داغ محوِ قدِ یار ہو گئے ہم - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(جہانِ اُستادِ بلبل ہندوستان مقرب الخاقان زمن اُستاد السلطان ِ دکن فصیح الملک دبیر الدولہ ناظم یار جنگ نواب میرزا خاں صاحب داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ )

محوِ قدِ یار ہو گئے ہم
سُولی پہ چڑھے تو سُو گئے ہم

ہوش آتے ہی محو ہوگئے ہم
جب آنکھ کھُلی تو سُو گئے ہم

بیخود شبِ ہجر ہو گئے ہم
قسمت کو سُلا کے سُو گئے ہم

مستِ مئے حسن ہو گئے ہم
زانو پہ کسی کے سُو گئے ہم

پیری میں جوان ہوگئے ہم
جب صبح ہوئی تو سُو گئے ہم

راحت سے عدم میں ہوگئے ہم
منزل پہ پہنچ کے سُو گئے ہم

جاگے تھے بہت شبِ جدائی
جنت میں بھی جا کے سُو گئے ہم

اُس بزم میں دل نے ساتھ چھوڑا
اِک آئے وہاں سے دو گئے ہم

بعد اپنے لڑے رقیب سے وہ
یہ تخمِ فساد بو گئے ہم

کافر کہیں ہم کو یا مسلماں
اَب ہو گئے جس کے ہو گئے ہم

جب زلف کی بو سُنگھائی تم نے
دیوانے تمہارے ہو گئے ہم

اب روئے گا ہم کو اِک زمانہ
اگلوں کو جہاں میں رو گئے ہم

محفل سے تری ملا یہ ہم کو
دل اپنی گرہ سے کھو گئے ہم

چوری کا ہے مال کہتے ہیں وہ
دل دے کے بھی چور ہوگئے ہم

دل لینے کی تم کو آرزو تھی
اَب جان سے اپنی لو گئے ہم

دُنیا ہی میں کیوں یہ فرد اعمال
اشکوں سے نہ اپنے دھو گئے ہم

تھی عشق کی آبرو ہمیں سے
وہ بعدِ فنا ڈبو گئے ہم

کل آئے جو وہ کہیں سے اے داغ
آج اُن کے سلام کو گئے ہم
 
Top