انیس مخمس بر سلامِ میر مونس - میر انیس

حسان خان

لائبریرین
چمکا خدا کے عرش کا اختر کہاں کہاں
کھایا علی کے چاند نے چکر کہاں کہاں
پہنچا سناں پہ نیرِ اکبر کہاں کہاں
اے مجرئی! گیا سرِ سرور کہاں کہاں
قرآں لیے پھرے ہیں ستمگر کہاں کہاں
یثرب میں پوچھتا تھا جو شہ سے بچشمِ تر
دل مضطرب ہے اے اسداللہ کے پسر
کعبے سے جائیے گا کہاں، قصد ہے کدھر؟
کہتے تھے شاہ، ہے یہ سفر آخری سفر
لے جائے دیکھیں ہم کو مقدر کہاں کہاں
بعدِ پدر اسیریِ زنداں کے دکھ اٹھائے
چھوٹے تو نابلد تھے کہیں بھاگنے نہ پائے
وا غربتا! کہ پنجۂ حارث میں دونوں آئے
مسلم کے لاڈلوں کو نہ چھوڑا اجل نے ہائے
چھپتے پھرے وہ بیکس و مضطر کہاں کہاں
دیکھا حواس باختہ جب حُر کی فوج کو
جانا کہ تشنگی ہے غضب حُر کی فوج کو
اپنے قریب کر کے طلب حُر کی فوج کو
پانی دیا امام نے سب، حُر کی فوج کو
برسا سحابِ رحمتِ داور کہاں کہاں
کچھ دردِ دل کا حال سناؤ تو باپ کو
مرتے ہوئے گلے سے لگاؤ تو باپ کو
برچھی کہاں لگی ہے! بتاؤ تو باپ کو
کہتے تھے رو کے شاہ، دکھاؤ تو باپ کو
کھائے ہیں زخم اے علی اکبر کہاں کہاں
ہوں بے گناہ، فوجِ غریباں گواہ ہے
نہ کوئی آشنا، نہ کوئی خیرخواہ ہے
گردابِ غم میں تیرے کرم پہ نگاہ ہے
سجاد کہتے تھے مری کشتی تباہ ہے
یارو! سنبھالوں طوق کا لنگر کہاں کہاں
سارا زمانہ غرب سے دشمن ہے تا بہ شرق
دریا پہ یہ ستم ہوں تو تڑپے مثالِ برق
تو رحم کر، صبر و رضا میں نہ آوے فرق (!!)
بابا تو سر کٹا کے ہوئے بحرِ خوں میں غرق
میں کھینچتا پھروں تنِ لاغر کہاں کہاں
دیکھے نہ یہ سنے کسی مجروح کے حواس
ضربیں گلے پہ چلتی تھیں اور کچھ نہ تھا ہراس
سوکھی زباں لبوں پہ پھرا کر بہ درد و یاس
قاتل سے شاہ کہتے تھے، کیوں دیکھی میری پیاس
انصاف کر، رکا ترا خنجر کہاں کہاں
چلا رہی تھیں بانوئے سلطانِ مشرقین
ہے ہے حسین، ہائے محمد کے نورِ عین
سر پیٹتی تھی بالی سکینہ بہ شور و شین
مقتل میں شہ کی لاش پہ زینب کے تھے یہ بین
اے بھائی روئے زینبِ مضطر کہاں کہاں
بے دست ہے کہیں مرا عباسِ نامور
قاسم کہیں پڑا ہے زمیں پر کٹائے سر
اک سوگوار خاک اڑائے کدھر کدھر
ہیں غرقِ خوں کہیں تو بھتیجے، کہیں پسر
پیٹے سر اپنا جا کے یہ خواہر کہاں کہاں
ہوتی ہیں شہر شہر (میں) اس غم کی مجلسیں
ہر جا ہیں نذرِ سرورِ عالم کی مجلسیں
کس جا نہیں ہیں ماہِ محرم کی مجلسیں
گھر گھر بپا ہے شاہ کے ماتم کی مجلسیں
جا جا کے روئے عاشقِ حیدر کہاں کہاں
ہر ذی حیات پر ہے یہ صدمہ جہان میں
ہر عضو میں یہ درد ہے، ہر استخوان میں
تن میں، رگوں میں، روح میں، لب میں، زبان میں
دل میں، جگر میں، سینۂ پرخوں میں، جان میں
ڈوبا ہے ایک غم کا یہ نشتر کہاں کہاں
