مرزا طاہر کو یکم نومبر کو پھانسی دی جائے گی!

آصف

محفلین
یہ بی بی سی کی خبر کی سرخی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں یہ خبر اتنی دفعہ شائع کی جا چکی ہے کہ ہر انسان کے دل میں خوامخواہ ایک قاتل کیلئے رحم کے جذبات زور پکڑ چکے ہیں۔ مجھے مرزا طاہر پر اسلئے بھی ترس آرہا ہے کہ اس نے اگر موت کی سزا پانی ہی تھی تو اٹھارہ سال تک کونسی سزا بھگتی ہے۔ قاتل میں نے اسلئے کہا ہے کیونکہ اسے بلا استثناء پاکستان کی تمام عدالتوں بشمول سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کی جانب مجرم قرار دیا گیا ہے۔
بی بی سی اور دوسرے تمام نشریاتی اداروں سے شعور رکھنے والے قارئین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ جہاں وہ مرزا طاہر کی حالت زار پر اتنا لکھتے ہیں وہاں وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ مقتول کے خاندان کا کیا موقف ہے۔ اگر پاکستان کی سپریم کورٹ تک نے اس کو قتل عمد کا مجرم سمجھا ہے تو بی بی سی کیوں بار بار مندرجہ ذیل کلمات کو دہراتی ہے:

" ٹیکسی ڈرائیور نے مرزا طاہر حسین کو اسلحہ کے زور پر لوٹنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی اور اس دوران ہاتھا پائی میں گولی چلنے سے ڈرائیور ہلاک ہو گیا"

کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ مرحوم کے بھائی کا بیان نشر کیا بھی تو یہ کہ "ہم غیرت مند لوگ ہیں ہم خون معاف نہیں کریں گے۔" گویا اس میں بھی مقتول کے گھر والوں کو ہی بدنام کرنے کی کوشش کی۔

میرا موقف اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔
1۔ اگر پاکستانی تمام عدالتوں سے یہ شخص مجرم قرار پا چکا ہے تو یا تو اس کو معاف کرنے سے پہلے ان عدالتوں کو رخصت کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان عدالتوں کے شر سے بچ سکیں یا پھر اس شخص کو قتل عمد کے جرم میں پھانسی دی جائے۔
2۔ مقتول کے لواحقین کو اس بناء پر بدنام کرنا کہ وہ اپنے مقتول کے قتل کا انصاف کیوں چاہتے ہیں، یہ ہر اچھی شہرت رکھنے والے ادارے کیلئے باعث شرم ہونا چاہئیے۔
3۔ ہر خبر رساں ادارے کو یہ بھی نشر کرنا چاہئیے کہ آخر وہ کیا ناقابل تردید شواہد ہیں جن کی بنیاد پر عدالتوں نے اس شخص کو مجرم قرار دیا ہے۔


جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ اس شخص کو معاف نہیں کر سکتے کیونکہ یہ شخص باقاعدہ سزا یافتہ ہے اور وہ آمر نہیں ہیں۔ اس بیان پر وہ کتنا عمل کرتے ہیں، اس پر ہمیں نظر رکھنی ہو گی۔ پاکستان میں بم دھماکوں کے جرم میں سزائے موت پانے والے بھارتی جاسوس کا معاملہ بھی دوبارہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خیال ہے کہ حکومت اس کو بھی پاکستانیوں کا قتل عام معاف کرنا چاہ رہی ہے۔
 

زیک

مسافر
امریکہ میں سزائے موت کس کس طرح unfair ہے اس کے بارے میں کافی studies ہوئی ہیں۔ اس بارے میں پڑھنے کے بعد میں ایک عام قاتل کو سزائے موت دینے کے حق میں نہیں۔

پاکستان کے عدالتی نظام کا تو امریکہ سے بھی بہت برا حال ہے۔

باقی بی‌بی‌سی وغیرہ کو اس بارے میں دونوں فریقین کا مؤقف بیان کرنا چاہیئے اور اگر وہ ایک سائیڈ لیتے ہیں تو پھر اس کی وجوہات بھی بتانی چاہیئیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ایسی تمام خبروں میں بین السطور بی بی سی کا سزائے موت کی مخالفت میں موقف ظاہر ہوتا ہے۔ مغربی دنیا سزائے موت کی خاصی مخالفت ہے اور غالباً یورپ کے تمام ممالک میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے۔ حتی کہ ایسے جنسی جنونی پکڑے جاتے ہیں جنہوں نے بچوں کو زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا ہوتا ہے۔ لیکن انہیں بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔ کبھی کبھار انہیں سزا کی مدت پوری ہونے سے قبل بھی چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ پھر سے اپنی کارکردگی دہرائیں۔ اور کئی مرتبہ واقعی ایسے لوگ جنسی جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں جو کہ پہلے سے ایسے ہی جرائم میں سزا یافتہ تھے۔
 

آصف

محفلین
بی بی سی نے بالآخر مقتول جمشید (آپ کو نام پڑھ کر ایسا لگا ہو گا کہ پہلی دفعہ سنا ہے، اسی کو میڈیا کہتے ہیں!) کے گھر والوں کے موقف کے بارے میں بھی زبان کھولی ہے۔ مقتول کے چچا نے قاتل کے اپنے ہاتھ کا لکھا یہ خط بھی میڈیا کو پیش کیا ہے:

’صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ اور آپ کا مجرم ہوں۔ جمشید خان مرحوم و مغفور کے قتل ناحق جیسے ظلم عظیم پر انتہائی نادم و شرمندہ ہوں اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن اور اللہ کی رضا میں راضی ہوں‘
 

قیصرانی

لائبریرین
درست کہا نبیل بھائی اور آصف بھائی اور تلمیذ بھائی

اٹھارہ سال تک تو سنا ہے کہ قاتل مفرور رہا تھا
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے جہاں‌تک یاد پڑتا ہے کہ خبر کچھ ایسے تھی کہ وہ قتل کرکے واپس برطانیہ چلا گیا تھا۔ بہت عرصے بعد جب یہاں‌آیا تو پکڑا گیا
 
مرزا طاہر حسین پر الزام ہے کہ اس نے انیس سو اٹھاسی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کو سن اس وقت قتل کر دیا جب طاہر برطانیہ سے پاکستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئے تھے اور ٹیکسی میں سفر کر رہے تھے ۔ اس وقت ملزم کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔
طاہر اور اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور نے مرزا طاہر حسین کو پستول کے زور پر جنسی ہراساں کرنے اور لوٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران ہاتھا پائی میں بندوق چلنے سے ڈرائیور قتل ہوگیا تھا۔
مرزا طاہر حسین کے وکیل سینیٹر خالد رانجھا کے مطابق ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت سنائی ۔ ہائی کورٹ‌نے ٹرائل کورٹ‌سے مقدمہ دوبارہ سننے کو کہا ۔ دابارہ سماعت میں ٹرائل کورٹ‌نے ملزم کو سزائے عمر قید سنائی ۔ عمر قید کی سزا کے خلاف دوبارہ لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔خالد رانجھا کے مطابق تاہم بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے لکھا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور اپیل کی سماعت کا اختیار وفاقی شرعی عدالت کو ہے۔ جس پر ان کے مطابق شرعی عدالت نے سماعت کی اور ملزم کو نوٹس دیئے بغیر سزائے موت سنا دی گئی ۔۔سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جو مسترد ہوگئی اور بعد میں نظر ثانی کی درخواست بھی رد کر دی گئی۔۔۔
 
Top