مدرز ڈے یا یومِ ماں --- ماں جیسے عظیم رشتے سے مذاق، ناطقہ سے

مغزل

محفلین
مدرز ڈے یا یومِ ماں
ماں جیسے عظیم رشتے سے مذاق

(میرے اظہاریہ ناطقہ سے )

ایک لڑکا ایک لڑکی سے بہت پیا ر کرتا تھا، کہتا تھا کہ میں تمھارے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں، جو مانگو ،لا کر دے سکتا ہوں، لڑکی نے کہا، اچھا اپنی ما ں کا دل لادو، بد بخت لڑکے نے ماں کا دل نکال لیا اور چل پڑا اپنی محبوبہ کو دل پیش کرنے ، راستے میں ٹھوکر لگی تو زمین پر گر پڑا ، ماں کا دل ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا پڑا ، دفعتاً ماں کے دل سے آواز آئی ، ’’ارے ۔۔ بسم اللہ ۔۔ بیٹا لگی تو نہیں ، دیکھ کر چلا کرو‘‘

عزیز قارئین ، مذکورہ واقعہ ایک کہاوت ہے جو ماضی کے گم کردہ اوراق سے ایک دوست نے ہمیں ’’ ماں کے عالمی دن ‘‘ پر ارسال کی، من حیث القوم ہماری بدنصیبی یہ رہی کہ ہم مجموعی غلامانہ ذہن کے مالک ہیں ،فرنگی معاشرے میں مادی دوڑ میں انسان کے معاشرتی ، سماجی اور اخلاقی رویوں میں‌اس قدر بڑی دیواریں کھڑی ہوگئی کہ مادی تگ و دو کی دوڑ میں بحیثیتِ معاشرتی حیوان اپنی جبلت کے مطابق روحانی سکون رشتوں میں تلاش کرنا پڑا، کائناتی کلیے کے تحت سب سے زیادہ قریبی تعلق تخلیق کرنے والا کا ہوتا ہے ، جس کے لمس سے زندگی لہروں کی طرح رگوں میں دوڑتی ہے اور یہ رشتہ ماں کا ہے ۔مادہ پرستی کے جھمیلے انسان کو ماں کی طرف جانے سے محروم کرنے لگے تو انہیں ’’ منانے ‘‘ کو ماں کا دن طے کرنا پڑا یوں ماں ایسی ہستی کو تکلف کے خانے میں قید کردیا گیا، مادہ پرستی کی دوڑ میں سرشار قومیں یہ بھول جاتی ہیں کہ ان کی اپنی روایات و اقدار کیاہیں چند مالدار ممالک نے دنیا کو کائناتی گاؤں تسلیم کرنے کا نعرہ بلند کیا تو تہذیبوں میں ٹکراؤ اور طرح بے طرح کی خرابیوں نے جنم لیا سو ہم بھی پستی کے مارے غلامانہ ذہنیت کے عکاس غیروں کی تقلید میں صرف یہ دن منا کر سمجھتے ہیں کہ ماں سے محبت یا اس رشتے کا حق ادا کردیا ہے حالانکہ ماں یا یہ رشتہ اس تکلف کا محتاج نہیں، جسے قدرتی تفاخر حاصل ہو اسے محتاجی نہیں ۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں منایا جانے والا دن یومِ ماں اینا میری نامی ایک خاتون کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اینا میری امریکا میں ورجینیا کی مغربی ریاست کے ویبسٹر نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئی ،12مئی 1907 کو اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس نے اپنی ماں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ” مدرز ڈے “ نامی تہوار کی بنیاد رکھی۔جبکہ اس کا خیال ایک شاعرہ وارڈ ہوے نے 1872 میں پیش کیا ،اندھی تقلید کرنے والی قوم کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کیااس سے پہلے ماں موجود نہ تھی ، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے عالمی یومِ خواتین کا نام تبدیل کر کے یومِ ماں رکھتے ہوئے کہا کہ یہ دن ہر برس 8 مارچ کو منایا جاتا ہے اور سوویت عہد میں اس نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔ صدر نے کہا مزید کہا کہ تاجک ماؤں کو "8 مارچ کو ماضی کی طرح منانے کی بجائے ہماری ثقافت کے جذبے اور ہمارے عوام کی روایات کے مطابق منانا چاہیے۔" رحمان نے کہا کہ ان علاقوں میں 3,000 برس قبل ماؤں کا ایک تہوار منایا جاتا تھا جو آج کل تاجکستان کا حصہ ہیں۔ "فروری کے اختتام یا اوائلِ مارچ میں آریوسی مرد اپنی بیویوں اور ماؤں سے اظہارِ تشکر کیا کرتے تھے۔ یہ ہماری ثقافت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔

نبی ِ کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھا : یارسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے (ماں کا یا باپ کا) ، رحمتِ عالمیان سرورِ‌دوجہاں صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’تیری ماں کا ‘‘، اس شخص نے پھر پوچھا، دوسری اورتیسری بار بھی ارشاد ہوا کہ ’’ تیری ماں کا ‘‘ ، چوتھی بار ارشاد فرمایا ’’ تیرے باپ کا ‘‘۔۔ کیا غضب ہے کہ فرمانِ رحمت نشان سے ہمیں سیری حاصل نہ ہوئی اور ہم غیروں کی تقلید میں سال کے 364 دن ماں کو مشینی زندگی کی نذر دکردیں اور ایک دن ’’ ماں ۔۔ ماں ۔۔کرتے پھریں ‘‘ ۔۔اب چونکہ گیارہ مئی شروع ہوچکی ہے سو میں اظہاریہ تحریر کررہا ہوں وگرنہ مجھ پر بھی یہ چھاپ لگتی کہ ’’ مدرزڈے ‘‘ پر ہی ہمیں یہ اظہاریہ لکھنے کی توفیق کیوں ہوئی سو حجت تمام کرنے کو تاریخ گزرنے کا انتظار کیا، ماں کے قصیدے پڑھنے یا تہنیتی کارڈ اور مراسلوں سے اگر کچھ بنتا تو آج سے 1400 سال کا یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کو کافی ہے:

ایک شخص نے رحمتِ دوعالم صل اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی معذور ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے کیا میرا حق ادا ہوگیا ، ارشاد ہوا ابھی تو اس رات کا حق ادا نہیں ہوا جس رات تونے بستر گیلا کردیا تھا اور تیرے ماں نے تجھے سوکھے (خشک جگہ) پر سلا یا اور خود گیلے میں سوئی تھی۔

آئیے طے کرتے ہیں کہ ہم کس کی تقلید کریں گے غیروں کی یا اپنی جبلت کی ، جبلت ہی اختیار کر لی جائے تو مالک و مولیٰ نے ہمارے خمیر میں‌وہی راہ رکھی ہے جس سے ہم ہٹ گئے تو رہنمائی کو کم و بیش ایک لاکھ پیغمبر ، پیغمبر زادیاں ، نبی اور رسول مبعوث کیے ۔اللہ ہم سب کو سوچنے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور استقامت عطاکرے ۔ اب ماں کے حوالے سے چند شعر پارے آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے:

ہائے وہ رات جو احباب میں کٹ جاتی تھی
ہائے وہ ہاتھ جو دروازہ کھلا رکھتے تھے
(لیاقت علی عاصم)

’’گرم سوئٹر‘‘

یاد ہے بچپن وہ سردی کادن
گر م سوئٹر کی بانہوں میں
جب میں اپنے ہاتھ سمیٹے
گھر پہنچا تھا
دروازے پر اماں کو دیکھا تھا
ہلکی چارد ، سوتی کپڑے پہنے
مجھ کو ڈانٹ کے بولی تھیں وہ
تجھ سے کتنی بار کہا ہے
ہلکے کپڑے پہن کے باہر مت نکلا کر

(قیصر منور)

ہوا جو شہرِ خموشا ں میں تیرا جانا ہو
تو ماں سے کہنا کہ ریحان گھر نہیں جاتا
(ریحان قریشی)
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ آبی بھیا، دعا کیجے اللہ ہمیں ماں ایسی عظیم نعمت سے ایسی بناوٹی لگاوٹ سے محفوظ رکھے ، امین
 
Top