نصیر ترابی محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے۔نصیر ترابی

محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے


یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے

سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا
ترے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے

دمشق عشق میں دیوار و در کی حسرت کیا
مسافروں کو تو رہنا ہی گرد راہ میں ہے

تمام راستے جاتے ہیں ایک منزل تک
کہیں گئے بھی تو آنا اسی کی راہ میں ہے

وہ شہ سوار مری روشنئ جاں ہے، نصیرؔ
نہ جو سپاہ سے باہر نہ جو سپاہ میں ہے
 
محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے

ہوا کے پیچ میں آئے ہیں رشتہ و پیوند
گلیم میں ہے وہ سج دھج نہ اب کُلاہ میں ہے

ادھر تو وقت عجب کچھ قیامتی آیا
اماں اسے بھی نہیں جو تری پناہ میں ہے

یہ رُخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی مری نگاہ میں ہے

سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پسِ سخن کیا کیا
ترے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے

شعاعِ مہر کہاں کوفۂ چراغاں کہاں
سیاہیوں کے سوا کیا شبِ سیاہ میں ہے

دمشقِ عشق میں دیوار و در کی حسرت ہے
مسافروں کو تو رہنا ہی گردِ راہ میں ہے

چلے گا کون کہاں تک یہ دیکھنا ہے مجھے
وفا ہے جس میں ہوس بھی اسی نگاہ میں ہے

کسے خبر کہ یہاں معرکہ رسائی کا
کسی سخن میں نہیں ہے تو ایک آہ میں ہے

تمام راستہ جاتے ہیں ایک منزل تک
کہیں گئے بھی تو آنا اُسی کی راہ میں ہے

یہ گردشیوں میں درازی مجھی پہ ختم نہیں
ستارہ جو بھی تو دامِ شبِ سیاہ میں ہے

وہ شہ سوار مری روشنیِ جاں ہے نصیرؔ
نہ جو سپاہ سے باہر نہ جو سپاہ میں ہے
نصیر ترابی
1977ء
 
Top