وجوہ کی بناء پر انہیں چمکانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ کوئی شریف آدمی خواہ وہ کتنا ہی خوش مزاج اور بہت سے حج کر چکا ہو یہ کیا ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے اسے بڑا شاعر بنا دیا جائے۔ اصغر گونڈوی کے بارے میں لکھتے ہیں ایک گنوار گونڈوی کو یگانہ کا مدمقابل نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ جوش ملیح آبادی کے بارے میں فرمان ہے جوش اس دور کا جینئس شاعر ہے مگر بھٹکا ہوا اور فن شعر میں ناقص‘ جگر مراد آبادی کے بارے میں کہتے ہیں اناڑی موزوں طبع‘ غرض ان کے قلم کی زد سے کوئی نہیں بچا۔ ان کی آل اولاد پاکستان میں ہے اور بڑے عہدوں پر کام کر رہی ہے۔

یگانہ کو کہیں کام کی مستقل ملازمت نہیں ملی‘ ہر جگہ سے نکالے گئے‘ خود سری اور بدمستی کے کارن دلّی‘ لکھنؤ‘ لاہور سب شہروں میں ان کا سماجی مقاطعہ ہوا‘ مزے کی بات ہے کہ جن باتوں کو وہ شاعری کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک بھی ان کے اپنے کلام میں نہیں۔ ان کا ایک شعر یاد رکھنے کے قابل نہیں‘ وہ شاعری کے لئے مردانگی کو اعلیٰ مقام بخشتے ہیں مگر لاثانی اور آل ٹائم گریٹ علامہ اقبال کی شاعری کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں‘ اقبال کی شاعری اعلیٰ ترین مردانگی اور علم و فضل کی وجہ سے ہی بڑی شاعری سمجھی جاتی ہے۔ میں نے یگانہ کے بارے میں کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی مگر اب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ زمانے نے وہی سلوک کیا جس کے وہ مستحق تھے۔
 

سویدا

محفلین
یگانہ کے بارے میں مشفق خواجہ مرحوم نے بہت تحقیقی کام کیا ہے ان کی تمام کتابوں کو یکجا کردیا ہے کلیات یگانہ کے نام سے
مشفق خواجہ مرحوم کی عمر کا آخری دور یگانہ پر تحقیق کرتے ہوئے ہی گذرا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان صاحب کا اپنا رویہ اس مضمون کے سلسلے میں انتہائی معتصبانہ اور طنزیہ ہے، حقائق کو نہ صرف توڑ موڑ کر پیش کیا ہے بلکہ اپنا مقصد حاصل کرنے یعنی یگانہ کو رسوا کرنے کیلیے ان کو اپنی مرضی سے استعمال بھی کیا ہے۔

انتہائی معتصب لکھنؤ میں جب یگانہ وارد ہوئے تو انہوں نے انہیں باہر والا سمجھ کر ان کو بالکل شاعر ہی نہ جانا، اور اپنے مقامی برے سے برے شاعروں کو جو غالب کے رنگ میں کہتے تھے ان کو خدائے سخن کہتے تھے اور یہیں سے ان کی مرحومیوں اور غالب دشمنی کا آغاز ہوا۔

جہاں تک گدھے پر جلوس نکلنے کا تعلق ہے تو افسوس ہوا ڈاکٹر صاحب پر، وہ اسطرح اس حکایت کو بیان کر رہے ہیں جیسے کوئی اخلاقی مجرم ہو، حالانکہ نہ تو یگانہ کو شراب پینے کے جرم میں اور نہ جوا کھیلنے کے جرم میں اور نہ زنا کرنے کے جرم میں گدھے پر بٹھایا گیا (واضح رہے کہ ان تمام اخلاقی برائیوں کا شعرا نے ڈنکے کی چوٹ پر ذکر کیا ہے، جیسے غالب و جگر و جوش وغیرہم لیکن ان کا گدھے پر جلوس نکالنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوئی)۔

جلوس نکلا تو بیچارے یگانہ کا اور کس جرم میں، قلم کے جرم میں کہ ایک مضمون لکھا تھا اور جن کے خلاف تھا (یعنی اہلِ تشیّع جب کہ یگانہ خود بھی شیعہ تھے) انہوں نے پکڑ کر گدھے پر جلوس نکال دیا کیونکہ یگانہ غریب تھا، لاچار و بے کس و بے یار و مددگار تھا۔

