مدح سیدالساجدین علیہ السلا م - علامہ السید ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی

کاشفی

محفلین
مدح سیدالساجدین علیہ السلام

زمانہ یہ تو ممکن ہے مرے بازو قلم کردے
یہ ناممکن ہے میری قوت پرواز کم کردے

خدا کیوں کر نہ اس کو صاحب جاہ و حشم کردے
جو پائے سید سجاد پر سر اپنا خم کر دے

مرے آقا مرے زین العبا اتنا کرم کردے
جو ملت ہوگئی ہے منتشر اُس کو بہم کردے

بتانِ عصر سے آزاد مالک کا حرم کردے
ترے جد کی یہ اُمت ہے اے خیر الامم کردے

تعجب کیا اگر زرخیز و طوفان خیز ہو جائے
وہ مٹی جس کو اشک سید سجاد نم کردے

نگاہ اہل دانش میں وہی ہے فاتح اعظم
بندھے ہاتھوں سے جو اونچا شہادت کا علم کردے

حیات تازہ حاصل ہو نشاط روح پیدا ہو
صحیفہ اُس کا گر پڑھ کر کوئی مردہ پہ دم کردے

مجاہد وہ، جوابِِ تیغ حیدر جس کے تیور ہوں
نظر کے زور سے مسمار ایوان ستم کردے

مؤرخ وہ، جو ارضِ شام کے اک ایک گوشہ پر
بفیضِ اشک غم تاریخ آزادی رقم کردے

مفکر وہ، جو افکار بشر کو ارتقا دے کر
جبینِ نوع انسانی کو حق کے‌آگے خم کردے

مسافر وہ، جو پابستہ دیار شام تک جاکر
فنا زنجیر کے حلقوں سے سارے پیچ و خم کردے

مدبر وہ، جو اپنے ایک حکیمانہ تبسم سے
ستم کے خوگروں کو مائل رحم و کرم کردے

دل انساں پہ گر اس کی نگاہ لطف ہو جائے
فنا ہر کعبہ انسانیت کا ہر صنم کردے

قصیدہ اس کا جولکھے کلیم عصر ہو جائے
وہ مولا ہے جسے بھی چاہے جتنا محترم کردے
 
Top