محدثين كى تحقيقى خدمات، ايك غير مسلم محقق كى گواہی

بسم اللہ الرحمن الرحيم

محدثين كى تحقيقى خدمات، ايك غير مسلم محقق كى گواہی
ڈاکٹر گیان چند

ہر تحقيق سے پہلے كچھ تحقيق موجود ہوتى ہے ۔ بعد كے تحقيق كار كو ماضى كى تحقيق يعنى پہلے سے موجود مواد كو پرکھنا ، پھٹکنا ، چھاننا ہوتا ہے ۔ مواد كى فراہمی اور تسويد كے درميان كى منزل ہے مواد كا جائزہ لينا ، پایہ اعتبار متعين كرنا اور تصحيح كرنا ۔ یہی تحقيق كا مركزى كام ہے ۔ تحقيق كار كا علمى سرمايہ جتنا کثیر ، اور اس كى نظر جتنى تیز و عميق ہوتی ہے اسى اعتبار سے وہ اپنے حاصل مطالعہ كا بہتر تجزيہ و قدر پیمائی كر سكتا ہے ۔

ماضى كے مواد كى صحت متعين كرنے كے ليے يہ ديکھنا پڑتا ہے کہ لکھنے والا يا بيان كرنے والا راوى كون ہے اور كتنا معتبر ہے ؟ اسلام ميں حديث كى جانچ کے لیے جو اصول بنائے گئے وہ تحقيقى صحت طے كرنے كے ليے بھی مثالى كسوٹی مانے جا سكتے ہیں ۔

ڈاكٹر غلام مصطفى خان لکھتے ہیں : " روايت كے بارے ميں ان كى حزم واحتياط كا يہ عالم تھا کہ سير ومغازى تو بہت بڑی چیز ہے ۔ وہ عام خلفاء يا سلاطين كے حالات اس وقت تك بيان نہیں كرتے جب تك كہ ان كے پاس آخرى راوى سے لے كر چشم ديد گواہ تك تسلسل كے ساتھ روايت موجود نہ ہو ۔ يعنى جو واقعہ ليا جائے وہ اس شخص كى زبانى ہو جو خود شريك واقعہ رہا ہو اور اگر وہ خود شريك واقعہ نہیں تھا تو اس واقعے تك تمام درميانى راويوں کے نام ترتیب کے ساتھ بيان كيے جائيں اور ساتھ ہی یہ تحقيق بھی كى جائے کہ وہ کون لوگ تھے ؟ كيسے تھے ؟ ان كے مشاغل كيا تھے ؟ ان كا كردار كيسا تھا ؟ ان كى سمجھ كيسى تھی ؟ ثقہ كہاں تک تھے ؟ سطحى الذہن تھے یا نكتہ رس تھے ؟ عالم تھے یا جاہل تھے ؟ " (1)

راويوں كى بنا پر حديثوں كى قسميں اور قسم در قسم كى گئیں ۔ ظاہر ہے کہ ان معياروں كا ادبى تاريخ پر اطلاق كرنا مشكل بلكہ نا قابل عمل ہے ۔ ہاديانِ دين كے اقوال كى صحت كى بطور خاص حفاظت كى گئی ۔ عام انسانوں كى گفتگو كى اس طرح كہاں نگہداشت کی جاتی ہے ؟ تاريخ ادب کے راويوں كا مسلسل سلسلہ نہیں مل سکتا ۔ اگر تسلسل کے ساتھ روايت كا سر رشتہ تلاش كيا جائے تو دنيا كا تمام كلاسيكى ادب ايليڈ، اوڈیسی ، سنسكرت رامائن ، مہا بھارت ، شكنتلا، ميگھ دوت وغيرہ حرف غلط كى طرح محو كرنا پڑے گا ۔۔۔

(1) _ غلام مصطفى خان : فن تحقيق، ص 101۔

اقتباس از: تحقيق کا فن : ڈاکٹر گیان چند ، ص 188_189
 
Top