ع- تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو

جہاں تک دوسروں کی شاعری پر تنقید کرنے کی بات ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، جوش بھی تو اقبال کو شاعر نہیں سمجھتے تھے اور حفیظ جالندھری کے جانی دشمن تھے تو اس سے کیا ہوا؟ کیا جوش کا ادبی مرتبہ کم ہو گیا۔

یگانہ کے متعلق مزید کچھ معلومات اور انکی شاعری اس ربط پر پڑھیے۔
 
وارث صاحب اگر دل چاہے تو آپ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان صاحب کو فون کرکے بھی آپ دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں ڈاکٹر صاحب کا فون نمبر آپ کو ذپ کروں؟؟؟؟
 

Dilkash

محفلین
ڈاکٹر صاحب کا فون نمبر مجہے دیدو روحانی بابا۔

مجہے انکا فون نمبر چاہئے۔

وارث بھائی
میرا خیال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کسی میگزین کے مضمون کا خلاصہ بیان کیا ہے۔
کیونکہ وہ خود لکہ رہے ہیں کہ انہیں مرحوم یگانہ کے بارے میں زیادہ کچہ معلوم نہیں،۔

وارث صاحب
وہ مضمون اگر یہاں شامل کیا جائے تو مہربانی ہوگی۔

اگر مشفق خواجہ صاحب رح کا کوئی تحریر اگر شامل ہو ہو تو کیا بات ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ آفریدی بھائی، ڈاکٹر صاحب کا مطالعہ یگانہ پر واقعی بالکل نہیں ہے حالانکہ یگانہ کی صرف "چراغِ سخن" ہی ان کو زندہ و جاوید رکھنے کیلیے کافی ہے کہ عروض پر اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔

افسوس کہ مشفق خواجہ صاحب کی کوئی تحریر میرے پاس نہیں ہے، دراصل انہوں نے کلیاتِ یگانہ مرتب کیے ہیں اور اسکے شروع میں انکے حالات بھی درج کر دیئے ہیں لیکن افسوس کہ ابھی تک میری نظر سے یہ کلیات نہیں گزرے۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
یگانہ کا کچھ تعارف جو میں نے لکھا تھا اسے اصل تھریڈ سے کاپی کر کے یہی لکھ رہا ہوں جیسا کہ آپ کی خواہش ہے آفریدی بھائی، یگانہ کی کتب کی تفصیل اور شاعری اس اصل تھریڈ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

-------------
یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ والوں کو ایک آنکھ نہ بھائے۔ بقول مجنوں گورکھپوری، "لکھنؤ کے لوگوں میں اتنا ظرف کبھی نہ تھا کہ کسی باہر کے بڑے سے بڑے شاعر کو لکھنؤ کے چھوٹے سے چھوٹے شاعر کے مقابلے میں کوئی بلند مقام دے سکیں۔" (غزل سرا، نئی دہلی 1964ء بحوالہ چراغِ سخن از یگانہ، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)۔

اور یہیں سے یگانہ اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان ایک ایسی چشمک شروع ہو گئی جو یگانہ کی موت پر بھی ختم نہ ہوئی، مزید برآں یہ کہ اس وقت لکھنؤ کے شعرا غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اپنے ہر اس شاعر کو مسندِ علم و فضل پر بٹھا دیتے تھے جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا چاہے جتنا بھی برا کہتا تھا سو یگانہ کی اپنی محرومی کے سبب غالب سے بھی دشمنی پیدا ہو گئی اور آخری عمر تک غالب کے کلام میں نقص تلاش کرتے رہے اور انکا اظہار کرتے رہے۔

لیکن ہمیشہ کی طرح، ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسندِ شہود پر نہ آتے اور انہی میں یگانہ کی علمِ عروض پر لازوال اور "اتھارٹی" کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب "چراغِ سخن" ہے جو انہیں معرکوں کی یادگار ہے جس کے سرورق پر مرحوم نے لکھا تھا۔

مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے

Yas+Yagana_1.jpg


کاغذوں پر سیاہی خیر ملی ہی جاتی ہے، لیکن اس مظلوم الشعرا کے ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی اہلِ قلم کے ساتھ نہ ہوا ہوگا۔ انہوں نے ایک اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں ایک فرقے کے خلاف کچھ تند و تیز و متنازعہ جملے تھے سو قلم کی پاداش میں دھر لیے گئے، جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو اہلیانِ محلہ نے پکڑ لیا، منہ پر سیاہی ملی، جوتوں کا ہار پہنایا، گدھے پر سوار کیا اور شہر میں جلوس نکال دیا۔