جن و ملک کے دل ہیں سدا اضطرار میں
نالاں ہیں بلبلیں چمنِ روزگار میں
ماہی بھی مبتلا ہے اسی خارخار میں
افلاک میں، زمیں میں، ہوا میں، بحار میں
برپا ہے ایک ماتمِ سرور کہاں کہاں
یہ رحمتیں، یہ لطف و کرم کب ہے ابر میں
تسکیں ابھی عطا ہو، جو فرق آوے صبر میں
اللہ رے اختیار، مصیبت میں، جبر میں
دکھ میں، مرض میں، نزع میں، ایذائے قبر میں
دیکھو مدد کو آتے ہیں حیدر کہاں کہاں
ہر جا چلی، پھری سپہِ اہل غدر میں
گردن میں، سر میں، شانے میں، پہلو میں، صدر میں
بالا رہی قمر سے بھی رفعت میں، قدر میں
صفین میں، حنین میں، خیبر میں، بدر میں
چمکی علی کی تیغِ دو پیکر کہاں کہاں
باغی کمی نہ کرتے تھے، بدعت میں، کینے میں
شاخیں نئی نکالتے تھے ہر مہینے میں
کیوں خارخارِ غم نہ ہو بلبل کے سینے میں
مشہد میں، کربلا میں، نجف میں، مدینے میں
بکھرے گلِ ریاضِ پیمبر کہاں کہاں
کوفے میں، شام میں، حبش و زنگبار میں
خوشبو گئی جزیروں میں اور کوہسار میں
یاں ہے سوادِ ہند بھلا کس قطار میں
چیں میں، ختن میں، دشتِ خطا میں، تتار میں
مہکی شمیمِ کاکلِ سرور کہاں کہاں
نکہت وہ مشکِ تر کی جو تھی تار تار میں
تاروں سے پہنچی دامنِ ابرِ بہار میں
بادِ بہار لے کے گئی ہر دیار میں
چیں میں، ختن میں، دشتِ خطا میں، تتار میں
مہکی شمیمِ کاکلِ سرور کہاں کہاں
گزرے ستم جو مالکِ کوثر پہ دہر میں
ہے پیچ و تاب بحر کی ایک ایک لہر میں
کیوں سرخ آندھیاں نہ اٹھیں شہر شہر میں
صحرا میں، قتل گاہ میں، ریتی میں، نہر میں
ٹپکا ہے خونِ سبطِ پیمبر کہاں کہاں
ہر دم سرِ بریدہ تھا ایذائے سخت میں
روتا تھا خوں، فراقِ تنِ لخت لخت میں
پر تھی پسِ فنا بھی صعوبت جو بخت میں
چوبِ سناں میں، قلعے کے در میں، درخت میں
لٹکا ہے شہ کا فرقِ مطہر کہاں کہاں
تھا ماہِ فاطمہ پسِ مردن بھی سیر میں
گہ اپنی انجمن میں، کبھی بزمِ غیر میں
گہ زیرِ کوہ، گاہ مکانِ عذیر میں
صندوق میں، تنور میں، زنداں میں، دیر میں
رکھا حسین کا سرِ انور کہاں کہاں
بے پردہ شہر شہر گئے اژدہام میں
پہنچے یزیدِ نحس کے دربارِ عام میں
دیکھے حدیث، شک ہو جسے اس کلام میں
رے میں، دیارِ کوفہ میں، اقلیمِ شام میں
آلِ نبی پھرے ہیں کھلے سر کہاں کہاں
لکھا ہے بنتِ فاطمہ کی سرگذشت میں
پیٹی منہ اپنا، دیکھ کے سر شہ کا طشت میں
آنسو تھمے نہ تا بہ وطن بازگشت میں
شہروں میں، جنگلوں میں، پہاڑوں میں، دشت میں
بھائی کو روئی زینبِ مضطر کہاں کہاں
حالِ عوام جانتے ہیں صاحبِ علوم
جو خاص ہیں اسی طرف ان سب کا ہے ہجوم
اکثر انیس نے یہ کہا ہے، علی العموم
مونس ترے سخن کی ہوئی شش جہت میں دھوم
تیغِ زباں کے پہنچے ہیں جوہر کہاں کہاں
(میر انیس)
 
Top