چوہدری لیاقت علی
محفلین
محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے
یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے
سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا
ترے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے
دمشق عشق میں دیوار و در کی حسرت کیا
مسافروں کو تو رہنا ہی گرد راہ میں ہے
تمام راستے جاتے ہیں ایک منزل تک
کہیں گئے بھی تو آنا اسی کی راہ میں ہے
وہ شہ سوار مری روشنئ جاں ہے، نصیرؔ
نہ جو سپاہ سے باہر نہ جو سپاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے
یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے
سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا
ترے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے
دمشق عشق میں دیوار و در کی حسرت کیا
مسافروں کو تو رہنا ہی گرد راہ میں ہے
تمام راستے جاتے ہیں ایک منزل تک
کہیں گئے بھی تو آنا اسی کی راہ میں ہے
وہ شہ سوار مری روشنئ جاں ہے، نصیرؔ
نہ جو سپاہ سے باہر نہ جو سپاہ میں ہے