مدیر نقوش، محمد طفیل نے یگانہ سے ان کے آخری دنوں میں ملاقات کی تھی، اس ملاقات کی روداد انہوں نے اپنی کتاب "جناب" میں یگانہ پر خاکہ لکھتے ہوئی لکھی ہے، مذکورہ واقعہ کا ذکر کچھ یوں آیا ہے۔

"بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے میرا جلوس دیکھا تھا؟"
"کیسا جلوس؟"
"اجی وہی جس میں مجھے جوتوں کے ہار پہنائے گئے تھے، میرا منہ بھی کالا کیا گیا تھا اور گدھے پر سوار کر کے مجھے شہر بھر میں گھمایا گیا تھا۔"
"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ جلوس نہیں دیکھا۔"
"واہ صاحب وا، آپ نے تو ایسے اللہ کا شکر ادا کیا ہے جیسے کوئی گھٹیا بات ہو گئی ہو، سوچو تو سہی کہ آخر کروڑوں آدمیوں میں سے صرف مجھی کو اپنی شاعری کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ یہ درجہ غالب تک کو نصیب نہ ہوا، میر تک کو نصیب نہ ہوا۔"
میں چاہتا تھا کہ میرزا صاحب اس تکلیف دہ قصہ کو یہیں ختم کر دیں مگر وہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اسکے بدلے یہ گراں قدر انعام پایا ہو۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فوراً دو غزلہ کے مُوڈ میں آ گئے۔ "جی ہاں جناب، آپ کے لاہور میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔"
"وہ قصہ کیا تھا۔"
"جناب قصہ یہ تھا کہ میرزا یگانہ چنگیزی یہاں سے کراچی کا پاسپورٹ لے کے چلے تھے اور لاہور پہنچ کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پنجاب سے نکل کر سرحد پہنچ گئے تھے، واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ (ایک دم جمع سے واحد کے صیغے پر آ گئے)۔ اکیس روز جیل میں بند رہا، ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا گیا، پہلی پیشی پر مجسٹریٹ صاحب نے نام پوچھا۔ میں نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بڑی شان سے بتایا۔ "یگانہ"۔
ساتھ کھڑے ہوئے ایک وکیل صاحب نے بڑی حیرت سے مجھ سے سوال کیا۔ "یگانہ چنگیزی؟"۔
"جی ہاں جناب۔"
یہ سنتے ہی مجسٹریٹ صاحب نے (غالباً آفتاب احمد نام بتایا تھا) میری رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔
جب رہا ہو گیا تو جاتا کدھر؟ اور پریشان ہو گیا، مجسٹریٹ صاحب نے میری پریشانی کو پڑھ لیا، میں نے ان سے عرض کیا، میرے تمام روپے تو تھانے والوں نے جمع کر لیے تھے، اب مجھے دلوا دیجیئے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا، درخواست لکھ دیجیئے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، کاغذ کہاں سے لاتا اور کیسے درخواست لکھتا، اس پر بہ کمالِ شفقت مجسٹریٹ صاحب نے مجھے ایک آنہ دیا اور میں نے کاغذ خرید کر درخواست لکھی جس پر مجھے فوراً روپے مل گئے۔ آپ لاہور جائیں تو آفتاب احمد صاحب کے پاس جا کر میرا سلام ضرور عرض کریں۔
اور ہاں آپ بھی لاہور جا کر اب یہ کہیں گے کہ یگانہ سے ملے تھے، آپ یگانہ سے کہاں ملے ہیں؟ یگانہ کو گوشت پوست کے ڈھانچے میں دیکھنا غلط ہے، یگانہ کو اس کے شعروں میں دیکھنا ہوگا، یگانہ کو اس ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دیکھنے کی بجائے اس مسند پر دیکھنا ہوگا جس پر وہ آج سے پچاس برس بعد بٹھایا جائے گا۔"

یگانہ کی مظلومیت یہیں ختم نہیں ہوتی، ان کو موت کے بعد بھی نہ بخشا گیا، ان کا جنازہ پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فقط کچھ لوگ ہی انکے جنازے میں شامل تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی
 

محمد وارث

لائبریرین
ان کا ایک شعر یاد رکھنے کے قابل نہیں‘

کاش کوئی صاحب یگانہ کے یہ شعر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میرے شکریے کے ساتھ ارسال کر دیں۔

علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی

آنکھ نیچی ہوئی، ارے یہ کیا؟
کیوں غرض درمیان میں آئی

میں پیمبر نہیں یگانہ سہی
اس سے کیا کسر شان میں آئی

-----

خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

-----

مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا

-----

حُسن پر فرعون کی پھبتی کہی
ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی

شک ہے کافر کو مرے ایمان میں
جیسے میں نے کوئی منہ دیکھی کہی

-----


کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے

خضرِ منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی ہے

-----
امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا

-----
جو خاک کا پُتلا، وہی صحرا کا بگولا
مٹنے پہ بھی اک ہستیِ برباد رہے گی

-----------
اور اگر کبھی کلیاتِ یگانہ مل گئے تو ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں کچھ اور اشعار ارسال کرونگا :)
 

فاتح

لائبریرین
وارث صاحب! سوچتا ہوں یاسؔ یا ایسے ہی کسی اور بڑے شاعر کی برائیوں پر مشتمل ایک آدھ مضمون تو میں بھی لکھ ہی ماروں کہ مجھ جیسوں کے لیے سستی شہرت کا اس سے آسان طریقہ کوئی نہیں۔ ;)
 

Dilkash

محفلین
وارث صاحب

میں نے الف عین صاحب کو ایک دفعہ لکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب انتھائی منہ پٹ ادمی ھے۔
ہاں یہ ہے کہ وہ ایک علمی شخصیت ضرور ہے او بعض اوقات جب علم ہضم نہیں ہوتا تو اس قسم کی عادتیں سرزد ھوجاتی ھیں

فاتح صاحب
ڈاکٹر صاحب کی مقام تک پہنچنے کے لئے مجھے اور اپ کو بہت سارا سفر کرنا پڑھے گا
‘اگر ہم دس مضمون بھی لکھ لیں تب بھی ہمیں بقول اپکے یہ سستی شھرت نہیں ملے گی۔
صرف اردو ویب پر لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بڑے لکھاری بن گئے۔
گستاخی معاف
 

زیف سید

محفلین
مجھے معلوم نہیں کہ ظہور اعوان صاحب کا مضمون کتنا پرانا ہے۔ اگر یہ سال دو سال پہلے لکھا گیا ہے تو لگتا ہے کہ اس دوران یگانہ کا ستارہ گردش میں رہا ہے، کیوں کہ راولپنڈی سے نکلنے والے مستند ادبی رسالے “سمبل“ میں معروف غزل گو ظفر اقبال نے ایک مضمون قلم بند فرمایا تھا “یگانہ ایک معمولی شاعر“ اور اس میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یگانہ کا ایک شعر بھی یاد رکھنے کے قابل نہیں ہے۔

تاہم سمبل ہی کے اگلے شمارے میں ڈاکٹر ضیاالحسن نے “یگانہ ایک غیر معمولی شاعر“ کے نام سے خاصا مدلل مضمون لکھ کر ظفر اقبال کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا تھا۔ ظفر اقبال کا ایک اعتراض تو بے حد بچگانہ تھا کہ یگانہ کے ہاں خودپسندی کے مضامین بہت پائے جاتے ہیں۔ ضیاالحسن صاحب نے لکھا کہ اگر خودپسندی ہی کسوٹی ٹھہری تو پھر میر و غالب کو بھی معمولی شاعر قرار دینا پڑے گا۔

افسوس کہ دو ہفتے قبل نقلِ مکانی کے دوران یہ دونوں رسالے واشنگٹن ہی میں رہ گئے :(

زیف
 

کاشفی

محفلین
مرزا یگانہ چنگیزی لکھنوی فرماتے ہیں ۔

پڑھتا ہے کوئی شعر، کوئی سنتا ہے
مُنہ تکتا ہے کوئی، کوئی سر دُھنتا ہے

اربابِ نگاہ، رولتے ہیں موتی
اندھا نقاد، کنکری چُنتا ہے!

(مرزا یگانہ چنگیزی لکھنوی)
 

Dilkash

محفلین
مجھے معلوم نہیں کہ ظہور اعوان صاحب کا مضمون کتنا پرانا ہے۔ اگر یہ سال دو سال پہلے لکھا گیا ہے تو لگتا ہے کہ اس دوران یگانہ کا ستارہ گردش میں رہا ہے، کیوں کہ راولپنڈی سے نکلنے والے مستند ادبی رسالے “سمبل“ میں معروف غزل گو ظفر اقبال نے ایک مضمون قلم بند فرمایا تھا “یگانہ ایک معمولی شاعر“ اور اس میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یگانہ کا ایک شعر بھی یاد رکھنے کے قابل نہیں ہے۔

