محبت ۔۔۔۔۔ س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
محبت


برستے بادل نے کہا ۔ ہوبہو مجھ جیسی ،مگر دل مطمئن نہ ہوا ۔ پربہار گلستاں سے پوچھا اس نے کہا میرے دامن میں کھلے ہر گل جیسی، مگر قرار دل کو نہ آیا۔ جستجو لہروں سے لڑتے ساحل تک لے پہنچی تو سمندر نے کہا میری آغوش کی طرح گہری ، میرا من لیکن بسمل ہی رہا، جنوں کے ہاتھوں جانے کہاں کہاں نہ بھٹکا، وہ مجھ کو ہرمفکر، عالم، نقاد غرض ہرمعتبر کے پاس لے پہنچا مگر تشنگی تمام نہ ہوئی تھک ہار کر واپسی کا ارادہ کیا۔ایک مدت بعد گھر کی چوکھٹ تک پہنچا تو بوڑھی دو آنکھوں کو اپنا منتظر پایا، زمانے بھر کی سختی اور یخ بستہ رویے کو سہہ کر آیا تھا خود بھی مردہ ہو چلا تھا کہ اس نے اپنی چھاتی سے لگا لیا، جہاں بھر کی سردی پل میں مٹ گئی، مردہ وجود میں جیسے جان پڑگئی زندگی میرے وجود میں دوڑنے لگی، معلوم نہیں کب میری آنکھیں بھیگ گئیں، اُس نے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے میرے آنسو پونچھے، ساون تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، چاہتا تھا کہ دھاڑیں مار مار کر روں، جہاں بھر کو اپنے آنسووں کی فریاد سناوں، اپنی کم فہمی پر ماتم کروں، میں اسی کیفیت میں تھا کہ یکایک دل پکار اٹھا ۔۔’’ہا ں یہ ہی ہے، ہوبہو اس جیسی، بالکل ایسی ہی تو ہوتی ہے، سچ یہ وہ ہی ہے‘‘ اور پھر میرے بیقرار دل کو قرار آگیا ۔ عمر بھر کی بے کلی پل بھر میں مٹ گئی، دل نے کہا ’’ بیشک ایسی ہی تو ہوتی ہے اپنے دامن پر ہر داغ، دل پر زخم لیکر بھی پیاروں کو رونے نہیں دیتی، اپنی آغوش میں جہاں بھر کاغم سمیٹ کر پیاسے کو سیراب کرتی ہے خوشی سے نہال کرتی ہے، اپنا قرار لٹا کر بےکلی کو سکوں فراہم کرتی ہے، خود میں ہو کر فنا اپنے آپ سے وابستہ جان کو قائم رکھتی ہے، بےغرض قربان ہو کر اوروں کوسانسیں انعام کرتی ہے، بیشک وہ یہ ہی ہے ، ہاں بالکل ایسی ہی ہے خود تکلیف میں رہ کر اوروں کی خوشی میں خوش رہتی ہے، راتوں کی نیند، اپنا تمام آرام اپنے پیاروں کے واسطے قربان کرکے تمام عمر سفر میں رہتی ہے بیشک محبت ماں جیسی ہوتی ہے، ہر موسم میں ضرورت مند کو اس کی ضرورت فراہم کرتی ہے، اوروں کی غرض بے غرض پوری کرتی ہے، بلاشبہ محبت ماں جیسی ہوتی ہے‘‘۔ آگاہی کی اس منزل کو پانے کے بعد میں اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر بچپن کی میٹھی نیند جوانی میں لے رہا تھا،اس وقت سوتے میں بھی ایک مسکراہٹ میرے لبوں پر سجی ہوئی تھی اورجہاں بھر کا اطمینان میرے چہرے سے عیاں تھا۔


س ن مخمور
امر تنہائی
 
Top