انیس مخمس بر سلامِ مرزا فصیح - میر انیس

حسان خان

لائبریرین
غل ہے جہاں میں مری تقریر کا
نظم میں ہر مصرعہ ہے تاثیر کا
ہے یہ سبب عزت و توقیر کا
ہوں میں سلامی شہِ دلگیر کا
مومنو مداح ہوں شبیر کا
بھولتی اک دم نہیں ہے یادِ شام
وردِ زباں ہے شہِ والا کا نام
نالہ و اندوہ سے ہے دل کو کام
روتا ہوں جب کرتا ہوں موزوں کلام
ہے یہ سبب نظم کی تاثیر کا
سینے میں جو آتشِ غم تیز ہے
آہِ دلِ زار شرر ریز ہے
اشک میں خونِ جگر آمیز ہے
دل غمِ شبیر سے لبریز ہے
ورد ہے ہر دم مری تقریر کا
پڑھنا ہے قرآں کا مقدم پڑھو
مرثیۂ شاہ بھی ہر دم پڑھو
محفلِ غم میں کتبِ غم پڑھو
اہلِ عزا سورۂ مریم پڑھو
شوق اگر ہے تمہیں تفسیر کا
ہائے یہ خاصانِ خدا دکھ سہیں
بس میں ستمگاروں کے قیدی رہیں
حال جو اِن کا ہے اُسے کیا کہیں
اشک مرے کیوں نہ مسلسل بہیں
دھیان ہے بیمار کی زنجیر کا
رونا ہے اب شہ کے لیے فرضِ عین
دشتِ ستم میں نہ ملا جس کو چین
آہ نہ کس طرح کروں شور و شین
یاد مجھے آتا ہے حلقِ حسین
حلق کٹا دیکھ کے نخچیر کا
برچھی کا پھل دیکھوں جو میں نامراد
ہوتا ہے دل پر غمِ اکبر زیاد
خاطرِ غمگیں نہیں اک لحظہ شاد
تیر و کماں دیکھ کے آتا ہے یاد
زخمی گلا اصغرِ بے شیر کا
ننھی سی جاں پر جو یہ صدمہ ہوا
درد سے تھرانے لگے دست و پا
بات نہ کچھ کرنے کا یارا رہا
دیکھ کے بابا کی طرف ہنس دیا
زخم لگا حلق پہ جب تیر کا
خوں جو ٹپکنے لگا سوفار سے
جان نے رخصت لی تنِ زار سے
اشک بہے چشمِ گہربار سے
چوم لیا شاہ نے منہ پیار سے
خون میں ڈوبی ہوئی تصویر کا
گر جو پڑے خاک پہ گھوڑے سے شاہ
پیاس سے حالت تھی نہایت تباہ
گرد تھی زخمی کے عدو کی سپاہ
کاٹ لے سر شاہ کا جس دم یہ آہ
قصد ہوا ظالمِ بے پیر کا
کھینچ کے تب شمر نے تیغِ دودم
سینۂ پُرنور پہ رکھا قدم
کانپ گئے کرسی و لوح و قلم
شہ نے کہا سجدے کو ہونے دے خم
وقت نہیں ہے مری تکبیر کا
عرش کے حامل کریں جن کا ادب
اُن پہ یہ ظلم اور یہ رنج و تعب
حاکمِ فاسق کرے اُن کو طلب
شان میں جن بیبیوں کے، ہے غضب
ہو نزول آیۂ تطہیر کا
سر کھلے بلوے میں ہوں وہ خوش صفات
ہائے ستم اور کوئی پوچھے نہ بات
خلق میں ہے عقدہ کشا جن کی ذات
اُن کے بندھے شام میں رسی سے ہات
حال یہ ہو عترتِ شبیر کا
سائے سے بھی اپنے جنہیں تھا عذر
شام میں ہے ہے وہ پھریں دربدر
ظالموں کی عورتیں ہوں اپنے گھر
بانوئے شبیر کا عریاں ہو سر
منہ ہو کھلا شاہ کی ہمشیر کا
کوئی ردا دے تو کہیں کینہ جو
ہیں یہ گنہگار انہیں چادر نہ دو
ہاتھوں سے اور بالوں سے منہ ڈھانپ لو
بلوے میں اس شکل سے ناموس ہو
سیدِ باعزت و توقیر کا
ذبح جو وہ شاہِ شہیداں ہوا
نازنیں تن خون میں غلطاں ہوا
دفن ہر اک دشمنِ دیں واں ہوا
روتی تھی زینب کہ نہ ساماں ہوا
تربتِ شبیر کی تعمیر کا
تیرِ ستم چلتے تھے سوئے حسین
سیکڑوں ظالم تھے عدوئے حسین
خشک تھا بن پانی گلوئے حسین
تر ہوا سب خون سے روئے حسین
زخم لگا سر پہ جو شمشیر کا
جب کہا دلہا نے دلہن سے کہو
مرنے کا صاحب ہمیں اب اذن دو
شرم سے تادیر نہ کچھ بولی وہ
پڑھ کے جو نوشاہ نے تعویذ کو
ذکر کیا باپ کی تحریر کا
شکلِ قلم سینے میں دل شق ہوا
اشکوں کا سہرا سا بس اک بندھ گیا
زانوئے اندوہ پہ سر کو جھکا
بولی دلہن جو کہ چچا نے لکھا
تھا یہی لکھا مری تقدیر کا
مثلِ انیس اب ہے فراغت فصیح
ہوں میں غنی شہ کی بدولت فصیح
خاک مجھے زر کی ہو حسرت فصیح
جب سے ملا صرۂ تربت فصیح
شوق نہیں ہے مجھے اکسیر کا
(میر انیس)
 
Top