تاہم سمبل ہی کے اگلے شمارے میں ڈاکٹر ضیاالحسن نے “یگانہ ایک غیر معمولی شاعر“ کے نام سے خاصا مدلل مضمون لکھ کر ظفر اقبال کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا تھا۔ ظفر اقبال کا ایک اعتراض تو بے حد بچگانہ تھا کہ یگانہ کے ہاں خودپسندی کے مضامین بہت پائے جاتے ہیں۔ ضیاالحسن صاحب نے لکھا کہ اگر خودپسندی ہی کسوٹی ٹھہری تو پھر میر و غالب کو بھی معمولی شاعر قرار دینا پڑے گا۔

افسوس کہ دو ہفتے قبل نقلِ مکانی کے دوران یہ دونوں رسالے واشنگٹن ہی میں رہ گئے :(

زیف

مضمون تازہ ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
یہ رنگ و بو ایک ہی جھونکے کی ہے مہماں
قائم نہ ہوا پر کوئی بنیاد رہے گی۔۔۔۔۔
منزل کی طلب ہے تو پس و پیش کہاں تک
خالی کبھی راہ عدم آباد رہے گی ۔۔۔۔۔

یاس یگانہ چنگیزی
 
اللہ کے ولی ....!!! بیشک یگانہ نے اختلاف کیا سب سے ہے. لیکن اسکی بنیاد کیا تھی؟
انکے آتش اور میر کے بارے میں تو اقوال نقل نہیں کیئے جنھیں وہ استاد مانتے تھے.
کتاب کا ایک رخ دکھایا گیا دوسرے کو چھپا دیا گیا ہے.
انھوں نے گمراہ غالب پرستوں کو سیدھی راہ دکھانے کی کوشش کی کہ اس دور میں ہر ایک غالب بننے کی ناکام کوششوں میں ادب کا بیڑا غرق کر رہا تھا.
غالب شکنی مقصود نہیں تھی.
یگانہ با علم شخصیت تھی لیکن اہل لکھنؤ سے انکی یہ بات برداشت نہ ہوتی کے کوئی انکی غلطیوں کی نشاندہی کرے. اور اسی سچ کی انہیں سزا ملی.
میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ غلط کو غلط کہنا کوئی غلطی نہیں.
اور یہ بات نہ تو اس وقت کسی سے برداشت ہوتی تھی اور نہ ہی آج کسی سے ہوتی ہے.

لیکن یگانہ جیسے بال کی کھال نکالنے والے ہر دور میں ہوتے ہیں چاہے انہیں کوئی کچھ بھی کہے :)
 
یگانہ ایک متنازع شخصیت تھے، اور ان کی طبیعت بھی کچھ ایسی تھی کہ وہ خود بھی ہنگاموں میں گھرا رہنا پسند کرتے تھے۔ لکھنو کے شعرا سے معرکہ آرائیوں کے علاوہ انھوں غالب پر بھی ہاتھ صاف کرنا مناسب سمجھا۔ بات صرف زبانی کلامی یا اکا دکا مضامین ہی پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ یگانہ نے ‘غالب شکن‘ کے نام سے باقاعدہ کتاب بھی لکھ ماری۔ غالب پر تو کیا اس کا کیا اثر ہوتا، خود یگانہ کی مخالفت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔

خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

یگانہ کی خود پسندی کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ ’غالب شکن‘ کے سرورق پر یگانہ نے اس پر اپنا نام میرزا یگانہ چنگیزی لکھنوی علیہ السلام لکھوایا تھا۔

تاہم ان ہنگامہ خیزی کے باوجود جدید دور میں یگانہ کے ادبی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے اور آج ان کو بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کے اہم ترین شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
 
یگانہ کے بارے میں مشفق خواجہ مرحوم نے بہت تحقیقی کام کیا ہے ان کی تمام کتابوں کو یکجا کردیا ہے کلیات یگانہ کے نام سے
مشفق خواجہ مرحوم کی عمر کا آخری دور یگانہ پر تحقیق کرتے ہوئے ہی گذرا ہے

السلام علیکم! مجھے مشفق خواجہ کا مرتبہ کلیات نہیں مل رہا۔ اگر کوئی آن لائن لنک ہے تو برائے کرم ارسال کیجیے۔
 
السلام علیکم خرم بھائی! میں آج کل مرزا یگانہ پر ایک مقالہ لکھ رہا ہوں۔ آپ کامطلوبہ کلیات بھی میرے پاس موجود ہے۔ آپ تشریف لائیں کسی دن۔
 
Top